ممبران اسمبلی کی غیر ذمہ داری!

 قومی اسمبلی قانون ساز ادارہ ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں تشریف لانے والے ممبران معزز کہلاتے ہیں اور ان کا استحقاق قائم ہوجاتا ہے، کیو ں نہ ہو کہ ایک تو یہ اپنے عوام کے لئے قانون بناتے ہیں، ان کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں اور دوسرا یہ کہ لاکھوں لوگوں کے مینڈیٹ سے یہ لوگ اونچے ایوانوں میں پہنچنے کے قابل ہوتے ہیں، گویا ان کے پیچھے پاکستان کے عوام کی اکثریت موجود ہوتی ہے۔ انہی خوبیوں اور اہمیت کی بنا پر ان لوگوں پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں، ان کو مراعات دی جاتی ہیں، آنے جانے کا خرچ ملتا ہے، اسلام آباد میں رہنے کے لئے محفوظ رہائش گاہیں ہیں، جو کہ بعض اوقات الزامات کی زد میں رہتی ہیں۔ یہ لوگ وی آئی پی قرار پاتے ہیں، ان کے حلقوں کے لئے انہیں کے سہارے دفاتر میں جاکر اپنے کام وغیرہ نکلواتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ تعلیم یافتہ ہیں، مہذب ہیں، بااخلاق ہیں اور باکردار بھی، آئین ان پر طرح طرح کی پابندیاں بھی لگاتا ہے، آئین میں ایسی دفعات بھی موجود ہیں جو کسی بھی منتخب ہونے والے افراد کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق مرتب کرتی ہیں، ان معززین کا صادق او ر امین ہونا ایک لازمی شرط ہے، ان کا دیانتدار ہونا بھی ضروری ہے، غیر اخلاقی مقدمات میں ملوث بھی نہ رہا ہو۔ گویا قانونی طور پر معاشرے کے بہتر لوگ ہی اسمبلیوں کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔

مگر کچھ دیر آنکھیں بند کرکے حقیقت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ لوگ ویسے ہیں نہیں، جیسا انہیں ہونا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ یار لوگ ان پر تنقید کرتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ اندر سے بھی ان پر تنقید ہوتی رہتی ہے۔ انہیں خرابیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ یہ لوگ بہت سی خوبیوں کے حامل ہونے کے باوجود غیر سنجیدگی جیسے مرض میں مبتلا ہیں، جو انسان کسی کام کی تنخواہ لیتا ہے، جس بنا پر اسے مراعات مل رہی ہیں، اس کام میں بھی وہ ڈنڈی مارے، یا فرائض میں کوتاہی برتے، یا اپنے آپ کو ایک ذمہ دار شہری ثابت نہ کرسکے تو پھر قوم یا میڈیا یا کسی اور کے اعتراضات پر سیخ پا ہونے کی گنجائش نہیں رہتی، نہ ہی استحقاق کو اتنی جلدی مجروح ہونا چاہیے، اگر اَنا ہے، اور عزت کا اس قدر خیال ہے تو پھر ذمہ داری کا خیال رکھنا بھی ان کا فرض ہے، جب انسان اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور دیانتداری سے اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے تو اس پر انگلی اٹھانا آسان نہیں ہوتا، ایسے میں اگر کوئی ایک فرد انگلی اٹھائے گا تو اس کا دفاع کرنے والے بھی بہت سے اٹھ کھڑے ہونگے۔ قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس کو ہی لے لیجئے، کونسا دن ہے جس روز کورم کے ٹوٹنے کی صدائیں ایوان سے باہر تک سنائی نہیں دیتیں؟ یہ کورم بھی عجیب چیز ہے، یہ اس وقت تک نہیں ٹوٹتا ، جب تک کوئی اس کی نشاندہی نہ کرے۔ گویا کوئی غلط کام ہورہا ہے تو مل کر خیانت کا ارتکاب کیا جاسکتا ہے، اگر کوئی دشمن نشاندہی کردے تو گنتی وغیرہ ہوتی ہے اور کورم پورا کرنے کی کوشش میں گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں، سکول کے زمانے میں گھنٹی کی دہشت ہوتی تھی، یہ معززین اس موقع پر بھی گھنٹی پر ہی ایوان میں آتے ہیں۔ کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس کا جاری رہنا بھی دیانت داری کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔

بدقسمتی سے اپنے حکمران بھی ایوان کو قید خانہ ہی تصور کرتے ہیں، قوم کو شاید یاد ہوگا کہ گزشتہ برس اسلام آباد میں دھرنوں کے دوران پاکستان کے تیسری مرتبہ بننے والے وزیراعظم میاں نواز شریف سال بھر میں پہلی مرتبہ ایوانِ بالا تشریف لے گئے تھے، گویا مشکل پڑی تو انہوں نے ایوان کا رخ کیا، پھر دونوں ایوانوں کا طویل مشترکہ اجلاس کیا اور ہر روز اس میں حاضر ہوئے، حتیٰ کہ ارکان اسمبلی سے مصافحہ وغیرہ بھی شروع کردیا تھا اور اپنے دفتر میں بھی ممبران اسمبلی کو بلانا شروع کردیا تھا، مگر کیا کیجئے کہ جونہی حالات ساز گار ہوتے ہیں، ایوان کا راستہ یاد نہیں رہتا۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کو جب صدر کے خطاب پر بحث اوپن کرنے کے لئے فلور دیا گیا تو انہوں نے وزیراعظم کی غیر موجودگی میں خطاب سے انکار کردیا، کہ ایوان خالی پڑا ہے، میں کس کو اپنی باتیں بتاؤں؟ وہ یہ کہہ کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے کہ جب تک وزیراعظم ایوان میں نہیں آتے تب تک میں بحث اوپن نہیں کروں گا۔ قوم اپنے نمائندوں سے کبھی نہیں پوچھتی ، جناب آپ کہاں ہوتے ہیں، آپ نے ہمارے علاقے کے کونسے مسائل اجاگر کروائے ہیں، آپ نے قانون سازی میں کہاں تک حصہ لیا ہے؟ معزز ممبران سے پوچھنے والا کوئی نہیں، کیونکہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428547 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.