کرشن چندر بیسویں صدی کا بڑا قد
آور افسانہ نگار ہے۔ شخصیت کی طرح اس کی ادبی خدمات بھی قابل تحسین ہیں۔ اس
نے زندگی کی تلخ اور کٹھور حقیقتوں کو قرطاس فن پر رکھتے خوب صورت اور
مطابقتی زبان کا انتخاب کیا ہے۔ جو چیز جتنا اور جس قدر قریب ہو گی وہ اتنی
ہی کشش آور ہو گی۔ زندگی سے انتہائی قریب رہنے کے باعث کرشن چندر کو ہر
طبقہءفکر کے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے
افسانوں میں ہر طبقہ کے لوگوں کو جگہ دی ہے اور ان ہی سے داد وتحسین وصول
کی ہے۔ اس نے نازک اور حساس آبگینوں کو بڑی مہارت اور سلیقہ سے چھیڑا ہے۔
اس کے کرداروں میں قاری کو اپنی شخصیت کی پررچھائی نظر آتی ہے۔ اتنی
اوریجنل فوٹوگرافی اسے لفظوں کا مصور بنا دیتی ہے۔
کرشن چندر انسانی نفسیات سے خوب خوب آگاہ ہے۔ وہ دل کی دھڑکنوں تک کو گننے
کی مہارت رکھتا ہے۔ بدلتے حالات اور بدلتی ذہنیت کا مطالعہ کرنے پر مہارت
رکھتا ہے۔ وہ معمولی اورغیرمحسوس تبدیلی کو بھی نظروں سے اوجھل ہونے نہیں
دیتا۔ اس کے مشاہدے کی خوردبین بڑی کارکشا ہے۔ یہ ہی سچے' کھرے اور بڑے فن
کار کی پہچان ہوتی ہے۔ وہ بدلتے حالات بدلتی قدروں اور بدلتے رویوں کی جانچ
کر لیتا ہے۔ ایسی صورت میں جو کچھ بھی قلم اور برش کی گرفت میں آئے گا سچا
اور ہو بو ہو گا۔ معاملے کو جاننے کے لیے قیافیہ یا مفروضہ ہی کافی نہیں
ہوتا۔ اس کے لیے معاملے کی جڑ کی مٹی تک جانا پڑتا ہے۔ اندازے اور قیافے
مخمصوں کے دروزے کھولتے ہیں۔ انہیں کسی بھی صورت میں سچائی اور حقیقت کا
درجہ نہیں دیا جا سکتا۔
کرشن چندر کے کردار قیافے یا اندازے سے تشکیل نہیں پائے۔ وہ گلی بازار اور
گھروں میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے ہاں ہر طبقے کے کردار دیکھنے کو
ملتے ہیں۔ مختلف نوعیت کے سوچ پر گرفت حیرت انگیز عمل ہے۔ اس کا کہنا ہے۔
انسان کی ذہنی کیفیتیں سمندر کے مدوجزر کی طرح دل کے ساحل پر اترتی ہیں اور
عموما یہ مبہم سی تصویروں کے دوسرے ریلے میں یوں فنا ہو جاتی ہی کہ پھر ان
کا نام و نشان بھی نہیں پا سکتا۔ یا پھر نئے نقوش اپنی تزئین امتزاج سے نئی
جمالیاتی کیفیتیں کر دیے کے آغوش میں اس ساحل کی ریت کا ہر ذرہ ہے کیا۔ اس
سے پہلے بھی زندگی تھی یا یہ نغمہ اضطاری لے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن بعض نقوش اس
قدر ناپیدار اورمبہم نہیں ہوتے اور ساحل حیات پر ایسی تصویریں کھینچ دیتے
ہیں جو مدت تک قائم رہتی ہیں۔
یہ پیرہ نثر لطیف کے درجے پر فائز ہے۔ کرشن چندر نے اس پیرے میں لطیف
ناپیدار اور مکمل کیفیتوں کا بڑی خوب صورتی سے ذکر کیا ہے۔ اس سے یہ حقیقت
کھل جاتی ہے کہ وہ لطیف کیفیتوں اور جذبوں پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔
اگرچہ کیفیتیں مادی وجود سے ماورا ہوتی ہیں لیکن کرشن چندر کی نظریں ان کی
باریک ریکھاؤں تک چلی جاتی ہیں اور وہ انہیں لفظوں کے کیمرے میں محفوظ کر
لیتا ہے۔
جس طرح زندگی دکھ سکھ محبت اور محبت کا آمیزہ ہے اسی طرح کرشن چندر
کےافسانے زندگی کے مختلف رنگوں کا گل دستہ ہیں۔ اس گل دستے میں کانٹے بھی
ہیں۔ اس آمیزے سے ہر رنگ الگ کرنا آسان نہیں۔ سادھو یا حکیم کی سفوف میں
کیا کچھ ہے جاننا آسان کام نہیں۔ بالکل اسی طرح زندگی کے آمیزے سے ان
حالتوں کو الگ کرنا آسان کام نہیں۔ کرشن چندر کو یہ کمال حاصل ہے کہ وہ
انہیں الگ الگ کرکے اپنے افسانوں میں کمال مہارت سے پیش کرتا ہے۔
1973 |