بابری مسجد :کچھ اصل ہے ،کچھ خواب ہیں،کچھ طرز ادا ہے
(Dr Tasleem Rehmani, India)
بابری مسجد کی شہادت کے ۲۳؍سال مکمل ہوگئے
ہیں،اس کی شہادت کے اگلے ہی دن اس وقت کے وزیراعظم نرسمہاراؤ نے یہ اعلان
کیاتھا کہ مسجد اسی جگہ دوبارہ تعمیر کی جائے گی،آج تک مسجد تو تعمیر
نہہوسکی البتہ مندر وہاں ضرور قائم ہے اورمسجد کی شہادت سے اب تک وہاں رام
للا کے مندر میں مستقل پوجاجاری ہے ۔ہر چند کہ عالی شان مندر کا خواب ابھی
تک شرمندہ تعبیر نہیں ہواہے لیکن مندر کے اس ٹینٹ کے اندر ہی ہر قسم کی
سہولیات دستیاب ہیں اور مسجد کے احاطے میں اس سے ملحق زمین پر بھی اونچے
اونچے بریکیڈلگادیے گئے ہیں۔پورے خطے پر پولس کا کنٹرول ہے۔قطار درقطار
سینکڑوں زائرین اور ’’آستھاوان‘‘لوگ ملک کے کونے کونے سے وہاں جاکر درشن
کرتے ہیں،پوجاکرتے ہیں اورچڑھاوے چڑھاتے ہیں۔بابری مسجد کے اس احاطے میں
کسی بھی مسلمان کے داخلے پر سخت پابندی ہے اوریہ سب کچھ سیکولر،جمہوری ،سماج
وادی ملک کے اس آئین کے تحت اوراس عدلیہ کے حکم کے تحت ہورہاہے جو انصاف
قائم کرنے کے لیے ہیں۔۲۰۰۴میں ایک مرتبہ مجھے بھی اس مندر کی زیارت کا شرف
حاصل ہواہے،میں کسی کام سے فیض آباد گیاتھا،دہلی کے ریٹائرڈ پولس افسرموجی
خان مرحوم میرے ہمرکاب تھے،ہم دونوں نے طے کیاکہ کسی طرح اندر
جاناچاہیے۔فیض آباد سے اجودھیامیں جیسے ہی داخل ہوئے سی آئی ڈی کے لوگ جانے
کیسے ہمیں پہچان گئے اوروہیں سے ہمارے پیچھے ہولیے ۔مندر کے گیٹ پر پہنچے
تو تعینات پولس افسران کو سی آئی ڈی نے اشارہ کردیا۔انھوں نے ہم سے ہماری
شناخت پوچھی اوریہ جاننے کے بعد کہ ہم مسلمان ہیں ہمیں اندر جانے سے روک
دیا۔موجی خان صاحب نے اپناپولس والاتعارف کروایاتو تعینات لوگوں نے کچھ
نرمی کا مظاہرہ کیااورکہاکہ اپنے بڑے افسران سے پوچھ لیں۔ایک کے بعد ایک
کئی افسران سے پوچھا گیااورتقریباایک گھنٹہ انتظار کے بعد ہمیں داخلے کی
اجازت مل گئی وہ بھی اس طرح کہ دوپولس والے آگے اوردوپیچھے چل رہے تھے۔ہم
تلاشی وغیرہ سے فارغ ہوکر اندر گئے تو اونچی اونچی لوہے کی سلاخوں والے
پنجرہ نماراستے میں جو ایک روش کی صورت میں تھا،جس میں بمشکل دوآدمی ایک
ساتھ چل سکتے تھے ،ہم دونوں چلتے ہوئے جب عین اس غاصبانہ مندرکے پاس پہنچے
تو پجاری نے بڑی شردھاکے ساتھ پرشاد پیش کیاجسے لینے سے ہم نے انکار
کردیاتو پجاری سمجھ گیااورطنزاًبولاـ’’اوہو!بابری مسجد دیکھنے آئے ہیں‘‘۔یہ
ہے آج کی بابری مسجد کا اصل منظر۔
مسجدیں عموماشہید ہوتی رہتی ہیں اوراب پچھلی تین دہائیوں سے تو یہ حال ہے
کہ آپ مشترکہ آبادی والے گاؤں اورشہروں میں کسی نئی مسجد کی تعمیر تو
درکنار ،پرانی مسجد کی مرمت بھی نہیں کرسکتے۔مغربی بنگال ،راجستھان،مدھیہ
پردیش،گجرات وغیرہ ریاستوں میں کانگریس کے ہی دورحکومت میں ایسے قوانین پاس
کردیے گئے ہیں کہ مسجد یاقبرستان کی تعمیر ومرمت کے لیے ڈی ایم سے اجازت
لینی پڑتی ہے اورڈی ایم اجازت دے یا نہ دے مقامی غیر مسلم آبادی اتنے
اعتراضات کرتی ہے کہ جان بوجھ کر نقص امن کا اندیشہ پیداکردیتی ہے اورپولس
انتظامیہ کو موقع فراہم کرتی ہے کہ نقص امن کے بہانے مسجد کی تعمیر ومرمت
کو روک دے۔ایسے ہی قانون اترپردیش کی بی جے پی حکومت بھی چند سال قبل پاس
کرناچاہتی تھی مگر مسلمانوں نے اتناشدید اعتراض کیاکہ اس بل کو ٹھنڈے بستے
میں ڈالناپڑا۔قانون تو پاس نہیں ہوسکامگر عملااترپردیش میں کسی نئی مسجد کی
تعمیر یامرمت تقریباناممکن ہوچکی ہے۔اسی طرح ہریانہ ،دہلی،راجستھان اورکئی
صوبوں میں متعددمسجدوں کو حال ہی کے ایام میں شہید کیاگیاہے اورعوام نے ہی
نہیں کئی سرکاری اداروں نے بھی پرانی مساجد پر بلڈوزر چلائے ہیں۔دہلی کا ڈی
ڈی اے اس میں پیش پیش رہاہے۔دہلی میں تو بہت سے وقف قبرستانوں پر بھی دہلی
سرکار کا قبضہ ہے ۔واضح رہے کہ دہلی میں زیادہ ترعرصے کانگریس کی ہی سرکار
رہی ہے اوراسی سرکار کے تحت غیر قانونی کہہ کر یاآثار قدیمہ کا نام لے کر
یاایسے ہی دیگر بہانوں سے مساجد کو شہید کیاگیاہے۔مسلمانوں نے احتجاج بھی
خوب کیے ہیں،کچھ مساجد واگزار بھی ہوئی ہیں مگر یہ سب کچھ لگاتار جاری ہے ۔ان
حالات میں ایک بابری مسجد بھی شہید ہوگئی تو بجاطور پر پوچھاجاسکتاہے کہ جب
اتنی مساجد ملک میں اکثر شہید کی جاتی رہتی ہیں تو بابری مسجد کی شہادت میں
کیاخاص بات ہے۔بابری مسجد محض ایک مسجد کا معاملہ نہیں ہے ،۱۹۴۸کے اواخر
میں عین کانگریس کی حکومت کے دوران سازش کے تحت مسجد کے منبرکے پاس مورتیاں
رکھی گئیں اورفسادبپاکیاگیا،مقدمہ درج کروایاگیا جس نے یہ صاف ظاہر کردیاکہ
ملک میں آزادی کا طلوع ہونے والانیاسورج دراصل ملک کی فسطائی قوتوں کے لیے
آزادی کا پروانہ لے کر آیاہے ۔اس دن مسجد میں محض مورتیاں نہیں رکھی گئی
تھیں بلکہ فسطائی ذہن نے ایک فسطائی حکومت کی بنیاد رکھی تھی جو ۲۰۱۴میں
حکومت سازی کے عمل کے ساتھ مکمل ہوگئی جس کا اظہاراشوک سنگھل نے اپنے اس
بیان کے ذریعے کیاکہ آٹھ سو سال کے بعد ہندوؤں کی حکومت قائم ہوئی ہے۔بابری
مسجد کی شہادت محض ایک عام سی مسجد کی شہادت نہیں تھی بلکہ اس ملک میں رہنے
والے سب سے بڑے مذہبی گروہ کے وقار ،اس کی عزت وآبرواوراس کی مذہبی آزادی
کی شہادت بھی تھی۔۱۹۴۸سے لے کر آج تک کے واقعات پر ایک طائرانہ نظر بھی ڈال
لی جائے تو صاف ظاہر ہوجاتاہے کہ حکومت میں کانگریس جیسی سیکولرزم کی
دعوایدار پارٹی موجود ہویابھارتیہ جنتاپارٹی جیسی فسطائی پارٹی ہو،ذہنیت
ایک ہی ہے۔سب جماعتوں کی حکومت کے دوران فسطائی ذہنیت کی پرورش کی جاتی رہی
ہے،کسی بھی حکومت نے اس ذہن کی کرشمہ سازی پر کوئی قدغن لگانے کی عملی
جدوجہد کبھی نہیں کی۔یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۴۸سے لے کر اب تک
بابری مسجد کے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوسکا۔۳۰؍ستمبر۲۰۱۰کو الٰہ آباد ہائی
کورٹ کی لکھنوبنچ نے پورے ۶۲؍سال کے بعد ایک فیصلہ سنایاتھا۔تین ججوں کی
بنچ نے تمام ثبوتوں،شہادتوں اورگواہیوں کو درکنار کرکے رام للا کے حق تسلیم
کرلیااورتین حصوں میں بابری مسجد کی جگہ کو تقسیم کرکے دوحصے ہندوؤں کے
حوالے کیے جانے کا عجیب وغریب فیصلہ صادر فرمادیا۔اس فیصلے کو سپریم کورٹ
میں چیلنج کیاگیامگر آج پانچ سال گزر جانے کے بعد بھی معاملہ وہاں
زیرالتواء ہی ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ ۶۷؍سال سے انصاف پسند ملک کی یہ
عدالتیں اتنے سنسنی خیز اورمخدوش معاملے پر کوئی بھی فیصلہ صادر کرنے سے
معذور ہیں،کیایہ امر بجائے خود حیران کن نہیں ہے کہ کوئی مقدمہ اتنے طویل
عرصے تک عدالت میں زیرالتواء رہے ۔آخرکتنے مقدمے اس ملک میں ایسے گنوائے
جاسکتے ہیں جن کا فیصلہ آنے میں اس قدر طویل مدت درکارہوئی ہو،ظاہر ہے کہ
عدالتوں پر بھی کہیں نہ کہیں انھیں سیاسی آقاؤں کا اثر ہے جو ملک میں
فسطائیت کی آبیاری کرتے رہے ہیں۔بابری مسجد کے سلسلے میں جتنی بھی ایف آئی
آر ہوئی ہیں،یالبراہین کمیشن قائم ہواہے سب کے سب طاق نسیاں کی زینت بن
گئے۔بابری مسجد کی شہادت کے حالات کی تحقیق کرنے والالبراہن کمیشن ۱۶؍دسمبر
۱۹۹۲کو ہی تشکیل دے دیاگیاتھاجس کو اپنی رپورٹ محض تین ماہ میں داخل کرنی
تھی مگر کسی نہ کسی مجبوری کے تحت بار بار اس کی مدت کار میں توسیع کی جاتی
رہی اور۴۸؍بار توسیع کرنے کے بعد آخر کار ۳۰؍جون ۲۰۰۹کو ۱۷؍سال کے بعد یہ
رپورٹ منظر عام پر آئی جس نے مجرمین کی واضح نشاندہی کی۔لال کرشن اڈوانی ،کلیان
سنگھ،اشوک سنگھل جیسے کئی بڑے بڑے ناموں کی جانب اس کمیشن نے انگشت نمائی
کی مگر آج چھ سال گزر جانے کے بعد بھی اس رپورٹ پر کوئی کارروائی نہیں
ہوئی۔المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے کسی بھی ظلم کے خلاف کمیشن
تو بہت بنتے ہیں،ان کی رپورٹیں بھی دیر سویرآہی جاتی ہیں،مجرمین کی نشاندہی
بھی کردی جاتی ہے مگر کارروائی کبھی نہیں ہوتی ،چاہے شری کرشناکمیشن رپورٹ
ہویالبراہن کمیشن کی رپورٹ ہو۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں پر دست درازی کے لیے
ملک کا ہر ہاتھ آزاد ہے ،قانون ،سزا،محاسبہ سے نڈر اوربے خوف جب جو چاہے
جہاں چاہے مسلمانوں کے خلاف فساد بپاکرسکتاہے مسجدیں شہید کرسکتاہے ،قبرستانوں
پر قبضے کرسکتاہے ،گائے کے الزام میں بھیڑ اکٹھاکرکے نہتے بے قصور کو قتل
کرسکتاہے ،پولس اپنی وردی میں ڈیوٹی پر رہتے ہوئے مسلمانوں کو ایک لائن میں
کھڑے کرکے گولی مارسکتی ہے اورپھر لاشیں نہر میں بہاسکتی ہے اورسب جان جاتے
ہیں کہ اصل مجرم کون ہے مگر سزاکسی کو نہیں ملتی ۔اس کے برعکس ان مجرمین کو
انعامات سے سرفراز بھی کیاجاتاہے ۔ان کے عہدوں میں ترقیاں بھی دی جاتی
ہیں۔غور سے دیکھیے،بابری مسجد کی شہادت کے جتنے مجرم ہیں وہ سب نہ صرف یہ
کہ آزاد ہیں بلکہ اس ملک کے حکمراں بھی ہیں۔کلیان سنگھ راجستھان کے
گورنرہیں،لال کرشن اڈوانی مسجد کی شہادت کے بعد اس ملک کے نائب وزیراعظم
اوروزیرداخلہ بھی بن گئے ۔بہت سے دوسرے لوگوں کو دوسری وزارتیں بھی ملیں۔جو
چھوٹے لیڈر تھے وہ سب بھی حسب اوقات کم از کم ایم پی اورایم ایل اے تو بن
ہی گئے۔ساکشی مہاراج اوریوگی آدتیہ ناتھ ایسی ہی مثالیں ہیں۔ان تمام چیزوں
سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ بابری مسجد کی شہادت محض ایک مسجد کی شہادت کا نام
نہیں ہے بلکہ ملک میں فسطائیت کے فروغ اوراس کی آزادی کا کھلم کھلااوربے
لاگ اعلان ہے۔
۱۹۹۲کے بعد سے اب تک ہر ۶؍دسمبر کو ملک میں مسلمان یوم غم مناتے ہیں
اورہندوشوریہ دیوس مناتے ہیں۔۲۳؍سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے ۔ہر سال ملک کے
مختلف مقامات پر بے تحاشامسلم تنظیمیں احتجاجی ریلیاں کرتی ہیں،جلسے جلوس
کرتی ہیں،میمورنڈم دیتی ہیں اوراس امر کا اعادہ کرتی ہیں کہ ہم عدالت کے
فیصلے کا احترام کریں گے لیکن پھر ۷؍دسمبر کو ہی سب کچھ بھول کر اگلے سال
کا انتظار شروع ہوجاتاہے۔بابری مسجد کے نام پر بہت سی تنظیمیں اورانجمنیں
قائم ہیں،سب خاموش ہوجاتے ہیں۔گویایہ بھی ایک رسم ہوکہ بس ایک دن یوم غم
مناکر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجایاجائے ۔چھوٹی بڑی تمام تنظیموں کا
یہی حال ہے ۔اس حال کا انجام بھی سب جانتے ہیں،اس انجام کا ایک نمونہ الٰہ
آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں بھی مضمر ہے۔لبراہن کمیشن کی رپورٹ کو غور سے
پڑھیے تو صاف لکھاہے کہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی اورآل انڈیامسلم پرسنل لاء
بورڈ کے وکیل اپناکیس پیش کرنے میں ناکام رہے۔انھوں نے وکیلوں کے نام بھی
لکھے ہیں جنھیں میں یہاں تحریر نہیں کررہاہوں۔اسی طرح الٰہ آباد ہائی کورٹ
کے فیصلے میں بھی تین میں سے ایک جج جسٹس صغیر خان نے صاف لکھاہے کہ بابری
مسجد کے وکیل اپناکیس ٹھیک سے پیش نہیں کرسکے۔حیرت کی بات ہے کہ دونوں
دستاویز سامنے ہونے کے باوجود بھی وکیل نہیں بدلے گئے ۔ملک کے بڑے بڑے
کامیاب اورمایہ ناز وکیلوں نے یہ مقدمہ مفت لڑنے کی پیش کش کی تھی جسے بورڈ
کے ذمہ داران نے ٹھکرادیااورنتیجہ سامنے ہے۔۶۸؍سال کے اس عرصے میں بابری
مسجد کا مقدمہ لڑتے لڑتے ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے اورمسجد بالآخر شہید
ہوگئی اورامت ہے کہ سال میں ایک دن یوم غم مناکر مطمئن ہوجاتی ہے ،حالات
بھی سب کے سامنے ہے ۔آخر ان حالات میں اپنوں اورغیروں کی بے مروتی ظلم
اوربے ایمانی کے ہوتے ہوئے یہ امت کس سے یہ امید کررہی ہے کہ وہ اس کے ساتھ
انصاف کرے گا اوربابری مسجد کو دوبارہ اس کے مقام پر ایستادہ کردے گا۔ایک
بے عمل ،بے فکر،بے حس اوربے پرواہ امت اوراس کے اکابرین بناکسی تحریک کے
چلائے ،بناکسی منظم جدوجہد ،بناکسی اعلیٰ پایہ کے قانونی پیروی اوربناکسی
مستقل ولگاتار عوامی جدوجہد کے ،بابری مسجد کی بازیابی کیسے کرے گی ،یہ میں
آج تک نہیں سمجھ پایا۔ہاں،البتہ اگر ہندوفسطائی قوتیں خود ہی اپنی داخلی
مجبوریوں کے تحت اس مجوزہ عظیم الشان مندر کے ہدف سے باز آجائیں تو شاید
مسلمانوں کو مفت میں کچھ راحت مل جائے،ورنہ انجام تو ظاہر ہی ہے۔ |
|