اسلام آباد کانفرس اور طالبان کی حقیقت

اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں چودہ ممالک کے حکام نے شرکت کی جس کا بنیادی مقاصد خطے میں عموماً اورافغانستان میں خصوصاً امن کی صورت حال پرغور وخوص کیا گیا۔ یہ کانفرس پانچویں دفعہ منعقد ہورہی ہے جو اس دفعہ اسلام آباد میں منعقد ہوئی ۔ اس کانفرنس میں افغان صدر اشرف غنی کے علاوہ بھارتی وزیر خارجہ سشماسراج نے بھی شرکت کی ۔ کانفرنس کا آغاز کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ افغانستان کا دشمن پا کستان کا دشمن ہے جبکہ خطے میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان میں امن ہو ، جب تک افغانستان میں امن نہیں ہوگا ،خطے میں بھی امن نہیں آسکتا۔ میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ داعش جیسے دہشت گردی تنظیموں کی کارروائیوں سے عزم مزید مضبوط ہوا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے بہت کامیابیاں ملی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے اپنے خطاب میں کہا کہ دہشت گردی کامقابلہ پوری عالمی براداری کی ذمہ داری ہے۔پاکستان اور افغانستان نے اس جنگ میں اپنے بچے کھو دئیے ہیں۔افغانستان میں عالمی تنظیموں کی دہشت گردی اہم مسئلہ ہے ۔ افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ پا کستان میں دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن کی وجہ سے بہت سے دہشت گرد افغانستان داخل ہوئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردی مشترکہ مسئلہ ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دہشت گردی مشتر کہ مسئلہ ہے ۔ سب سے زیادہ نقصان دہشت گردی کی اس جنگ میں پاکستان اور افغانستان کو پہنچا ہے ۔ پاکستان نے جہاں پر سو ارب سے زیا دہ کا نقصان اٹھایا وہاں پر پچاس ہزار سے زیادہ افراد کی جانی قربانی بھی دی۔ ان سب کے باوجود پا کستان کے کردار کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اسی طرح افغانستان میں کا فی نقصان ہوا ہے ۔ حالات آج پہلے سے بھی زیادہ خراب ہے ۔ پہلے طالبان سے لڑائی جاری تھی اب داعش بھی میدان میں آگئی ہے جس نے مزید مسئلے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔سب ممالک اس بات پر متفق ہے کہ دہشت گرد کسی بھی ملک کے دوست نہیں ۔دہشت گردی سے متفق طور پر نمٹاناچاہیے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آج افغانستان سمیت خطے میں امن نہیں ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی پورے خطے میں پھیلاتی گئی ہے۔ مختلف تنظیمں معرض وجود میں آتی ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پورے وسائل کے باوجود دہشت گرد تنظیموں اور گروپوں کو شکست نہیں دی جاسکتی یعنی وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہورہے ہیں۔ جس کے پس پردہ حقائق یہ ہے کہ تمام ممالک ایک دوسرے کے ساتھ منافقت اور دوغلی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جب تک کھلے دل کے ساتھ ایک پالیسی نہیں بنائی جاتی اور حقیقی معنوں میں مسائل حل کرنے اور دہشت گرد تنظیموں کی مالی سپورٹ بند نہیں ہوتی ، ایک دوسرے پر اعتماد قائم نہیں ہوتا اس وقت تک دہشت گرد اپنے منصوبوں اور کارروائیوں میں کامیاب ہوتے رہیں گے۔ افغانستان میں جب تک افغان طالبان کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جائے گا اور افغان طالبان کو اقتدار میں شامل نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک ان کی کارروائیاں جاری رہے گی ۔ طالبان کا موقف میں وزن بھی ہے اور عام افغان ان کو سپورٹ بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آج تک کامیاب ہے جب کہ افغان حکومت کی جانب سے یہ الزامات بھی لگائے جاتے ہیں کہ طالبان کی مدد پاکستان سے کی جاتی ہے جس کو دور کرنے کے لیے افغان حکومت کے ساتھ مل کر حقائق پر مبنی بات کر نی چاہیے اور ایک دوسرے کے تحفظات ختم کرنے چاہیے۔ افغان طالبان افغانستان میں ایک بڑی حقیقت ہے کل بھی انہوں نے قند ہار ائر پورٹ پر حملہ کیا اس طرح جب اور جہاں وہ چاہے حملہ اور قبضہ کر تے ہیں جس سے ان کی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ نائن الیون سے پہلے ان کی افغانستان پر حکومت تھی جس کو افغان عوام کی نظر میں کا میاب حکومت کہا جاتا ہے۔ان کا ایجنڈا بھی عالمی دہشت گردی کا نہیں اور نہ ہی وہ کسی ملک کے خلاف دہشت گرد ی کو سپورٹ کرتے ہیں لیکن افغانستان کے ان حالات سے دوسرے ممالک اور دہشت گرد تنظیمیں فائدہ اٹھاتی ہے۔ جس کا اقرار افغان صدر اشرف غنی نے بھی کیا کہ ہر قسم کے دہشت گرد افغانستان میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔ان حالات میں ضروری ہے کہ افغان طالبان کو مذاکرات میں انگیج کیا جائے اور ان کو جس طرح بھی ہو حکومت میں شامل کیا جائے ۔ ان کے بہت سے مطالبات پر عمل کیا جاسکتا ہے ۔امر یکا سمیت عالمی ممالک نے پندرہ سال سے کوشش کی کہ طالبان کو شکست دی جائے لیکن اس تمنا میں وہ خود شکست سے دوچار ہوگئے۔ طالبان کے اس مطالبہ پر غور اور عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ امریکا افغانستان سے نکل جائے۔ اب وقت کی ضرورت اور امر یکا کے مفاد میں ہے کہ افغانستان کو چھوڑا جائے اور یہ حق اور مرضی افغانیوں کو دی جائے کہ وہ ملک میں کیسا نظام لانا چاہتے ہیں جس سے افغانستان میں امن قائم ہوسکے ۔ افغانستان میں طالبان ایک حقیقت ہے جس کو تسلیم کرنا ہوگا۔ طالبان کی حقیقت کو تسلیم نہ کرنے سے داعش جیسے تنظیمیں کو افغانستان میں جگہ مل رہی ہے جو پورے خطے کے امن کے لئے مسئلہ بن سکتی ہے۔

ہر ملک یہ کہتا ہے کہ افغانستان میں امن خطے کے امن سے مشروط ہے۔دوسرا بھارت ، پاکستان، سعودی عرب اور ایران سمیت ہر ملک کو اپنی ذمہ داری کا مظاہر کرنا ہوگا۔ اپنی لڑائیاں چھوڑ کر افغانستان میں مثبت رول ادا کرنا ہوگا ، جب تک حقیقی معنوں میں مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں ہوتی اس وقت تک ان اجلاسوں اور کانفرنسوں سے مسائل حل نہیں ہوں گے ۔ ان بیانات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا کہ اپ کا دشمن اور ہمارا دشمن ۔ بھارت خطے میں امن چاہتا ہے۔ ہم سب کو مل کر دہشت گردوں کے خلاف ایک قوت بننا چاہیے۔ ایسے بیانات پہلے بھی دیے گئے ہیں اور آج بھی دیے جارہے ہیں جس سے آج تک خطے میں امن قائم نہیں ہوسکا۔ ان کانفرنسوں سے عوام اور ایک دوسرے کو دھوکہ تو دیا جاسکتا ہے لیکن خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226552 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More