عسکری میڈیا ۔۔۔ملکی بقاء کی ضرورت

جس ملک کا سیاسی نظام ملک لوٹنے والوں کے ہاتھ ہو، سیاستدانوں ، صحافیوں اور کاروباری خاندانوں کے حامد کرزائی اور بھارتی حکمران طبقے سے کاروباری تعلقات ہوں اور ملک کا وزیراعظم کرسی پر بیٹھتے ہی اعلان کر دے کہ مجھے بھارت سے تعلقات استوار کرنے کے لیے پاکستان عوام نے مینڈیٹ دیا ہے اوردوسری جانب بھارتی وزیراعظم کہے کہ مجھے پاکستان توڑنے ، مسلمانوں کو ہندؤ بنانے اور پاکستان میں دہشت گردی پروان چڑھانے کا میڈیٹ ملا ہے تو اس مخمصے اور خلفشار کے ماحول میں فیصلے کا اختیار کسے ہونا چاہیے؟؟ ضروری ہے کہ ان حالات میں جب ملک کا نظام کمیشن مافیا، لینڈ مافیا ، کرپشن مافیا ، شو گر مافیا، بینک مافیا سمیت دیگر مافیاجات جس میں اینکرو صحافی مافیابھی شامل ہے کے ہاتھوں آجائے تو ایک ایسے ادارے کا قیام ضروری ہے جو دنیا کے سامنے سچائی بیان کرے اور بیرونی اور اندرونی پراپیگنڈے اور ذہنی و نفسیاتی انتشارپھیلانے والوں کو موثر اور حقیقت پر مبنی جواب دے تاکہ بیرونی دنیا اور پاکستانی عوام کو پاکستان کے متعلق اصل حقائق سے باخبر رکھا جائے۔

جہاں تک عسکری میڈیا کور کا تعلق ہے تو یہ پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ ایک میزائل بردار یا ٹینک بردار کور کی ہے ۔نام کٹے صحافی کو شائد پتہ نہیں کہ ٹینک ، توپ اور میزائل چلانے سے پہلے نفسیاتی ، معاشی ، ثقافتی اور اخلاقی جنگ جیتنا ضروری امر ہے ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی، کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ، افغانستان سے روس کا انخلا ، عراق اور لیبیا پر مغربی طاقتوں کا غلبہ اور اب شام اور یمن میں جاری خانہ جنگی نفسیاتی اور معاشی جنگ کا ہی نتیجہ ہے۔ معاشی پابندیاں لگانے سے پہلے نفسیاتی ، سیاسی ، ثقافتی اور اخلاقی محاذ کھولے جاتے ہیں اور دینی اقدار اور رسم و رواج کو تباہ کیا جاتا ہے تا کہ انسانی حقوق کی آڑ میں دیگر ہتھیاروں کو میدان میں اُتارا جائے۔
کیا ہمارا میڈیا یہ نہیں جانتا کہ طالبان اور داعش بھی تو اسلامی اور شرعی نظام کی بات کرتے ہیں اور اُن کے جہاد کا مقصد خلافت اسلامیہ کا ہی قیام ہے مگر ان کی پشت پناہی کوئی اور کر رہا ہے جسکا مقصد مسلمان حکومتوں کو ختم کرنا اور مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کوتباہ کرو اکراُن پر اپنی مرضی مسلط کرنا ہے ۔

موجودہ حالات اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ عسکری ٹیلی ویژن چینل اور ریڈیو کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ کتوں کو شہید کہنے والوں اور کہلوانے والوں سمیت مودی کے دوستوں اور وظیفہ خوروں کے پراپیگنڈے سمیت صحافتی گند سے اہل پاکستان کو خبر دار کیا جا سکے۔

جو صحافی اور اینکر زلزلہ ذدگان کے لیے بھارتی امداد قبول کرنے کا مشورہ دے رہے تھے اُ ن کی گندی ذہنیت اور لالچ تو سب کے سامنے ہے مگر اُن کی حب الوطنی بھی مشکوک ہے۔ ایک طرف پاکستان کی بیٹی کہلوانے والی ملالہ بھارت یا ترا پر ہے اور دوسری طرف ایک درویش اور انسانیت کی خدمت کرنیواے بوڑھے شخص کی بیوی اور بیٹے نے مودی کے کروڑ روپے یہ کہہ کر ٹھکرا دیے کہ ہم حکومتوں سے مدد نہیں لیتے ۔ ملالہ کا تعلق سرحدی گاندھی کے نظریات سے ہے اور بھارت اس نظریے کے حامل لوگوں اور سیاستدانوں کے لیے اجنبی ملک نہیں۔

دیکھئے ملالہ اور گیتا کی کب ملاقات ہوتی ہے اور ملالہ کی اگلی کتاب (بھارت یاترا) کب شائع ہوتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس بار گیتا کو دہلی چھوڑنے کوئی وزیر کیوں نہیں گیا؟ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں گیتا کسی دن فرفرہندی یا انگریزی بولتے ہوئے پاکستان کے خلاف کشمیر ا سنگھ کی طرح پریس کانفرنس ہی نہ کر دے ۔ ایک بڑے صحافی اور اینکر نے تو گیتا کو پاکستان اور بھارت کے درمیان گشتی سفیر مقرر کرنے کا بھی مشورہ دیا ہے جبکہ دو عدد ٹیلی ویژن چینل اس بات پر گتھم گتھا ہیں کہ گیتا کو ڈھونڈنے ،پالنے پوسنے اور بھارت تک پہنچانے کا نیک کام انہوں نے کیا ہے۔ پتہ نہیں یہ نیکوکار چینل ان سینکڑوں پاکستانیوں کا کھوج کیوں نہ لگا سکے جوان کے مربی اور من پسند ملک بھارت کی جیلوں میں بند ہیں ۔ عافیہ صدیقی نامی ایک پاکستانی بھی ہے جسے نہ صرف ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ایک صدی کے قریب اُسے سزا بھی د ی گئی ہے۔ اسی سالہ قید و بند کی سزا بھی سپر پاور امریکہ کا ہی کارنامہ ہے اور پاکستانی سیاستدانوں ، حکمرانوں اور صحافیوں کا معدہ اتنا درست ہے کہ وہ اپنی ذات اور دولت کے حصول کو چھوڑ کر ہر طرح کی بے شرمی اور بے غیراتی ہضم کر جاتے ہیں۔
 
مودی کی طرف سے زلزلہ زدگان کے لیے خیرات وصول کرنے اور گیتا کو سفیر مقرر کرنے کا مشورہ دینے والے صحافی بھول گئے کہ بھارت نے چند سال پہلے ایک جنگی قیدی سپاہی محمد حسین کو پاکستان کے حوالے کیا تھا جسکی زبان کاٹ دی گئی تھی۔وہ جنگی قیدی تھا اور اُسے جنیوا کنو نشن کے تحت کچھ مراعات بھی حاصل تھیں مگر کسی اینکر اور صحافی نے حکومت کو یہ مقدمہ یو این اومیں پیش کرنیکا مشور ہ نہ دیا ۔ ظاہر ہے کہ سپاہی محمد حسین کا خاندا ن نامور صحافیوں اور اینکروں کو جو لاکھوں روپے تنخواہ کے علاوہ حکومتوں سے کروڑوں روپے کی مراعات اور اپنے ہم خیال ملکوں اور حکومتوں سے بوریاں اور صندوق پھر کر ڈالر ، تحائف اور چھٹیاں گزارانے کی سوغات بھی وصول کرتے ہیں کی کوئی خدمت نہیں کر سکتا تھا۔اس میں شک نہیں کہ صحافت کابہروپ اپنائے یہ لوگ پاکستان میں بیٹھ کر پاکستان کے دشمنوں کی وکالت کرتے ہیں۔

نام کٹے صحافی اور ہمنوا صحافیوں کا علاج اُن کے میڈیا ہاؤسز مالکان کے پاس ہے مگر میڈیا ہاؤس مالکان کا نظریہ ، عقیدہ ، اخلاق اور حب الوطنی پیسہ ہے۔ نظریہ پاکستان کی محافظت کے دعویداروں کے بز رگوں نے بھارت جانے کی شرط رکھی تھی کہ اگر پاکستان کا صدر ٹینک پر سوار ہو کر دہلی جائے تو وہ اُسکے ہم سفر ہونگے ۔ اب اسی میڈیا ہاؤس میں بیٹھے صحافی مودی کی ترجمانی کر رہے ہیں اور وطن کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی محافظ پاک فوج پر تنقید اور طنز کے تیر برسا رہے ہیں۔

جس ملک کے ٹیلی ویژن چینل گیتا تلاشنے پر جھگڑرہے ہوں اور حکومت نے اپنی کمزوری اور بے انصافی میں فوج کو ملوث کرنے کی قسم کھائی ہو، اور نامور صحافی جنسی سکینڈل جیسے گھناؤ نے جرم میں شیطانی مسکرائٹ کیساتھ کندے پر ہاتھ رکھ کر فوج کے ملوث ہونے کے اشارے کرتے ہوں ، راجیش کھنہ کے جنازے اور تدفین پر بغیر سوچے سمجھے محض بھارتی محبت میں سرشار گھنٹوں ماتمی پروگرام کرتے رہے ہوں اور پاکستان کے ہیرو ایم ایم عالم کی رحلت پر خاموشی اختیار کرتے ہوں وہاں عسکری ٹیلی ویژن ، ریڈیو ،اخبار اور ایک طاقتور عسکری میڈیا کور کی اشد ضرورت ہے تاکہ دشمن اور اسکے ایجنٹوں کے پھیلائے ہوئے منفی پرا پگینڈے اور نفسیاتی حملوں کی روک تھام کی جائے۔ یاد رہے کہ مضبوط قلعوں کے دروازے ہمیشہ اندر سے کھولے جاتے ہیں باہر سے نہیں ٹوٹتے۔ جنگ کا مقصد دشمن کے شہروں ، قصبوں اور ہتھیار وں کوتباہ کرنے سے نہیں بلکہ ذہنی طور پر مفلوج اور بے ہمت کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر شہر تباہ کرنے اور لاکھوں لوگوں کا خون بہانے سے فتح کا پرچم لہراتا تو برطانیہ ، روس اور امریکہ افغانستان میں، اہل مغرب اور امریکہ عراق ، لیبیا ، یمن اور ویتینام میں کامیاب ہو جاتے ۔ حفاظتی نفیساتی جنگ جہاں ہتھیار بند جنگوں کو روکنے کا باعث بنتی ہے وہی دشمن کے دل میں ہیبت اور خوف بھی ڈال دیتی ہے۔ دشمن جارحیت کے بجائے خود حفاظتی کے قدامات پر غور کرتا ہے اور جنگ سے باز رہتا ہے۔ نفسیاتی جنگ موثر میڈیا اور اس سے منسلک صحافی ، دانشور ، اورا علیٰ سوچ کے حامل افراد لڑتے ہیں مگر ہماری بد قسمتی کہ ہمارا بیشتر میڈیا اپنی ہی قوم اور فوج کے خلاف نفیساتی جنگ میں مصروف ہے۔ ہمارا میڈیا دشمن کا آلہ کار اور اس سے منسلک بڑی تعداد ی میں صحافی، دانشور اور اعلیٰ سوچ کے حامل افراد زہر اگلنے ، گند پھیلانے اور پیسے کی خاطر دشمن کی زبان بولنے میں مصروف ہیں۔

سیاستدان اور حکمران ٹولہ تاجروں اور بیوپاریوں پر مشتمل ہے اور قومی خزانے کو ذاتی جدی جائیداد سمجھ کر عیاشیوں پر لٹارہا ہے۔ کیا یہ حالات اس بات کے متقاضی نہیں کہ کوئی آگے بڑھ کر ڈوبتی ناؤ کا چپو سنبھالے اور اُسے بھنور سے نکالے ۔۔؟؟؟؟
 
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 89385 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.