مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں ،تیری رہبری کا سوال
(Shams Tabrez Qasmi, India)
ہندوستان میں ان دنوں سب سے زیادہ
موضوع بحث مسئلہ ’’رواداری اور عدم رواداری‘‘ کا ہے ،کچھ لوگ حقائق سے منہ
چراتے ہوئے حکومت کی خوشنودی کی خاطر یہ کہ رہے ہیں کہ رواداری ہندوستانی
سماج کا اٹوٹ حصہ ہے ، ملک کے حالات اپنے معمول پر ہیں ، کسی طرح کی کا
کوئی خوف و ڈر نہیں ہے ، دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو شب روز کے ہر لمحے میں
عدم رواردی محسوس کررہے ہیں ، ان کی زندگی خطرے میں ہے ، ان پر خوف کے بادل
منڈلارہے ہیں ،انہیں اپنا مستقبل خوفناک نظر آرہا ہے ، وہ اپنے بچوں کے
تئیں فکرمندہیں ،اس طرح کی شکایت کرنے والے اور ہندوستان میں خوفناک زندگی
کا احساس کرنے والے صرف عام آدمی نہیں بلکہ وہ لوگ بھی ہیں جن کا شمار وی
آئی پی میں ہوتا ہے ،جو سیکوریٹی کے حصار میں رہتے ہیں ، جہاں تک کسی پرندہ
کے لئے پر مارنا مشکل سمجھاتا ہے ؛جی ہاں !شاہ رخ خان ، عامر خان جیسے
لوگوں کو یہ محسوس ہورہا ہے کہ ہندوستا ن میں امن و سلامتی کا فقدان ہے ،
یہاں فکری ، مذہبی ، سماجی اور معاشرتی آزادی حاصل نہیں ہے ، مصنفین ،
ادباء ، شعراء ، فنکار ، صحافی آئے دن اپنی حق گوئی اور حقیقت بیانی کے
نتیجے میں عدم روادی کا مظاہر ہ کررہے ہیں ، عدم برداشت اور عدم تحمل کا
سامنا کررہے ہیں ،مذہب و مسلک کی تفریق کے بغیر ہندوستان کے دانشوران کا
ماننا ہے کہ ہندوستا ن کے موجودہ حالات ناگفتہ بہ ہیں ، ملک میں تشدد ،نفرت
اور فرقہ پرستی کا ماحول ہے ، ملک میں اسی بڑھتی ہوئی عدم رواداری کے
دیکھتے ہوئے تقریبا سو سے زائد ادیبوں نے اپنا ایوارڈ واپس کردیا ہے ، کئی
دانشوارن اور ادیب نے اپنا پدم شری اور پدم بھوشن ایوارڈ بھی لوٹادیا ہے،
دنیا بھر کی میڈیا ہندوستان میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کے مسئلے پر سوال
اٹھارہی ہے ، امریکی صدر باراک اوبامہ اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون
بھی ہندوستان میں قائم فرقہ وارانہ ماحول پر اپنی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں
۔آپ خود جب انصاف کے ساتھ ملک کے حالات کا جائزہ لیں گے تو اس نتیجہ پر
پہونچیں گے کہ ہندوستان میں فرقہ پرستی اور نفرت انگیزی کا بول بالا ہے ،
رواداری اور تحمل تاریخ گا گمنام باب بن کر رہ گیا ہے،ملک کو گاندھی اور
نہرو کی سرزمین قراردینا صرف جملہ تک محدود ہے ،دادری نما سانحہ کا سلسلہ
بڑھتا جارہا ہے ، بیف کی افواہ پر محمد اخلاق سمیت اب تک تقریبا دس
مسلمانوں کا اس طرح قتل ہوچکا ہے آج پھر گنگوہ میں ایک مسلم نوجوان کو
شرپسندوں نے گائے کی اسملنگ کے الزام میں شہید کردیا ہے ، ہررروز کے
اخبارات اس طرح کے خوں چکاں داستا ں سے بھرے ہوتے ہیں ، مسلم مخالف بیان
دینے والے اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہے ہیں ، آئینی عہدہ پر قابض افراد
بھی مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑنے اور پاکستان جانے کا مشورہ دینے لگے ہیں ،
ملک کے بگڑتے ہوئے ماحول پر صدر جمہوریہ بھی کئی مرتبہ اپنی تشویش کا اظہار
کرچکے ہیں
؛ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ سرکاری ترجمانوں کے ساتھ اب ملی رہنما بھی
یہ کہنے لگے ہیں کہ ہندوستان کا ماحول بہتر ہے ، یہاں رواداری ہے ، ابھی
گذشتہ دنوں ملک کے معروف ملی رہنما ،جمعیۃ علماء ہند کے جنر ل سکریٹری
مولانا محمود مدنی صاحب نے یہ بیان جاری کیا تھا کہ مسلمانوں کے لئے
ہندوستان سے اچھا کوئی دوسر ا ملک نہیں ہے ، اب اسی طرح کا ایک اور بیان آل
انڈیا مسلم پڑسنل لاء بورڈ کے بااختیار کا گذار جنرل سکریٹری مفکر اسلام
حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب امیر شریعت بہار ،اڑیسہ ،جھار کھنڈ نے آل
انڈی امسلم پرسنل لاء بورڈ کے تحت امروہہ میں دین دستور بچاؤ اجلاس کے
دوران دیا ہے کہ’’ ملک میں رواداری کا ماحول ہے ‘‘ دوسری طر ف بورڈ کے صدر
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب اس کے برعکس کہ رہے ہیں ’’ گذشتہ
کل ای ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ’’ ملک ومعاشرے سے نفرت وتعصب
کو ختم کرنے میں حکومت ناکام ثابت ہورہی ہے ، اب اہل علم یہ ماننے لگے ہیں
کہ اس ملک کی قدیم قدریں دم توڑ رہی ہیں ۔ قومی یکجہتی کو ایک سازش کے تحت
ختم کیاجارہاہے،ایک مخصوص مذہب کے لوگوں کو نشانہ بنایاجارہاہے،ان کا مختلف
سطحوں پر استحصال کیاجارہا ہے۔ کچھ شدت پسند تنظیمیں اور متعصب لوگ ایسے
حربے استعمال کررہے ہیں جس سے ملک ومعاشرے کا ماحول خراب ہورہاہے، ہند
ومہاسبھا کی جانب سے اہانت رسول کامعاملہ اسی کی غمازی کرتاہے‘‘، امارت
شرعیہ کے ناظم مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب نے ابھی حالیہ دنوں میں مدارس
کے نظماء ، قضاۃ اور ایڈیٹروں کے نام ایک خط جاری کرتے ہوئے یہ پیغام دیا
ہے کہ ملک میں عدم رواداری اور فرقہ پرستی کا ماحول بنتا جارہا ہے ایسے میں
ہمار ا فریضہ کہ ہم سنت نبوی پر عمل کریں اور حضور پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی
زندگی کے مختلف گوشوں کو اپناتے ہوئے ملک کے ماحول کو تبدیل کرنے کی کوشش
کریں ۔
ایک ادارے سے وابستہ شخصیات کے بیانات میں یہ واضح تضاد قوم و ملت کے لئے
مفید ثابت ہوسکتا ہے یا مضر اس کا فیصلہ آپ خود کرسکتے ہیں بتانے کی کوئی
ضرورت نہیں ہے، کم ازکم مجھے مولانا ولی رحمانی صاحب جیسی عظیم المرتبت
شخصیت سے ملک کے موجودہ حالات میں ایسے بیان کی ہر گز توقع نہیں تھی ، کیوں
کہ وہ اس باپ کے بیٹے ہیں جنہوں اندرا گاندھی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
کہاتھاکہ ہم کرسی پر بیٹھانا جانتے ہیں تو کرسی چھیننا بھی جانتے ہیں ، وہ
اولوا لعزم قائد ہیں ، تعلیمی میدان میں ان کی خدمات نمایاں ہے لیکن حالیہ
دنوں میں جو کچھ اطلاعات مل رہی ہیں وہ تشویشناک ہیں ،قارئین کو ہم یاد
دلادیں کہ بہار میں بی جے پی کو فائدہ پہونچانے کے لئے ایک مسلم پارٹی بھی
بنائی گئی تھی جس کی سر پرستی مولانا ولی رحمانی صاحب فرمارہے تھے لیکن میں
نے اس موضوع پر مسلسل لکھا اور بالآخر مولانا ولی صاحب نے اس سے اپنی برات
کا اظہار کیاکہ ’’ میرا اس پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے ،میرے نام کا غلط
استعمال کیا جارہا ہے‘‘ ۔جس کے بعد وہ پارٹی اپنے مشن میں مکمل طور پر
ناکام رہی۔
ہندوستانی مسلمان ان دنوں مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں ، موجود ہ حکومت شر
پسندوں پر لگام لگانے کے بجائے ایک خاص ایجنڈے کے تحت اس کی حمایت کررہی ہے
دوسری طرف حکومت یہ چاہتی ہے کہ مسلمان سمیت تمام اقلیتوں کی طرف سے ملک کی
روادی کے حوالے سے بیانات دیئے جائیں ، مسلمان رہنما مودی حکومت کے طریقہ
کارپر مثبت ردعمل پیش کریں،تاکہ دنیا بھر میں یہ پیغام جائے کہ ہندوستان کی
اقلیتوں کو مودی حکومت سے کوئی پریشانی نہیں ہے ، بی جے پی حکومت میں
مسلمانوں کو کسی طرح کے تعصب اور مذہبی امتیاز کا سامنا نہیں کرناپڑرہا ہے
،میڈیا میں وزیر اعظم کی بگڑی ہوئی شبیہ بہتر بن سکے،کچھ نام نہاد مسلم
قائدین اس ایجنڈے کے تحت کام بھی کررہے ہیں۔ایسے میں ملک کے نامور اور قابل
اعتماد رملی ہنماؤں کی جانب سے ایسا بیان دیاجانا اور خاص طور پر ملک کے
موجودہ ماحول کو رواداری پر مبنی قراردینا مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس
پہونچانے کے مترادف ہے اور اس طرح سے مسلمانوں کا اعتماد اپنے قائدین سے
مسلسل کمزور ہورہا ہے۔
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال |
|