16 دسمبر سانحہ مشرقی پاکستان اور تجدیدِ نظریہ پاکستان کا دن
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
نریندر مودی جب سے بھارتی وزیر اعظم بنے
ہیں اُنھوں نے پاکستانیوں کو نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ کا بھولا ہو
اسبق خود یاد کروادیا ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم محترمہ حسینہ واجد پاکستان
دشمنی میں جل بھون رہی ہیں۔
یوں یہ دونوں آپس میں شیر و شکر ہیں بھارتی وزیر اعظم نریندر موددی نے
بنگلہ دیش میں اپنے دورئے کے دوران یہ زہر اُگلا کہ ہاں ہم نے ہی مشرقی
پاکستان کو علحیدہ کیا تھا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ خود بھی پاکستان
توڑنے میں شامل تھا۔ اِسی طرح بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد پاکستان کے
خلاف ایک ایسی نفرت کا اطہار کررہی ہیں کہ جس کی مثال آج کل کی مہذب دنیا
میں نہیں ملتی۔ حسینہ واضد اپنے ہی ہم وطنوں کو پھانسی پر لٹکا رہی ہے
جنہوں نے سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت پاکستان بننے کی جد وجہد کی تھی، اُس
وقت طاہر اُن کا ملک پاکستان تھا اُنھوں نے اپنے وطن سے وفاداری نبھائی تھی
۔ بعد میں وہی سیاسی رہنماء بنگلہ دیش کی سیاست میں حصہ لیتے رہے۔ حتی کہ
وہ بنگلہ دیش کی حکومت میں بھی شامل رہے اب اُن سیاسی رہنماؤں کو جو اِس
وقت بزرگی کی عمر کو پہنچے ہوئے ہیں اُن کو اُس وقت پاکستان سے محبت کرنے
کی سزا دی جارہی ہے اور اُن کو ایک نام نہاد عدالتی ٹربینول کے ذریعے سے
پھانسی دی جارہی ہے۔ پاکستان سے دشمنی کی بدترین مثال قائم کرکے شیخ مجیب
الرحمان کی صاحبزادی بھاری وزیراعظم نریندری مودی کی ہم رکاب بنی ہوئی ہے۔
16 دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا تاریک پہلوہیجو اِس المیے کی
یاد دلاتا ہے جب اس وطن کو پارہ پارہ کردیا گیاپاکستان اپنے وجود کو برقرار
نہ رکھ سکاپاکستان کے حکمرانوں اور پاکستانی عوام کے دل ایک ساتھ نہیں
دھڑکتے ۔انگریز کی غلامی ،اور ہندو کی غلامی سے بچنے والے پاکستانی اب بھی
غلام ہیں آقا بدل گئے غلام وہی ہیں۔لاکھوں شہادتوں اور عصمتوں کی قربانی کے
طفیل حاصل ہونے والا وطن مایوسیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔دہشت گردی،
لاقانونیت،بیروزگاری ہر پھیل گئے ہے ۔اشرافیہ کا تمام وسائل پر قبضہ ہے چند
ہزار لوگوں نے اٹھارہ کروڑ عوام کو معاشی و سماجی طور پر یرغمال بنا رکھاہے
اسی طرح غریب طبقے سے اُبھرنے ولالی سیاسی قوتیں بھی اقتدار کی غلام گردشوں
میں پھنس کر رہ گئیں مذہب کا نام استعمال کرکے عوام استحصال کیا جارہا ہے
موجودہ حالات اور ایسی قیادتوں کے ہوتے ہوئے ہم کیسے اِس گرداب سے نکل سکتے
ہیں ،ہے اِس کا کوئی قابل عمل حل ۔حضرت ِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ عالماں از
علم قران بے نیاز صوفیاں درندہ گرگ ومو درازیعنی آج کے علماء قران کے علم
سے لاپرواہ ہیں جب کہ صوفی گویا پھاڑ کھانے والے بھیڑیا بنے ہوئے ہیں اور
لمبے بالوں والے ہیں۔دنیا میں انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے انسان اور
مسلمان میں فرق کیا ہے۔ مسلمان بننا کس طرح کے افعال کا متقاضی ہے۔اگر ہم
سب ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں اور اپنے آپ سے جسے ضمیر بھی
کہا جاتا ہے اُس کی بھی مدد لیں کہ کیا انسان کی تخلیق کا وہ مقصد ہے جو
دنیا میں ہور ہا ہے۔کیا انسان اور مسلمان میں کوئی فرق ہے۔ اگر ہے تو وہ
کیا ہے۔کیا مسلمان بن کر ہم معاشرے میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں کیا
ہمارئے اور غیر مذاہب کے افعال و اعمال میں کوئی فرق ہے یا نہیں۔وقت جس
سُرعت کے ساتھ گزر رہا ہے اور وطن پاک کو جس طرح کے حالات کا سامنا ہے کیا
سانحہ مشرقی پاکستان سے کوئی بھی سبق سیکھا گیا۔اصل میں پاکستان میں حکمران
طبقہ اور ہے اور عوام الناس کا تعلق کسی اور طبقے سے ہے۔ حکمرانوں کے قلب و
اذہان عوام کے جذبات سے کوسوں دور ہیں۔عوام ہے کہ دہشت گردی، لاقانونیت بے
روزگاری کی چکی میں پس رہی ہے جبکہ حکمران اپنے محلات میں خوابِ خرگوش کے
مزے لُوٹ رہے ہیں۔ عوام بھوک اور افلاس کے گرداب میں پھنس چُکے ہیں لیکن
مجال ہے کہ حکمرانوں نے اپنا وطیرہ بدلہ ہو۔ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن
جانا اور عام لوگوں کا یہ سوال کہ پہلے تو ہندو اور انگریز کی غلامی سے
چھُٹکارہ حاصل کرنے کے لیے اور علیحدہ مسلم ریاست بنانے کے لیے بٹوارا کیا
گیا لیکن 1971 میں مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننا کس سے آزادی کے لیے
تھا۔مسلمان کو مسلمان سے ہی آزادی کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ایک ہوں مسلم حرم
کے پاسبانی کے لیے کے نظریئے کو کس طرح موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ یہاں یہ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان روس اسرائیل گٹھ جوڑ نے پاکستان دو لخت کیا
،اور ان ممالک کی سازشوں نے ایک نوزائیدہ ملک کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تو
اُس وقت اِس ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنیوالے کہاں
تھے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور اِس بات کا جواب ہمیں جسٹس حمود الرحمان کی
رپورٹ سے بھی ملتا ہے کہ اِس سانحے کے پیچھے غیر ممالک کے علاوہ پاکستانی
سول و فوجی اسٹیبلیشمنٹ کا بھی غفلت اور کوتاہیوں سے بھر پور کردار ہے۔ہوس
ہنوز تماشا گر جہانداری است، وگرچہ فتنہ پس پردہ ہائے زنگاری است (زبور عجم)
حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ہوس ابھی تک اسی فکر میں ہے کہ کس طرح دنیاوی
ما ل ودولت اکھٹی کی جاسکتی ہے۔ ہرئے رنگ کے پردوں (آسمان) کے پیچھے اور کو
نسا فتنہ پوشیدہ ہے؟ دنیا میں جتنے بھی فتنے فساد پیدا ہوئے اُن کا سبب ہوس
ہی ہے۔ غیر ملکی سازشوں کے لیے ان سازشی ممالک کومیر جعفر و میر صادق میسر
آ تے رے رہے اور میر جعفروں کی ہوس نے وطن کو پارہ پارہ کردیا۔تاریخ میں یہ
رقم ہے کہ مشرقی پاکستان میں رہنے والے شیخ مجیب الرحمان کی سیاسی قوت کو
مغربی پاکستان کے سیاستدان مسٹر بھٹو نے عملاً تسلیم نہ کرکے مشرقی پاکستان
کی علیحدگی کے مطالبہ کو پورا ہونے میں اہم کردار ادا کیا اور ادھر تم اور
ادھر ہم کا نعرہ لگا دیا گیا۔ بنگالی عوام جہاں سے مسلم لیگ کا خمیر اُٹھا
تھا وہاں مکتی باہنی ہندوستانی انٹیلیجنس اداروں نے مل کر جلتی پر تیل کا
کام کیا۔ کیونکہ پاکستان کی عوام کی آواز حکمرانوں سے بہت دور تھی اور
حکمرانوں کو عوام کے جذبات کی کوئی قدر نہ تھی ۔اُنھیں قدر تھی تو صرف اپنی
حکمرانی کی بھلے ملک ٹوٹتا ہے تو ٹوٹ جائے اور پھر وہی ہوا جس پاکستان فوج
کو دُنیا کی بہترین فوج مان جاتا ہے وہی فوج ہتھیار ڈال کر پوری دنیا میں
خود بھی رُسوا ہوئی اور پاکستان اور اُس کی عوام کو بھی رُسوا کیا
گیا۔ترانوئے ہزار فوجیوں کا ہتھیار ڈالنا اور فوجی بھی وہ جن کا نعرہ تکبیر
ہو جس نعرے سے قیصروکسریٰ کے ایوانوں میں زلزلہ بپا ہوا تھا ۔ وہی نعرہ
تکبیر لگانے والی فوج شرمناک شکست کی حامل قراردے دی گئی۔ آخر ہماری اندر
اتنی سمجھداری کیوں نہیں آسکی کہ ہم اُس بدترین شکست سے کوئی سبق سیکھ
سکتے۔معاشیات میں ایک تھیوری ہے جس کو غربت کا منحوس چکر کہا جاتا ہے اُس
چکر کے مطابق غریب اتنا پھنس جاتا ہے کہ وہ غربت کے گرداب سے نکل نہیں پاتا
ہماری قوم بھی اِسی طرح کے منحوس دائرے میں پھنس چکی ہے اور یہ منحوس دائرہ
اشرافیہ نے بنا رکھا ہے ۔ اب جب یہ منطق پیش کی جاتی ہے کہ لوگ جھوٹ کیوں
لو گ بولتے ہیں چوری کیوں کرتے ہیں یہ سب کچھ حکمران تو نہیں کہتے کہ
کرو۔اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے جب ماحول ہی ایسا تخلیق کر
ڈالا ہے تو پھر سچ اور جھوٹ میں فرق روا رکھنے کا علمبردار کون ہوگا۔جب
رہنماء راہزن کا روپ دھار چکے ہیں تو خیر کہاں سے آئی گی۔بقول اقبالؒ چوں
بنام مصطفیٰ خوانم درود ازخجالت آب میگردد وجود (مسافر مثنوی) یعنی جب میں
نبی پاک ﷺ کی ذات والا صفات پر درود بھیجتا ہوں تو میرا وجود شرم سے پانی
پانی ہوجاتا ہے مزید فرماتے ہیں کہ، عشق می گوید کی اے محکوم غیر، سینہ
تواز بتاں مانند دیر یعنی کہ عشق کہتا ہے کہ او غیر کے محکوم: تیرا سینہ تو
بتوں کی وجہ سے بت خانہ بنا ہوا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اعمال کچھ ہیں-
افعال اور طرح کے ہیں جو اقوال کی تصدیق نہیں کرتے۔قوم کو ایسی لیڈر شپ کی
ضرورت ہے جو کہ قوم کو ذہنی پستی سے نکا لے اور خودار قوم بنائے۔
نمازیں،روزئے،عمرئے حج سب غروری ہیں لیکن بقول اقبالؒ پہلے مسلمان تو بن
جائیں غیر کے محکوم نہ بنیں،مسلمانی کی ابتدائی تعریف پر پورا اُترنے کی
ضرورت ہے باقی کام تو بعد کے ہیں جیسے بقول اقبالؒ کہ تیرا دل تو ہے صنم
آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں۔پہلے توحید کو تو اپنے اندر وارد تو کرلیں
جب تک ہم مکمل طور پر رب کو ماننے والے نہیں بنیں گئے تب تک ہم رسوا ہوتے
رہیں گئے۔ہے جُرمِ ضیفی کی سزا مرگِ مفاجات |
|