عمران کو مزید دس سال انتظار کرنا ہوگا ؟

عمران خان کی آواز میں اتنا سوز ہے کہ لوگ دور دراز علاقوں سے اسے سننے کے لیے دوڑے چلے آتے ہیں ۔ اپنے جلسوں میں عوام کی کثیر تعداد دیکھ کر وہ وزارت عظمی کو اپنے قدموں میں گرتا ہوا محسوس کرتا ہے ۔ جب الیکشن کا دن آتا ہے تو ماردھاڑ اور رونے پیٹنے کے باوجود ووٹوں کی تعداد اسقدر کم نکلتی ہے کہ بیچارے کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے ۔ شنید ہے کہ عمران کانوں کا بہت کچا ہے ۔وہ شیخ رشید جیسے بونگے سیاست دان کے کہنے پر یقین کر بیٹھا کہ 2013ء میں اسے دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا ۔ یہ دیکھے بغیر کہ یہ مشورہ دینے والا کون ہے عمران نے جلسے جلسوں اور دھرنوں پر قوم کے چھ مہینے ضیائع کردیئے ۔جب ائمپائر کی انگلی کھڑی نہ ہوئی تو شرمندہ ہوکر دھرنا ختم کردیا اور جوڈیشنل کمیشن پر اصرارکرنے لگا ۔ دھاندلی کے ثبوت فراہم نہ کرنے پر اسے جو ڈیشنل کمیشن میں بھی خفت اٹھانا پڑی ۔پھر جب سردار ایازصادق نااہل ہوئے تو ایک بار پھر عمران نے آسمان سر پر اٹھالیا ۔ ایاز صادق کی خالی ہونے والی نشست پر عمران نے ایک ایسے شخص کو میدان میں اتارا جس کے پاس حقیقت میں قارون کے خزانے ہیں ۔اس نے نہ صرف الیکشن کمیشن کے قوانین کی دھجیاں بکھیریں بلکہ قبل از وقت ہی خود کو فاتح عالم بھی قرار دے دیا ۔ تجوریوں کے منہ تو ایاز صادق نے بھی کھولے اور پرانے کارکنوں کو نواز شریف کی عزت کا واسطہ دے کر ایک بار پھر متحرک کرکے کامیابی کی راہ ہموار کرلی۔حالانکہ الیکشن صرف ایک حلقے میں تھالیکن پورے پاکستان کی توجہ اس پر مرکوز تھی کہ تخت لاہور کس کے قبضے میں ۔ سارا دن چہ مگیاں اور گہما گہمی عروج پر رہی۔تحریک انصاف کے راہنما اور کارکن ڈینگیں مارتے دکھائی دیئے۔ جب شام ڈھلے نتائج آنے لگے تو عمران کا بیان ٹی وی چینل پر نشر ہوا کہ جو بھی نتیجہ ہوگا اسے من و عن قبول کروں گا ۔ اسے امید تھی کہ جس طرح پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا ہے اس سے ضرور کامیابی حاصل ہوگی ۔لیکن جب نتیجہ ناکامی کی صورت میں سامنے آیا تو سابق گورنر محمد سرور نے بھی عمران کی دیکھا دیکھی یہ کہتے ہوئے آنسو بہانے شروع کردیے کہ ایک بار پھر ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے ۔چند دنوں تک تحریک انصاف کے لیڈروں پر اس شکست کا غم طاری رہا ۔پھر بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں پیشگی کامیابی کے ڈنکے بجانے شروع کردیئے ۔ اس کے باوجود کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے کسی بھی پارٹی قائد پر جلسہ کرنے اور عوام سے براہ راست رابطہ کرنے کی پابندی عائد تھی لیکن عمران نے بنفس نفیس لاہور سمیت کئی شہروں میں نیا پاکستان بنانے کا کہہ کر عوام کو ووٹ دینے کی ترغیب دی اور الیکشن کمیشن منہ دیکھتا رہ گیا۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ جو کام عمران یا اس کے پارٹی کا کوئی لیڈر کرلے وہ دھاندلی کے زمرے میں نہیں آتالیکن وہی کام اگر کوئی دوسرا کرے تو فورا دھاندلی کی گردان شروع ہوجاتی ہے ۔ جب پہلے مرحلے کا نتیجہ آیا تو عمران بمشکل پانچ فیصد نشستوں بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا اورمسلم لیگ کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی ۔عمران نے ایک بار پھر یہ کہتے ہوئے دھاندلی کا الزام لگادیاکہ ہم آئندہ دھاندلی کرنے والے ہاتھ توڑ دیں گے۔ سند ھ میں بھی عمران نے کئی مقامات پر جلسے کیے اور نیا پاکستان بنانے کا نعرہ لگای۔ سندھیوں نے عمران کی باتیں تو سن لیں لیکن ووٹ ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی جھولی میں ڈال دیئے ۔گویاپنجاب اور سندھ کے عوام نے نیا پاکستان بنانے کے نعرے کو یکسر مسترد کرکے پرانے پاکستان پر ہی اعتماد کااظہار کردیا ۔ چند دن تک مایوسی نے عمران کو گھیرے رکھا ۔ماحول پر خاموشی طاری رہی ۔اسی اثنا میں دوسرا مرحلہ سر پر آ پہنچا تو عمران ایک بار پھر میدان میں اتر آئے ۔ میڈیا تو عمران کی ہر اچھی بری بات کو خوب پروجیکٹ کرتا ہے ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ میڈیا نے ہی عمران ٗطاہر القادری اور شیخ رشید کے غبارے میں حد سے زیادہ پروجیکشن دے کر ہوا بھری تھی جو اب انتخابی نتائج دیکھ کر کافی نکل بھی چکی ہے ۔جس طرح دھرنا ناکام ہوا اسی طرح عمران کی خوبرو حسین و جمیل بیوی ریحام نے ناکامی کا داغ عمران کے ماتھے پر لگا دیا ۔لوگ یہ بھی کہتے ہوئے سنے گئے کہ جو شخص بیوی کو نہیں سنبھال سکتا وہ ملک کو کیسے سنبھالے گا۔ پھر موبائل میں ایسے ایس ایم ایس بھی گردش کرتے رہے کہ نکاح میں بھی حکومت نے دھاندلی کروائی ہے اب فوج کی نگرانی دوبارہ میرا نکاح کروایا جائے۔ بہرکیف پے درپے صدمات میں ڈوبے ہوئے عمران کے لیے کہیں سے کوئی اچھی خبردستیاب نہ ہوئی تو وہ بے تابی سے الیکشن کے تیسرے مرحلے کاانتظار کرنے لگا ۔ پنجاب سے مایوس ہوکر اس نے کراچی میں پڑاؤ ڈالا اورجماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کرکے 6 دسمبر کو پیشگی جشن منانے کا اعلان کردیا ۔5 دسمبر کی شام جب کراچی کے الیکشن کے جب نتائج سامنے آئے تو نتائج نے ایک بار پھر عمران کو شرمندگی اور ندامت کے گہرے سمندر میں ڈوبنے پر مجبور کردیا۔ لیکن جب نتائج سامنے آئے تو نہ صرف ایم کیو ایم ایک بار پھر کراچی کو اپنی گرفت میں جکڑنے میں کامیاب ہوئی بلکہ عمران اور جماعت اسلامی کو ایک بار پھر خفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے عمران کے لیے یہی صائب مشورہ ہے کہ اسے بار بار دھاندلی کا راگ الاپنا بند کرکے بونگیاں مارنا چھوڑ دینا چاہیئے ۔ابھی وہ اس پوزیشن میں نہیں آیا کہ جیت کر وزارت عظمی پر فائز ہوسکے ۔ہاں اگر اسحاق ڈار چنگیزخان کی طرح عوام پر مہنگائی اور ٹیکسوں کے بم اسی طرح برساتا رہا تو شاید دس سال بعد عمران کو اتنے ووٹ مل جائیں کہ نیا پاکستان بن جائے ۔وگرنہ عمران کو مزید دس سال رونا اور انتظار کرنا پڑے گا۔
Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 666336 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.