شیطان کا فرشتوں پر اتہام․․․․․
(Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed, Karachi)
کرپٹ حکمرانوں کے کرپٹ رویئے اس دور میں سب
سے زیادہ دیکھنے کو مل رہے۔یہ لوگ اپنے کرپشن پر زد پڑنے سے جھنجھنلاہٹ میں
اپنے جامے سے باہرنکلے جا رہے ہیں۔ایک جانب پاکستان کے صفَِ اول کے رہمنا
جو اس وطن کے لئے اپنا سب کچھ حتیٰ کہ اپنی جان تک قربان کر بیٹھے ہیں وہ
ان کی بد گوئی کا شکار ہیں ۔تو دوسری جانب سندھ کے بھنگ کے نشے میں ڈوبے
وزیر اعلیٰ جنہیں اپنے بڑھاپے کی بھی لاج نہیں ہے۔روزانہ بھنگ کے نشے میں
نہ جانے کیا کیا اول فول بکتے رہتے ہیں ، اوردوسری جانب عسکری اداروں پر
کرپشن مافیہ کے دفاع میں برستے چلے جارہے ہیں ۔ان کی قابلیت کا تویہ عالم
ہے کہ یہ لوگ چپراسی کے عہدے پر بھی رکھے جانے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔
مگر سندھ کی بد قسمتی دیکھئے کی ایسے لوگ اس صوبے میں اہم ترین عہدوں
براجمان ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی بد زبانی اور زبان دراز ی اس
حد تک بڑھ چکی ہے کہ موصوف فرشتہ صفتپاکستان کے پہلے وزیر اعظم جن کو قائد
اعظمکا بھی مکمل اعتماد حاصل تھا نواب زیادہ لیاقت چلی خاں جنہیں قوم قائد
ملت کے خوبصورت لقب سے پکارتی ہے کی ذات پر کیچڑ اچھالنا شروع کر کے اپنی
اصلیت دکھانے میں ذرا بھی دیر نہیں کی ان کرپٹ لوگوں سے کسی بہتری کی کبھی
توقع رکھی ہی نہیں جا سکتی ہے۔بقول ایک امریکی سیاست دان کے ،کہ پاکستانی
پیسے کی خاطر اپنی ماں کو بھی بیچ دینے کے لئے کمر بستہ رہتے ہیں ، اور
سندھ کی سر زمین مداری و زرداری کے حوالے سے پہلے ہی بد نام کر دی گئی
ہے۔یہاں کے حکمرانوں کا دین دھرم کعبہ و کاشی مندر ، مسجداور چرچ سب کچھ
پیسہ پیسہ اور صرف پیسہ ہی تو ہے نا․․․․
لیاقت علی خان جیسا محبِ وطن ایماندار اورکریکٹر کا آدمی اگر پیپلز پارٹی
کے پاس کوئی ایک بھی ہے تو قوم کو بتائے۔قائم علی شاہ اپنے ٹیڑھے منہ سے جس
شخصیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ’’ کرپشن لیاقت علی خان کے دور سے شروع
ہوئی‘‘ ان کا یہبیان نہات ہی قابلِ مذمت ہے۔یہ کرپشن میں لتھڑے لوگ قائدِ
ملت کی کوئی ایک کرپشن ہی ثابن کر کے دیکھا دے۔ یہ بد زبان ٹولہ صفِاول کے
قائد ین پر کر پشن کے الزامات لگا کر یہ سمجھتا ہے کہ ان کے گناہ اس طرح
دھل جائیں گے تو یہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔اگر گنوانے ہیں تو بھگوڑے
کرپٹ لوگوں کی کرپشن کے معرکے گنوائیں تاکہ قوم بھی ان کی احسا ن مند ہو
جائے۔
نواب زادہ لیاقت لیاقت علی خان ایسے نواب تھے کہ پاکستان کی خاطر انہوں نے
اپنی نوبی تک کو لات ماردی تھی۔وہبے سرو سامان ایکمہاجر کی حیثیت سے مملکتِ
خدادا میں تشرف لائے تھے۔جب انہیں وزارت عظمیٰ سونپی گئی تو انہوں نے
معمولی تنخواہ پر کام کیا ۔پاکستان کا پہلا وزیر اعظم پیوند زدہ کپڑے پہنتا
تھا۔وہ تمہارے ٹولے کی طرح نہ تو چور تھے اور نہ وطن فروش تھے۔جب انہیں
شہید کیا گیا تو بنیان اور جرابیں پھٹی ہوئی نکلیں۔اور شہید کی جیب سے(ان
کے بقول کرپشن کی کمائی) صرف (ڈھائی آنے) موجودہ دور کے 15 پیسے یعنی ایک
روپے کا پندرہ فیصد سرمایہ بر آمد ہوا ۔یہ تھا پاکستان پر شہید ہونے وا لے(
بقول بھنگی وزیر اعلیٰ کے کرپٹ وزیر اعظم کا کرپشن سے کمیا ہوا) سرمایہ!!
ان لوگوں کو اﷲ کے غضب سے بھی ڈر نہیں لگتا ہے۔پاکستان کے عوام کرپشن کے
شہسواروں سے پوچھتے ہیں کہ اﷲ کو کیا منہ دکھاؤ گے شرم تم کو مگر نہیں
آتی․․․․کرپشن کی کشتی پر سوار لوگوں کو فرشتے بھی کرپٹ ہی دکھائی دیتے ہیں۔
بانیان پاکستان پر آج کے کرپٹ ترین لوگوں کو انگلیاں اٹھاتے ہوئے شرم بھی
نہیں آتی ہے۔ان لوگوں نے غیرت تو پہلے ہی بیچ کھائی ہے۔یہ نشے کے عادی لوگ
جو سراپہ مجرم اور پیدائشی مجرمانہ ذہنیت کے حامل لوگ ہیں ۔شرم و حیا تو ان
کے قریب سے بھی نہیں گذری ہے۔جو قاتلوں ڈکیتوں اور چوروں کو بچانے کیلئے
ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔جو اس ملک کو دیمک کی طرح کھا کھا کر
کھوکھلا کرنے پر تلے ہیں ان لوگوں کی مجرمانہ ذہنیت کا اندازہ تو اس بات سے
لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں جو چوری نہ کرے لوگ اُسے بڑے عجیب عجیب القابات
سے پکارتے ہیں۔جن لوگوں کی سرشت میں ہی ما لِ حرام لپکنے کی خو موجودہووہ
ہرایک کو آنکھیں دکھا کر اپنی تسکین کرتا ہے-
قائم علی شاہ کے قائد ملت کو کرپشن کے الزام پر ایم کیو ایم جو مدتوں سے ان
کی حلیف اور ہمدرد رہی ہے کی رابطہ کمیٹی نے بھی مذمت کا اطہار کیا یے اور
کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ اپنے بیان پر قوم سے معافی مانگیں۔مگر قائم علی
شاہقوم سے معافی مانگنے کی بجائے منہ بسو ربسورکرکہہ رہے ہیں کہ رینجرز کو
دہشت گردی روکنے کے لئے بلایا تھااوروہ کرپشن کے معاملات میں گھُس گئی۔اور
وہ مزید کہتے ہیں کہ اسے اختیارا ت دینے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔جبکہ مرکزی
وزیر داخلہ چوہدری نثار کہتے ہیں کہ سندھ حکومت کسی غلط فہمی میں نہ رہے
رینجرز کو تنہا نہیں چھوڑیں گے․․․․ قائم علی صاحب وفاق سے بھی دو دو ہاتھ
کرنے پر تیار ہیں ۔فرماتے ہیں کہ وفاق سندھ پر حملہ آور ہو رہا ہے ۔ان کی
فرسٹریشن کا یہ عالم ہے کہ وہ کسی کو بھی بخشنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔طیش
میں آکر وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ تین چار وفاقی ایجنسیاں ہم سے لڑ رہی
ہیں۔وہ اس ضمن میں تعویلیں بھی پیش کر رہے ہیں کہ ایف آئی اے اور نیب کے
چھاپوں سے صوبائی مشنری کی کار کردگی متاثر ہو رہی ہے۔ایف آئی اے اپنے
دائرے میں رہے۔پھر کہتے ہیں کہ بد عنوانی ختم کرنے کے لئے اینٹی کرپشن کا
محکمہ موجودہے (جو ان کیدسترس میں ہے )اس سے وہ جو چاہیں کام لے سکتے
ہیں۔اختیارات دیدیں گے توموصوف ڈاکٹر عاصم کو کلین چٹ دلوا چکیں گے؟؟؟قائم
علی صاحب کیا آپ کو معلو م نہیں ہے کہ یہ کرپشن کا پیسہ بھی دہشت گردوں کو
استعمال کرایا گیا ہے؟آپ کے زیر انتظام جو محکمے ہیں وہ تو ہِز ماسٹرزوائس
کے تحت اپنی ڈیوٹیاں انجام دے رہے ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ سندھ پولیس نے ڈاکٹر
عاصم حسین کے کرپشن کے کیس کو جس طرح تباہ کرنے کی کوشش کی ہے وہ ساری قوم
بھی دیکھ چکی ہے۔جس نے واضح طور پر کرپشن میں لتھڑے ملزم کو بغیر کسی معقول
انویسٹی گیشن کے سندھ گورنمنٹ کیاشارے پر کلین چٹ عدالت کو دیدی ہے تاکہ
ڈاکٹر عاصم حسین کرپشن زدہ لوگوں کا مزید کچا چٹھا نہ کھول دیں۔مگر یہ بات
ہر ایک کے ذہن میں رہنی چاہئے کہ آج نہیں تو کل تمام لوگ خود ہی اپنی کرپشن
کے راز کھولنا شروع نہ کر دیں۔ یہ ڈاکٹر عاصم کی بد قسمتی رہی کہ’’کنویں سے
نکلے کھائی میں گرے‘‘اور اب ان کو نیب نے انویسٹی گیشن کے لئے بلا لیا ہے۔
بیانات موصوف جے آئی ٹی میں بھر پور انداز میں دے چکے ہیں۔ مگر اپنے وکیلوں
کے کہنے پر انہوں نے ریورس گیئر لگا لیا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ مر جاؤں گا
مگر زبان نہیں کھولوں گا․․․جبکہ زبان تو وہ بہت پہلے ہی کھول چکے ہیں۔اب رہ
کیا گیا ہے جو آپ کہنا نہیں چاہتے ہیں۔مو جو وہ پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتا
چاہتے ہیں کہ کسی طرح ڈاکٹر عاصم کو اداروں کی دسترس سے نکال لیا جائے۔ جو
ہم سجھتے ہیں کہ فی الوقت ممکنات میں سے دکھائی نہیں دیتا ہے ․․․۔رینجرز سے
مخاصمت میں ایک جانب سندھ حکومت ہے جو جمہوریت کے نام پر اپنے کرپٹ ترین
رہنما کو بچانے کی تگ و دو میں لگی ہے تو دوسری جانب ان کے زر خرید لوگ ہیں
جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار اپنے آپ کو ظاہر کر رہے ہیں۔مگر یہ بات سب
کے ذہنوں میں ہونی چاہئے کہ غریبوں کا لوٹا ہوا مال چوروں کوکبھی فلاح نہیں
دیتا ہے۔ اور نہ ہی ساتھ جاتاہے۔جب ہی تو نظیر اکبر آبادی کہہ گئے ہیں ’’
ٹُک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں۔مت دیس بدیس پھرے مارا۔ قذاق اجل کا لوُٹے ہے
دن رات بجا کے نقارا۔سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا۔ جب لاد چلے گا بنجارا‘‘ امین
فہیم کی مثال پوری قوم کے سامنے ہے۔
وزیرِ اعلیٰ صاحب بد زبانی اور اتہام گوئی کسی نااہل میں اہلیت تو پیدا
نہیں کر دے گی؟؟؟کرپشن کے کھلاڑیوں کو نوید ہو کہ وہ چاہے جو بھی چولہ پہن
لیں۔ مکافاتِ عمل ان کا پیچھا کر رہا ہے۔انہیں ناتو قائم علی بچا سکے گا
اور نہ ہی ان کے بکورے بچا سکیں گے اور نہ ہی مفاہمتی عمل ان کے کچھ کام
آئے گا۔چاہے فرشتوں پر بھی ان کی شیطان کی طرح اتہام گوئی جاری رہے۔ہان
اتنا ضرور ہے کہ انہیں ذلیل ہونے سے کوئی بچا نہ سکے گا۔کیونکہ یہ سچے
قائدین پر الزامات لگا کر جھوٹے اور مصنوی قائدین کو بچانا چاہتے ہیں۔ |
|