اراکین اسمبلی کے لئے چندے کی اپیل

مانگنا ہمارا قومی نعرہ ہے اورمانگتےکو ٹالناقومی عادت۔جھوٹ بولنا قومی مشغلہ ہے اوراثاثے چھپانا قومی کھیل ہے۔پاکستا ن میں سب سے محفوظ سرمایہ کاری سیاست میں ہوتی ہے۔ لاکھوں لگائیں جیت گئے تو کروڑوں پائیں اور پھر سیاسی اثاثے بچوں کو منتقل کر جائیں ۔ بچے ظاہری اثاثہ ہوتے ہیں اور۔ زیورات، کوٹھیاں،پلاٹ خفیہ ۔۔ اثاثے۔لیکن عام آدمی کا سب سے بڑا۔ اثاثہ اُس کے بچے ہوتے ہیں ۔ اسی لئے سالوں پہلے گھروں میں جب بھی مہمان آتے توبچے چھپا دئیے جاتے ۔۔یہ لُکن میٹی مہمان کے جانے تک جاری رہتی ۔بچہ ذرا سا سر باہر نکالتا تو کوکلہ چھپاکی شروع ہو جاتی ۔

کشکول

ہم تقریباً کو پورا تصور کرتے ہیں اور شک کو سچ سمجھتے ہیں۔ جب سے پیدا ہو ئےگذارا ۔ مانگے تانگے پر ہو رہا ہے۔ پیدا ہو ئے تو مانگ تانگ کر دائیہ کوٹیکس دیا اور مر گئے تو شریکے کوننگا پیٹ دکھا کر کفن دفن کرلیا۔ بیٹے کی شادی رکھ لی تو ادھار اٹھا کر کوٹھا بنا یا اور بیٹی کی شادی کی تو بال بال قرضے میں ڈبو کر جہیز اکھٹا گیا۔ زندگی ایسے ہی چل رہی ہے اورصد شُکر کہ اچھی خاصی چل رہی ہے۔کہتے ہیں کہ ادھار محبت کی قینچی ہے اور بہت ہی کم لوگ ہیں جو محبت کی قینچی کے بغیر زندگی گذرا رہے ہیں۔ وگرنہ اُدھار نے محبت کو کاٹ کاٹ کر مقروض اورمخیر کو واہگہ بارڈرجیسی آپسی دُشمنی پر لا کھڑا کیا ہے۔لوگ تو اُدھار میں روپیہ پیسہ مانگتے ہیں لیکن اعتبار ساجد تو کچھ اور ہی مانگتے ہیں۔
تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں مرے دل سے بوجھ اتار د و
میں بہت دنوں سے ادا س ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو ۔

مجھے یہ شعر ہمیشہ صرف اس لئے قابل اعتبار لگاتا ہے کیونکہ یہ اعتبار کا ہے۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ مقروضوں کی زندگی مفروضوں پر گذرتی ہے۔وہ سوتے شیخ چلی بن کر ہیں اوراٹھتے ہی’’شیخ ‘‘ بن جاتے ہیں۔مخیر حضرات ان کی زندگی کی وہ اُمیدہوتے ہیں جو دن چڑھتے ہی دم توڑ جاتی ہے۔انہی مخیروں نے معذرت کو سیاست سے ایسا نتھی کیا ہے۔جس نے کئی بامعنی محاورے جنم دئیے ہیں۔۔جیسے ’’شیخ رشید کی شادی تک ، الطاف حسین کی واپس تک ۔ادھار بند ہے‘‘۔’’ ادھار صرف 90 سال کے لوگوں کو ملے گا۔ ا ن کے والدین کے کہنے پر ‘‘۔’’آج نقد کل ادھار‘‘وغیرہ۔
ایک فقیر کسی کنجوس کے گھر سے روتا ہوا نکلا۔لوگوں نےپوچھا کیا ہوا۔؟
فقیر:میں نے 5 سو روپے مانگے تھے۔کنجوس نے میری پٹائی کردی
شہری ( غصے سے): دس پندرہ مانگ لیتے تو خیرتھی۔تم نے بھی تو اکھٹا 5 سو مانگ لیا۔
فقیر روتے ہوئے:سرکار ادھار واپس مانگ رہا تھا ۔بھیک نہیں۔

مانگنا ہمارا قومی نعرہ ہے اورمانگتےکو ٹالناقومی عادت۔جھوٹ بولنا قومی مشغلہ ہے اوراثاثے چھپانا قومی کھیل ہے۔پاکستا ن میں سب سے محفوظ سرمایہ کاری سیاست میں ہوتی ہے۔ لاکھوں لگائیں جیت گئے تو کروڑوں پائیں اور پھر سیاسی اثاثے بچوں کو منتقل کر جائیں ۔ بچے ظاہری اثاثہ ہوتے ہیں اور۔ زیورات، کوٹھیاں،پلاٹ خفیہ ۔۔ اثاثے۔لیکن عام آدمی کا سب سے بڑا۔ اثاثہ اُس کے بچے ہوتے ہیں ۔ اسی لئے سالوں پہلے گھروں میں جب بھی مہمان آتے توبچے چھپا دئیے جاتے ۔۔یہ لُکن میٹی مہمان کے جانے تک جاری رہتی ۔بچہ ذرا سا سر باہر نکالتا تو کوکلہ چھپاکی شروع ہو جاتی ۔مہمان کب کے جا چکے ہیں اور بچے چُھپے چُھپے بڑے بھی ہو چکے۔ہمیں آج تک نہیں پتہ کہ ہم ٹوٹل کتنے ہیں۔ہم آبادی بھی اندازے میں بتاتے ہیں ۔اس لئے ہم ایک اندازا قوم ہیں۔

ادھار کی متبادل شکل امداد ہے۔اسے چندا بھی کہہ سکتے ہیں۔امدادکوئی واپس نہیں مانگتا اور’’چندا‘‘کوئی واپس نہیں کرتا۔بلکہ امدادکنجوس سیٹھ کو دی ہوئی وہ رقوم ہوتی ہے جسے واپس مانگنے پر فقیر کی بھی پٹائی ہو تی ہے۔ ایک فقیر نے کنجوس سیٹھ کےدر پر صدا بلند کی۔
فقیر :بابا بھلا کرو۔یہاں دوگے تو وہاں لوگے ۔
کنجوس ملازم سے:اوئے فیروز۔ منشی جی سے کہو کہ خدمت گار مبارک سے کہے کہ وہ گارڈ کو کہہ دے ۔اور گارڈ فقیر سے کہہ دے کہ ۔اللہ بھلا کر ے کوئی اور گھر دیکھو۔فقیر اس عجیب و غریب جواب رسانی سے پریشا ن ہوا اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لئے۔
’’اے اللہ۔ اپنے نبی کے واسطےسے جبرائیل سے کہیے کہ وہ میکائیل کے ذریعہ اسرافیل کو طلب کریں اور عزرائیل کو پیغام بھجوائیں کہ وہ اس کنجوس رئیس کی روح فورا قبض کر لیں۔‘‘

فقیر اور سیٹھ کے ڈائیلاگ سے اندازا کیا جا سکتا ہے کہ کنجوسی ایک کیفیت کا نام ہے۔جو اکثر لوگوں پر طاری رہتی ہے۔ ایسا ہی کچھ پچھلے دنوں ملک کے ایک قومی اخبار کی خبر میں پڑھنے کو ملا۔جو مقامی صحافی قدیر سکندرنے فیصل آباد کے کنجوس مگر سیٹھ نما سیاستدانوں کے بارے میں شائع کی تھی ۔ ’’فیصل آباد کے کُل 11 میں سے 7 ممبران قومی اسمبلی گاڑی سےمحرو م ہیں ۔ان کے اہل خانہ کے پاس طلائی زیورات بھی نہیں ہیں۔ ذاتی جیب خرچ صرف چند ہزار روپے ہے ۔خبر کے مطابق ایم این اے طلال چوہدری کے پاس گاڑی نہیں ۔ایم این اے عاصم نزیر کے اثاثوں کی مالیت 5 کروڑ 55 لاکھ ہے اور ذتی گاڑی سے محروم ہیں۔ ایم این اے شہباز باز کے اثاثوں کی مالیت 9 کروڑ 40 لاکھ ہے لیکن وہ بھی ’’پیدل ‘‘ہیں۔ ایم این اے ڈاکٹر نثار احمد اور ایم این اے میاں فاروق بھی ’’بے کار‘‘ ہیں۔میاں فاروق کے اثاثوں کی مالیت 1 کروڑ 89 لاکھ ہے ان کی فیملی کے پاس بھی طلائی زیورات نہیں ہیں۔ایم این اے رانا افضل بھی گاڑی سےمحروم ہیں۔ ان کی اہلیہ نجمہ افضل ایم پی اے کے پاس زیورات بھی نہیں ۔وفاقی وزیر عابد شیر علی کے اثاثے 3 کروڑ 56 لاکھ سے زائد ہیں لیکن ان کے پاس ذاتی گاڑی ہے اور نہ ہی اہلیہ کے پاس زیورات۔ایم این اے حاجی اکرم انصاری کی دو فیکٹریوں کی ملکیت 8 لاکھ روپے ہے۔‘‘

ا ثاثے چھپانے والے ان ممبران اسمبلی کی طرح میں بھی فیصل آبادی ہوں لیکن میں ظاہر ی اثاثہ ہوں بلکہ بظاہر اثاثہ ہوں ۔ ہمدردی کے جذبات سےلبریزہوں۔ فیصل آبادلٹھے اور لان کا شہر ہے۔ صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کا شہر ۔اس شہر نے ہرسال سیلاب اور زلزلہ زدہ افراد کی کُھل کر مدد کی ہے۔انہی متاثرین میں اب آسیب زدہ ممبران اسمبلی کا اضافہ بھی ہوگیا ۔مخیر حضرات دل کھول کر اراکین اسمبلی کی مالی مدد کریں، گھر ، پلاٹ اور گاڑی ، فیکٹری، فارم ہاوس اور قرضے، متنازعہ پراپرٹی اور لیز کی جگہ پر قبضہ، طلائی زیوارت، رہزنی میں برآمد ہونے والی گاڑیاں اور طلائی زیورات، نوکری کے عوض رشوت، ٹیکس چوری اور بنکوں سےمعاف ہونے والا قرضہ ۔ترقیاتی کاموں میں کمیشن، جوا مافیا کی سرپرستی اورکسٹم وایکسائز ڈیوٹی میں ہیر پھیر۔سب چلے گا۔زکوۃ، فطرانہ اور صدقہ بھی ۔ برائے مہربانی سوچنے میں وقت ضائع نہ کریں۔ امداد کریں۔اس سے پہلے کہ عوام کی وہی حالت ہو جائے جو حاکم سیاستدانوں کی ہے۔ وگرنہ کسی روز اخبار میں اشتہار چھپا ہو گا’’ممبر ان اسمبلی کے بچے۔ باپ ۔ بھائی وغیرہ برائے فروخت ہیں۔ خواہش مند افراد فوری رابطہ کریں‘‘مارکیٹ میں آگئے تو یہ انمول بے مول ہو جائیں گے۔آئیں ہم سب مل کر دعا کریں۔ممبران اسمبلی نےجو اثاثےظاہر کئے ہیں اگر وہ غلط ہیں تو سارے ممبران اسمبلی کنگال ہو جائیں اور اگر اثاثے درست ہیں تو میری شہر کے مخئیر حضرات سے اپیل ہے کہ وہ ان’’ آسیب زدہ سیٹھوں‘‘ کو مرنے سے بچائیں۔ ہمارے ٹیکس گذار، ایماندار،خدمت گار، سچے ، عوام کے حقیقی خادم اگر بھوک ، غربت اور افلاس کی وجہ سے مر گئے تو ستے ستائے لوگ ہمیں بھی پتھروں سے مار دیں گے ۔
ایک مولانا کئی روزہ غیر حاضری کے بعد جوش صاحب کو ملنے آئے۔
جوش صاحب:کیا ہوا مولانا۔بہت دنوں بعد ملے ۔؟
مولانا:کیا بتاؤں جوش صاحب۔پہلے ایک گردے میں پتھری تھی اس کا آپریشن ہوا۔اب دوسرے گردے میں پتھری ہو گئی ہے۔
جوش صاحب :میں سمجھ گیاالله تعالیٰ آپ کو اندر سے سنگسار کر رہا ہے۔
دوستو: آپ’’ مولانا‘‘ کی صحت کے لئے دعا کریں۔ !سمجھ گئے ناں۔ ؟
ajmal malik
About the Author: ajmal malik Read More Articles by ajmal malik: 76 Articles with 104590 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.