حق و باطل کی جنگ ازل سے ہے اور یقین محکم
ہے کہ یہ جنگ ابد تک حق اور باطل کا ٹکراؤ ہوگا جس میں یقینا باطل ہی نے
زیر ہونا ہے لیکن ہر دور میں یہ سوال ضرور اٹھتا رہے گا کہ حق کیا ہے اور
باطل کون ہے ۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ناگزیر ہوگا اور ثابت کیا جائیگا
کہ حق کا اس کائنات میں کیا مقام ہے اور باطل نے کیونکر مٹ جانا ہے ۔ حْ کے
متعلق دلائل یہ ہیں کہ ہر وہ کام جو اﷲ کے حکم کے تابع ہوکر عمل میں آئے حق
ہے اور باطل اسے کہتے ہیں جو اﷲ کی حکم عدولی کی صورت میں انجام دیا جائے ۔
کائنات میں سب سے پہلے حکم عدولی حضرت آدم ؑ سے ہوئی جس کے بعد انھیں احساس
ہوگیا کہ دراصل حق یہی ہے کہ اﷲ کا فرمان سچا اور غیر اﷲ کی کہی گئی ہر بات
باطل ہے ۔ دنیا میں پہلا قتل آدم ؑ کی اولاد قابیل کا ہواجس سے باطل کو
حوصلہ ملا اور اس نے انسانیت کو اپنے رب دور کیا اور وہ اپنے خالق کے
احکامات سے غافل ہونے لگا اور گمان کرنے لگا کہ یہ پابندیاں اس کیلئے درست
نہیں بلکہ اسے ہر اس کا م کی اجازت ہونی چاہئے جو اسے اچھا لگے ۔ البتہ ہر
بار کی نافرمانی کے بعد اسے اﷲ ہی کی طرف لوٹنا پڑا ہے کیونکہ اﷲ نے اپنے
فرمانبرداروں کیلئے جو راحت اور سکون رکھا ہے وہ کسی بھی باطل قوت کے بس کی
بات نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ انسان نے مشیعت الہٰی کی جانب سے رو
گردانی کے بعد رجوع کیا تو اسے ایک پرسکون زندگی کا احساس بھی ہوا ہے ۔
دنیا کے تمام تر لو گ بنیادی طور مشیعت الہٰی سے غافل ہیں وگرنہ اﷲ کب
چاہتا ہے کہ اس کی زمین پر فتنہ و فساد پھیلے ۔اسے گوارا نہیں کہ اس کے
بندوں کو بے قصور ستایا اور برباد کیا جائے ، اسے یہ پسند نہیں کہ طاقتور
کمزور کو کھا جائیں ،ان کے امن وا مان، چین سکون پر ڈاکا ڈالیں اور ان کی
اخلاقی ، روحانی اور مادی زندگی کو ہلاکت میں مبتلا کردیں ، اسے یہ کب
منظور ہے کہ دنیا میں سیاہ کاری ، بدکاری ،ظلم و ناانصافی اور قتل و غارت
گری قائم رہے ۔ وہ اپنے خاص بندوں کو کسی کا بندہ کر ان کی شرافت پر داغ
نہیں دیکھ سکتا البتہ وہ بغیر کسی معاوضہ کی خواہش ، بغیر دھن دولت کی لالچ
، بغیر کسی ذاتی نفع کی تمنا کے محض اﷲ کی خاطر دنیا کو فتنہ سے پاک کرنے
کیلئے اور اس ظلم کو دور کرکے اس کی جگہ عدل و انصاف قائم کرنے کیلئے کھڑا
ہوجائے اور اس نیک کام میں اپنی جان و مال ، اپنے تجارتی فوائد ، اپنے اہل
و عیال کی محبت سمیت گھر بار کا عیش وآرام سب قربان کردے اس سے بڑ ھ کر کون
اﷲ کی محبت کا مستحق ہوگا ۔ قرآن مجید میں سورۃ الصف کی آیت 4 میں
فرمایاگیا کہ ً اﷲ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف
باندھے ہوئے جم کر لڑتے ہیں گویا سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ۔ ً
سور ۃ توبہ کی آیت 19 اور 20 میں ارشاد ہوا ً کیا تم نے حاجیوں کو پانی
پلانے والے اور مسجد اؒلحرام کے آبا د کرنے کو ان لوگوں کے کام کے برابر
ٹہرایا ہے جو اﷲ اوع یوم آخرت پر ایمان لائے اور اﷲ کی راہ میں لڑے ؟ اﷲ کے
نذدیک یہ دونوں برابر نہیں ہیں ۔ اﷲ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ، جو
لوگ ایمان لائے ، جنہوں نے حق کی خاطر گھر بار چھوڑا اور اﷲ کی راہ میں جان
و مال سے لڑے ان کا درجہ اﷲ کے یہاں بڑا ہے اور وہی لوگ جو حقیقت مین
کامیاب ہیں ۔ ً
حق یعنی اﷲ کی راہ میں لڑنا جہاد کہلاتا ہے اور یہی اس کی فضیلت ہے جس کی
بنا پر اسے تمام انسانی اعمال میں ایمان باﷲ کے بعد بڑا درجہ دیا گیا ہے
اور اگر اس کے تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ در
حقیقت یہی چیز تمام فضائل و مکارم اخلاق کی روح ہے ۔ انسان کی قوت کہ وہ
بدی کو کسی بھی حال میں برداشت نہ کرے اور اسے ختم کرنے کیلئے ہر قسم کی
قربانی کیلئے تیار ہوجائے انسانی شرافت ہے اور عملی زندگی کا راز بھی اسی
میں مضمر ہے ۔ جو شخص دوسروں کیلئے بدی کو برداشت کرتا ہے تو گویا یہ اس کی
بڑی اخلاقی کمزوری ہے جو اسے اس پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ خود اپنے لئے بدی
کا انتخاب کررہا ہے اور جب اس میں برداشت کا یہ مادہ پیدا ہوجاتا ہے تو
سمجھ لیجئے کہ اس نے اپنی ذلت کا درجہ پالیا جسے خدا نے اپنے غضب سے تعبیر
کیا ہے ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان پہنچ کر اپنے اندر کسی شرافت اور
انسانیت سے محروم ہوجاتا ہے ۔ وہ صرف جسمانی اور مادی غلامی ہی نہیں بلکہ
ذہنی و روحانی غلامی میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے اور کمینگی کے ایسے گڑھے میں
جاگرتا ہے جہاں سے نکلنا اس کیلئے محال ہوجاتا ہے ، اس کے برعکس جس شخص یہ
اخلاقی قوت موجود ہوتی ہے وہ محض بدی کو بدی سمجھتا اور انسانی برادری کو
اس سے نجات دلانے کی انتھک اور حتی الوسع کوشش کرتا ہے جبکہ وہ اسے اس میں
وہ روحانی اور اخلاقی تعلیمات اثر انداز ہوتی ہیں جو معاشرے کو ایک بہتر
معاشرہ تشکیل دینے پر مجبور کرتی ہیں چاہے وہ اس کی کسی بھی قسم کی قربانی
ہی کیوں دیدے۔ وہ نفسانی اغراض سے بالاتر خالصتا ًاﷲ کی خوشنودی اور اس کے
بندوں کی بھلائی کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے ۔ بدی کیخلاف اقدام کی ضرورت اس
ہوتی ہے تا کہ معاشرے میں نظام تمدن درست رہے ۔ اگر دنیا میں کوئی ایسی قوت
موجود ہوجو بدی کیخلاف پیہم جہاد کرتی رہے اور تمام سر کش قوتوں کو اپنی
اپنی حدود کی پابندی پر مجبور کردے تو نظام معاشرت میں بے اعتدالی نہ رہے۔
آج پوری دنیا انسانی مظالم اور مظلوموں ، آقاؤں اور غلاموں میں بٹی ہوئی ہے
اور تمام دنیا کی اخلا قی و روحانی زندگی کہیں غلامی و مظلومی کے باعث اور
کہیں غلام سازی و جفاکشی کی وجہ سے تباہ ہورہی ہے ، بدی کو اگر خود سے دور
کرنے کا احساس بھی قوم میں اجاگر ہوجائے تو حق کے سرجھکانا جبکہ ناحق کے
آگے سر جھکانے سے پر موت کو ترجیح دے گی۔ قرآن کی تعلیمات حمایت حق کی ایسی
ناقابل تسخیر روح پیدا کرتی ہیں جس سے کسی بھی فرد کے اندر کسی حال میں بدی
و شر کے آگے سر جھکانے اور ظلم کے تسلط کو قبول کرنے کی کمزوری پیدا نہ
ہوپائے کیونکہ انسان کی سب سے بڑی ذلت یہ ہے کہ وہ اپنے عیش وآرام ، مال و
دولت یا اہل و عیال کی محبت میں مشغول ہوجائے اور نیکی کے فروغ کیلئے
سختیوں سے ڈر کر باطل طاقت سے معوب خود کو اس کی غلامی قبول کرنے پر آمادہ
ہوجائے۔ضرورت ا س امر کی ہے کہ جس قدر باطل طاقت ور ہو حق پرست کو اپنے
حوصلے اس سے زیادہ بلند رکھنے چاہیئیں ۔ قرآن کریم نے سب معاملات کو تحمل
اور برداشت سے نمٹانے کی تعلیم دی ہے مگر ایسے کسی حملے کو برداشت کرنے کی
تعلیم نہیں دی جو دین اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو دینی طور پر یرغمال
بنادیا جائے اور نہ ہی اسلامی نظام کے سوا کسی اور نظام کو مسلط کرنے کی
اجازت دی ہے ، اس نے سختی سے حکم دیا ہے کہ جو اسلامی نظام قانون میں تحریف
کرے ، انسانی حقوق چھیننے کی کوشش کرے ، انسانی برادری پر ظلم و ستم ڈھائے
، تمہاری جائز ملکیتوں پر قبضہ کرکے تمہیں ان سے بے دخل ، تمہارے ایمان و
خمیر کی سلامتی سلب کرے ، تمہیں اپنے دین کے مطابق زندگی گزارنے سے روکے ،
تمہارے اجتماعی نظام کو درھم برھم کرنا چاہے اور اس وجہ سے تمہارے درپے
ہوجائے کہ تم اسلام کے پیروکا ر ہوتو اس کے مقابلے میں ہر گز کمزور ی نہ
دکھاؤ اور اپنی پوری طاقت اس ظلم کو دفع کرنے میں صرف کردو۔ سورۃ البقرہ کی
آیات 190سے 194 میں ارشاد ہوا کہ ًجو لوگ تم سے لڑتے ہیں ، ان سے خدا کی
راہ میں جنگ کرو مگر لڑنے میں حد سے تجاوز نہ کرو ( یعنی ظلم پر نہ اتر آؤ
) کیونکہ اﷲ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ ان ظالموں جہاں پاؤ قتل
کرو اور جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے وہاں سے انہیں نکال باہر کرو،
کیونکہ یہ فتنہ قتل سے زیادہ بری چیز ہے ۔ پھر جب تک وہ تم سے مسجد الحرام
میں قتال نہ کریں تم بھی اس کے پاس ان سے قتال نہ کرو لیکن اگر وہ تم سے
جنگ کریں تو تم بھی انہیں مارواور کافروں کی یہی سزا ہے ، پھر اگر وہ باز
آجائیں تو اﷲ بخشنے والا مہربان ہے ۔ پس اگر ( فتنہ برپا کرنے اور دین کے
معاملہ میں زیادتی کرنے سے ) باز آجائیں تو جان لو کہ سزا ظالمو ں کے سوا
اور کسی کیلئے نہیں ہے ۔ ماہ حرام کا عوض ماہ ماہ حرام ہے اور تمام آداب
اور حرمتوں کے بدلے ہیں ۔ پس جو کوئی تم پر زیادتی کرے اس پر تم بھی زیادتی
کرو ، مگر ڈرتے رہو اور جان لو کہ اﷲ صرف متقیوں کے ساتھ ہے ( جو حد سے
تجاوز نہیں کرتے ) یہ حفاظت دین اور مدافعت دیار اسلام کا حکم ایسا سخت ہے
کہ جب کوئی طاقت اسلام کو مٹانے اور اسلامی نظام کو فنا کرنے کیلئے حملہ
آور ہو تو تمام مسلمانوں پر فرض عین ہوجاتا ہے کہ سب کام چھوڑ کر اس کے
مقابلے کیلئے نقل آئیں اور جب تک اسلام اور اسلامی نظام کو خطرہ ہو اس وقت
تک چین سے نہ بیٹھیں ۔ یہ ہدایت تمام فقیہا کی جانب سے موجود ہے کہ جب دشمن
دارالاسلام پر حملہ کرے تو ہر مسلمان فرداً فرداًاس کا دفاع کرے جیسے نماز
، روزے کی فرضیت ہے ۔ اسلامی تعلیمات میں مسلمانوں کو جنگ یا جہاد کو حکم
سورۃ البقرہ کی آیت 190 اور191میں دیا گیا ہے کہ جب مسلمانوں سے جنگ کی
جائے اور ان پر ظلم و ستم کیا جائے تو ان کیلئے مدافعت میں جنگ کرنا جائز
ہے ۔ جو لوگ مسلمانوں کے گھر بار چھینیں ، ان کے حقوق سلب کریں اور ان کی
ملکیتوں سے بے دخل کریں تو ان کے ساتھ مسلمانوں کو جنگ کرنی چاہئے یا جب
مسلمانوں پر ان کے مذہبی عقائد کے باعث تشدد کیا جائے اور انہیں محض اس وجہ
سے ستایا جائے کہ وہ مسلمان ہیں یا دشمن غلبہ کرکے جس سرزمین سے مسلمانوں
کو نکال دے یا مسلمانوں کے اقتدار کو وہاں سے مٹا دے اسے دوبارہ حاصل کرنے
کی کوشش کی جائے اس صورت میں جنگ جائز ہے یعنی مسلمان اس وقت جنگ کرسکتا ہے
جب اسے اﷲ کی راہ سے روکا جائے ۔ مسلمانوں کو خیر امۃ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ
وہ صرف اپنی ذات کی خدمت کیلئے نہیں پیداہوئے بلکہ تمام انسانیت کی خدمت ان
کا مقصد وجود ہے ۔ ان کا وجود قوم پرستی یا وطن پرستی نہیں بلکہ عین فطرت
اسلام کا تقاضے پر کاربند ہیں کہ وہ خادم انسانیت بن کر رہیں ، ان میں خود
نیک بننا اور بدی سے پرہیز کرنا مقدم رکھا گیا ہے ، امر باالمعروف و نہی
المنکر کا مطلب آدمی کو حیوانیت کے درجے سے نکال کر انسانیت کی سطح پر لانا
اور اسے انسانی معاشرے کا ایک غیر مفید اور نقصان دہ رکن بننے سے روکنا ہے
اور انسانیت کی سطح سے بلند کرکے انسان کامل کے درجے پر لے جانا اور انسانی
معاشرے کا کارآمد فرد بنانا ہے ، جس طرح ایک کسان کا اصل مقصد اناج پیدا
کرنا ہے لیکن زمین میں بیج ڈالنے سے پہلے ہل چلاکرا سے نرم کرنا ضروری ہے
اسی طرح اسلام کا بنیادی مقصد انسان کو اعلیٰ درجے کا انسان بنانا ہے ۔
امربالمعروف و نہی المنکر کا فرق صرف اس فرق پر مبنی ہے جو خود اسلام کی دو
مختلف حیثیتوں کے درمیان ہے ۔ اسلام ایک حیثیت پر محض نیکی اور تقوی ٰ کی
جانب دعوت ہے جبکہ دوسری حیثیت میں وہ اﷲ کا قانون ہے جو تمام دنیا کے لئے
ہے ۔ جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے تو اس میں یہ دونوں چیزیں جمع ہوجاتی
ہیں اور دعوت کی دفعات بھی اس کے حق میں قانونی دفعات بن جاتی ہیں ۔ اسلام
نہ قبول کرنے کی صورت میں دعوت الگ رہتی ہے اور قانون جدا ہوجاتا ہے ۔ دعوت
کا منشا یہ ہے کہ انسان اس منصب خلافت کا اہل بن جاتا ہے جو اﷲ نے اس
کوزمین پر بھیجتے ہوئے سپرد کیا تھا اور وہ ان ذمہ داریوں کو پورا کرے جو
خلیفۃ اﷲ فی الارض کی حیثیت سے اس پر عائد ہوتی ہیں ۔ قانون کی مرضی یہ ہے
کہ انسان اگر منصب خلافت کو انجام نہیں دے سکتا تو کم از کم فساد و خون
ریزی تو نہ کرے جس کا طعنہ فرشتوں نے اسے دیا تھا ۔ اگر وہ دنیا کو نیکی و
تقویٰ سے روشن نہیں کررہا تو کم ازکم بدی اور شرافت سے اسے اس کے امن و
سکون کو تو غارت نہ کرے اور قلب سلیم کی بھی یہی پکار ہے کہ فساد فی الارض
سے گریز کرتے ہوئے مسلمان اپنے کردار سے لوگوں بالخصوص غیر مسلم دنیا کو
متاثر کرے جیسا کہ بنی مہرباں ﷺ نے نبوت کے اعلان سے قبل چالیس گزارے اور
اعلان نبوت کے بعد بھی ہر صورت ، ہر مقام اور ہر لحظہ نفس انسانی کی تکریم
اور عظمت میں کمی نہیں آنے دی ۔ فی زمانہ چونکہ دنیا بھر میں اسلام مخالف
طاقتوں نے پھر سے منظم ہونا شروع کردیا ہے لہذٰ ا وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ
مسلمان دنیا بھر میں اپنا خوشنما چہرہ متعارف کروائیں ۔ عراق پر امریکی
حملے ، 9 / 11کے واقعے کے بعد سے مسلمانوں کی ابتری اور اب یورپ بالخصوص
پیرس پر داعش ( جنونی مسلمانوں کے گروہ ) کی جانب سے حملوں نے ان مسلم
ممالک کیلئے مسائل پیدا کردئے ہیں جو امریکا سمیت مغرب کی اانکھ میں کھٹک
رہے تھے ۔ یہ بات حقیقت سے عاری نہیں کہ یہود ونصاریٰ مسلمانوں کے ہر دور
میں درپے رہے ہیں اور رہیں گے لیکن ان کے ساتھ جنگ کرنے کے موجودہ انداز
کسی بھی طرح سے درست نہیں ہیں ۔ دنیا اس وقت ٹیکنالوجی محتاج بن چکی ہے اور
فی زمانہ حالات کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اہل اسلام اس پر مہارت حاصل کرلیں ،
مصالحانہ جنگ بھی یہی ہے کہ مسلم ممالک کا ہر فرد جدید علوم پر بھر پور
دسترس حاصل کرے تاکہ ان کے دل و دماغ پر اپنی دھاک بٹھاسکے۔ یا د رکھنے کی
بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی تعلیم تو صرف اسلام ہی کی بدولت ہی دنیا بھر
کے انسانوں کو میسر آئی ہے لیکن ہمارے یہاں چند جنونی افراد نے اس کی روح
مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ اس کی بنا پر غیر مسلم ہمیں لاچار
کررہے ہیں ۔ قیامت کے دن انسان کے کام اگر کوئی چیز کا م آسکتی ہے تو وہ
مال اور اولاد نہیں بلکہ قلب سلیم ہے یعنی ایسا دل جو کفر وشرک ، نافرمانی
اور فسق فجور سے پاک ہو ۔ مال و اولاد بھی قلب سلیم کے باعث ہی نافع ہوسکتی
ہے اس کے بغیر ایسا ممکن نہیں ۔ انسان نے جب ایمان اور اخلاص کے ساتھ رب
کائنات کے احکامات پر عمل کیا تو یقینا دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی کامیابی
و کامرانی اس کا مقدر بنی ۔ انسان دنیا میں اﷲ کا خلیفہ بن کر آیا ہے اور
یقینا یہاں کی خلافت کچھ بھی ہو اس کا مقدر ہے لیکن ایسے اعمال اورافکار سے
اجتناب ناگزیر ہوجا تا ہے کہ جس سے لوگ متنفر ہوجائیں ۔ پس جان لیجئے کہ
قلب سیلم کی پکار اﷲ کے قانون پر اس کی منشا کے مطابق عمل پیرا ہونا اور
عملدرآمد کرانا ہے۔ اسلام میں کسی قسم کی تنگی یا سختی نہیں اور نہ ہی اس
کی تعلیمات میں کسی قسم کا تشدد پنہاں ہے ۔ اس میں آسانیاں ہی آسانیاں ہیں
جن کی بدولت دنیا سمیت آخرت کی بھلائی موجود ہے ۔بس ضرورت اس امر واقعی کی
ہے کہ ہم اپنی بات مسلط کرنے سے گریز کریں اور افراد کا نقطہ نظر اپنے اچھے
اعمال وکردار سے بدل دیں جو حقیقی تبدیلی اور قلب سلیم کی پکا ر ہے۔ |