آپریشن ضرب عضب جواب پشاور دہشت گردی

جو لوگ سوچا کرتے تھے کہ دنیا میں سب سے بڑا سانحہ کیا ہو سکتا ہے، وہ سانحہ 16 دسمبر2014ء کو ساری دنیا نے دیکھا، 132 معصوم بچے اور 16 مرد و خواتین استاد شہید کردیے گے، ان بچوں میں سے کچھ ڈاکٹر ہوتے تو کچھ انجنیر، ان میں مستقبل کے سائینسداں، سیاستداں، فنکار، ادیب قلمکار، کھلاڑی سب موجود تھے۔
پشاور کےآرمی پبلک اسکول پر 16 دسمبر 2014ءکےحملے کے بعد دہشت گردی رکی نہیں۔ 30 جنوری 2015ء کو صوبہ سندھ کے شہرشکارپور کی مرکز ی مسجد اور امام بارگاہ کربلا معلی میں 150کے قریب نمازی جمعہ کی ادائیگی کے لئے موجود تھے، اس دوران ایک زور دار دھماکہ ہوا اور امام بارگاہ کی چھت زمین بوس ہوگئی جس کے نتیجے میں 60افراد شہید ہوگئے جبکہ 50 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ 13 مئی 2015ء کو کراچی میں صفورہ چورنگی کے قریب بیس سے ستر برس تک کی عمر کے 46 اسماعیلی برادری کے بے گناہ لوگوں کو شہید کیا گیا۔شہید ہونے والے افراد میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں۔ اس دہشت گردی میں شقی القلب شارپ شوٹرز نے صرف چند منٹ میں اسماعیلی برادری کے معصوم اور بے ضرر لوگوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔ گذشتہ ایک سال میں جو حالات اور واقعات سامنے آئے ہیں اُس سے یہ بات تو واضع ہوگئی ہے کہ مرکزی اورصوبائی حکومتیں آپریشن ضرب عضب میں اپنا وہ کردار ادا نہیں کررہی ہیں جو اُنہیں کرنا چاہیے۔ جس کا ایک ثبوت کراچی آپریشن ہےجس پر آجکل مرکزی اور صوبائی حکومتیں دست و گریباں ہیں ۔

پندرہ جون 2014ء کو شروع ہونے والا آپریشن ضرب عضب اب بھی جاری ہے، تازہ ترین اطلاع کے مطابق پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کو ڈیڑھ برس مکمل ہوگیا اس دوران کئی اہداف حاصل کرلئے گئے ہیں۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بعد پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن تیز کیا، آپریشن کے آخری مرحلے میں پاک افغان سرحدی علاقے کو دہشت گردوں سے صاف کیا جارہا ہے۔ اب تک ملک بھر میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر 13 ہزار 200 آپریشن کئے گئے۔ ان کارروائیوں میں 3 ہزار 400 دہشت گرد ہلاک جب کہ 21 ہزار 193 کو گرفتار کیا گیا، اس کے علاوہ دہشت گردوں کی 837 محفوظ پناہ گاہیں بھی تباہ کی گئیں۔ان کارروائیوں میں مجموعی طور پر 488 سیکیورٹی اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ ایک ہزار 914 اہلکار زخمی ہوئے، ملک بھر میں قائم 11 فوجی عدالتوں میں 142 مقدمات بھیجے گئے جن میں سے 55 پر فیصلے سنائے جاچکے،87 مقدمات ابھی زیر سماعت ہیں، ان مقدمات میں 31 دہشت گردوں کو سزائیں سنائی جاچکی ہے۔

آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار وسیع کرتے ہوئے اُنہیں عام شہریوں کے خلاف بھی مقدمے چلانے کا اختیار دیا گیا تھا تاہم یہ عدالتیں صرف اُنہی افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی مجاز ہیں جن کی سفارش پاکستان کی وزارت داخلہ نے کی ہو۔ جس کے بعدخصوصی عدالتوں نے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہونے والے متعدد افراد کو موت اور عمر قید کی سزائیں سنائی ہیں۔ خصوصی عدالتوں نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول پرحملوں کے چھ مجرموں کو سزاے موت دی جبکہ ایک مجرم کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ان میں سے چار ملزمان کو 2 دسمبر 2015ء کوخیبر پختونخوا کی کوہاٹ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی جیلوں میں اس وقت ساڑھے آٹھ ہزار کے قریب ایسے قیدی ہیں جنھیں موت کی سزا سنائی جاچکی ہے اور اُن کی تمام اپیلیں مسترد ہو چکی ہیں۔ سزائے موت کی مخالفت کرنے والی غیر سرکاری تنظیم جسٹس پاکستان پراجیکٹ کے مطابق گذشتہ دسمبر سے اب تک ملک میں 305 افراد کو تختہ دار پر لٹکایا گیا جن میں محض 63 افراد ایسے تھے جنہیں دہشت گردی کےالزامات کے تحت موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ جبکہ 183 ایسے افراد پھانسی چڑھائے گئے جو دوسرے جرائم میں ملوث تھے۔

کیا وجہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے ڈیڑھ سال کے بعد بھی دہشت گردی پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے، کراچی سے خیبر تک اب بھی لوگ سہمے ہوئے ہیں، ایسا کیوں؟ بدنصیبی سے اسکی وجہ ہیں ہماری سیاسی جماعتیں جو اپنے سیاسی مفاد کےلئے اُن کالعدم تنظیموں کو سپورٹ کرتی ہیں جو دہشت گردی میں شامل ہیں، ان میں سے کچھ سیاسی جماعتیں دہشت گردوں کےلئے سہولت کار کی خدمات بھی انجام دے رہی ہیں۔آپریشن ضرب عضب کے نتیجہ میں شمالی و جنوبی وزیرستان سے بچ نکلنے والے کالعدم تنظیموں کے جنگجوؤں میں پنجاب، سندھ اور کسی حد تک بلوچستان کا رخ کرنے والوں کے خلاف کارروائی جاری تو ہے مگر کراچی کے سوا کسی بھی علاقے میں اس قدر مربوط کارروائی نہیں ہورہی کہ اسے تسلی بخش قرار دیا جاسکے۔ بلوچستان سے ملحقہ سندھ کے ضلع جیکب آباد کے علاوہ شکار پور، سکھر کے ساتھ ضلع گھوٹکی وہ اضلاع ہیں جن میں لشکر جھنگوی اور جنداللہ کے ساتھ ساتھ طالبان کے دونوں دھڑوں کے ہمدرد مدارس موجود ہیں اور ان مدارس میں پچھلے ایک ڈیڑھ سال کے دوران اساتذہ و طلبا کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔ پنجاب مسلم لیگ(ن) اور اس کی حکومت کالعدم تنظیموں سے اپنے تعاون کا شاندار ماضی و حال رکھتی ہے۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے کہ جب صوبائی حکومتیں اپنے مخالفین پر دبدبہ قائم رکھنے اور دیگر معاملات میں کالعدم تنظیموں سے اپنے روابط کو بروئے کار لارہی ہیں توکیا نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوپائے گا؟

حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پنجاب میں ایک کالعدم تنظیم مسلم لیگ (ن) کی ہمنوا تھی۔ پنجاب میں چونکہ مسلم لیگ (ن) کے مخصوص کالعدم تنظیموں سے روابط خاصے بدنام ہیں اس لیے کہ مسلم لیگ (ن) نے 2013ء کے عام انتخابات کی طرح بلدیاتی انتخابات میں بھی کالعدم تنظیم کے ہمدردوں کو مسلم لیگ (ن ) کے پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑوایا ہے، سندھ میں جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور جے یو آئی (ف) نے بھی پاکستان راہ حق پارٹی کے ساتھ مشترکہ امیدوار کھڑے کیے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ بیشترسیاسی جماعتیں کالعدم تنظیموں سے انتخابی تعاون کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ کیا یہ دوعملی پاکستانی معاشرے سے شدت پسندی کے خاتمے میں رکاوٹ نہیں ہے؟ جواب یہ ہے کہ جب تک حکومت اور سیاسی جماعتیں عوامی جذبات کے احترام اور قیام امن کے حقیقی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر کالعدم تنظیموں اور ان کے سیاسی ایڈیشنوں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت موثر کارروائی عمل میں نہیں لاتیں۔ اس وقت تک شدت پسندی کا خاتمہ ممکن نہیں۔

آپریشن ضرب عضب کس حد تک نتیجہ خیز لگ رہا ہے؟ اسکا جواب یہ ہے کہ اکیلی فوج آپریشن ضرب عضب میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتی ۔ اس کے لیے ضروری ہے سول حکومت بھی اس کے ساتھ ہو۔ لوگوں کو ضرب عضب کی ضرورت اور اس کے فوائد سے آگاہ کیا جائے۔ امریکہ نے عوام کی حمایت کے بغیر ویت نام میں تیرہ سال تک جنگ لڑی اور بالآخر اُسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ایک خبر کے مطابق آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے میں ملوث چار دہشت گردوں کو پھانسی دینے پر جوابی کارروائی کا خطرہ ہے۔پولیس اور تمام سیکیورٹی اداروں کو سرکاری و نجی تعلیمی اداروں اور ان کی ٹرانسپورٹ کے نقل و حمل کے دوران سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ 16 دسمبر سے پہلے جو لوگ سوچا کرتے تھے کہ دنیا میں سب سے بڑا سانحہ کیا ہو سکتا ہے، وہ سانحہ 16 دسمبر2014ء کو ساری دنیا نے دیکھا، 132 معصوم بچے اور 16 مرد و خواتین استاد شہید کردیے گے، ان بچوں میں سے کچھ ڈاکٹر ہوتے تو کچھ انجنیر، ان میں مستقبل کے سائینسداں، سیاستداں، فنکار، ادیب قلمکار، کھلاڑی سب موجود تھے لیکن دہشت گردوں نے ان سب کو اپنی بربریت کا نشانہ بنا ڈالا۔ 16 دسمبر کو جنہوں نے شہید ہونا تھا وہ تو ہوگے لیکن دہشت گردوں کے حامیوں میں انسانیت پھر بھی نہ جاگی، وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ یہ دہشت گردی طالبان کا کارنامہ ہے اور اگر مان بھی رہے تھےتو بقول لال مسجد کےدہشت گرد ملا عبدالعزیز،کہ"پشاور میں جو دہشت گردی ہوئی وہ آپریشن ضرب عضب کا جواب ہے"۔
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 486015 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More