شہزادے کی اپنی پارٹی پر بداعتمادی یا قوم پرست پارٹی کو دو ٹکڑے کرنیکی سازش
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
کالجز کے طلبا ؤ طالبات کو دھرنوں اور جلسوں میں لانے سمیت فیس بک اور سوشل میڈیا پر زمین کو آسمان پر لے جانے کے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ پارٹی کے پاس ایسی تجربہ کار خواتین کی بھی کمی ہے جو صوبائی حکومت کی جانب سے سٹریٹ چلڈرن کے پراجیکٹ کو چلا سکے -یہی وجہ ہے کہ اربوں کے پراجیکٹ کیلئے ایسی پارٹی کی خاتون ممبر اسمبلی کو لیا گیا ہے جس پر تبدیلی والی سرکار کے بنی گالہ کے مہربان پہلے ہی کرپشن کا الزام عائد کر تے ہوئے کابینہ سے فارغ بھی کرچکے تھے اور کرپشن کے الزام میں فارغ ہونیوالے اسی پارٹی کے رہنماء نے عدالت میں بنی گالہ میں رہنے والے شہزاد ے کے خلاف ہتک عزت کا دعوی بھی کر رکھا ہے |
|
خیبر پختونخواہ میں میں تبدیلی
کے ڈکار لینے والوں کی کارکردگی سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں کسی حد تک
بہتر ہی ہیں اور یہ ایک کھلی حقیقت ہے تاہم جس رفتار سے صوبائی حکومت کام
کررہی ہیں اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو وعدے انتخابات سے قبل تبدیلی
والی سرکار اور اس کے ساتھیوں نے کئے تھے وہ پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے-
اورتجربوں کی سرزمین خیبر پختونخواہ پر امکان نہیں کہ آنیوالے انتخابات میں
زیادہ دعوے کرنے والوں کو حکومت ملے - کالجز کے طلبا ؤ طالبات کو دھرنوں
اور جلسوں میں لانے سمیت فیس بک اور سوشل میڈیا پر زمین کو آسمان پر لے
جانے کے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ پارٹی کے پاس ایسی
تجربہ کار خواتین کی بھی کمی ہے جو صوبائی حکومت کی جانب سے سٹریٹ چلڈرن کے
پراجیکٹ کو چلا سکے -یہی وجہ ہے کہ اربوں کے پراجیکٹ کیلئے ایسی پارٹی کی
خاتون ممبر اسمبلی کو لیا گیا ہے جس پر تبدیلی والی سرکار کے بنی گالہ کے
مہربان پہلے ہی کرپشن کا الزام عائد کر تے ہوئے کابینہ سے فارغ بھی کرچکے
تھے اور کرپشن کے الزام میں فارغ ہونیوالے اسی پارٹی کے رہنماء نے عدالت
میں بنی گالہ میں رہنے والے شہزاد ے کے خلاف ہتک عزت کا دعوی بھی کر رکھا
ہے - اس عمل سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صوبائی حکومت میں شامل بیشتر
ممبران اسمبلی پر شہزادے کو اعتماد ہی نہیں یا پھر انہیں اپنی پارٹی سے
تعلق رکھنے والے ممبران سے ڈر ہیں کہ کہیں وہ کرپشن کا کوئی ڈرامہ شروع نہ
کرے-یہی وجہ ہے کہ صوبے کے سطح پر شروع کئے جانیوالے سٹریٹ چلڈرن پراجیکٹ
کیلئے دوسرے پارٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون کو پراجیکٹ دیا گیا ہے -
خیبر پختونخواہ میں تبدیلی والی سرکار کی پالیسی نے جہاں اسلامی ٹھیکیداروں
کی پارٹی کو نکیل ڈال دی ہیں وہیں پر صوبے کے پختونوں کے نام پر سیاست کرنے
والے اپنے پرانے اتحادی جس پر پہلے کرپشن کا الزام لگایا تھا اور اب دوبارہ
حکومت میں شامل کردیا ہے نئی مشکل صورتحال سے دوچار کردیا ہے ‘ کیونکہ ایک
طر ف عمران خان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ واپس لینے سے پارٹی کارہنما
انکاری ہے تو دوسری طرف سابقہ اتحادی کو دو وزارتیں تو دیدی گئی ہیں لیکن
اختیارات نہیں دئیے گئے- جس کے باعث اس پارٹی کے ورکروں ‘ رہنماؤں کے کام
نہیں ہورہے اور وہ پارٹی رہنماؤں سے نالاں دکھائی دیتے ہیں-صوبے میں
وزیراعلی کی حیثیت سے کام کرنے والے پرویز خٹک جو کسی زمانے میں آفتاب
شیرپاؤ کے ہم پیالہ و ہم نشین رہے ہیں نے عمران خان کے کرپشن کے الزام کے
بعد اتحاد سے نکل جانیوالی پارٹی کوحکومتی اتحاد میں شامل کیا جس سے نہ صرف
پرانے یار خوش ہوگئے بلکہ کرپشن کے الزام میں گرفتا ر ہونیوالے تبدیلی والی
سرکار کے اہم رکن اسمبلی جو اس اتحاد کے بڑے مخالف تھے کو بھی اس کی اوقات
یاد دلا دی - کرپشن کے الزام میں گرفتار رکن اسمبلی جو کسی زمانے میں سرخ
پوشوں کی ایک اہم شخصیت سے تعلق کی بناء پر بہت سارے ٹھیکوں میں کاغذی
ٹھیکیدار تھے پرانے اتحادی کو شامل کرنے کے پہلے بھی خلاف تھے اور نئے بننے
والے اتحاد کی بھی بڑی مخالفت کی تھی تاہم جیل کے نام پر ہسپتال میں ہونے
کی وجہ سے وہ کچھ نہ کرسکے- اس کا سب سے بڑا فائدہ تبدیلی والی سرکار کو ہی
ہوا ہے کیونکہ اس سے صوبے میں اسلام کے نام پر ٹھیکیداری کرنے والوں کو بھی
بتا دیا گیا ہے کہ زیادہ پھیلنے کی ضرورت نہیں ‘ - ہم مفاد کیلئے "تھوکا
ہوا بھی چاٹ سکتے ہیں" جس سے حکومت میں شامل ہونے کے بعد سکولوں اور
پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے اسلامی ٹھیکیداروں کی ہوا بھی کسی حد تک نکل
گئی ہیں-اورسال 2015 ء میں بجٹ کو آخری مرتبہ پیش کرنے کی بات کرنے والے آج
سیاسی میدان میںیہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم آنیوالے انتخابات کیلئے
تیار ہیں اور اس اتحاد سے فائدہ اٹھا کر اپنے لئے آنیوالے الیکشن میں راہ
ہموار کرینگے-
قوم پرست پارٹی سے تعلق رکھنے والے واقفان حال کا کہنا ہے کہ تبدیلی والی
سرکار کی جانب سے دوبارہ اتحاد کی پیشکش پر پارٹی قیادت کو بتا دیا گیا تھا
کہ بنی گالہ سے تعلق رکھنے والے لی- ڈر نے کرپشن کی بات کی تھی اس نے کبھی
اتحاد کے خاتمے کی بات نہیں کی تھی صرف کرپشن کے مرتکب وزراء کو نشانہ
بنایا تھا- اس لئے ہمارا اتحاد ابھی بھی آپ سے ہوسکتا ہے تاہم شرط بھی یہی
ہے کہ پرانے افراد کے بجائے نئے افراد کو لیا جائے-جس کیلئے اہم وزارتیں دی
جائینگی جس پرشیرپاؤ سے تعلق رکھنے والی قوم پرست پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم
ہو گئی ایک دھڑہ اتحاد میں شامل ہونے پر زور دے رہا تھا تاکہ کرپشن کا جو
الزام لگایا گیا تھا اس کو دھولیا جائے اور لوگوں کو نوکریاں دی جائیں تاکہ
آنیوالے انتخابات میں ان کی پوزیشن مستحکم ہو ‘ جبکہ دوسرے دھڑے کا موقف
تھا کہ دو پرانے رہنماؤں کو کھڈے لائن کرکے پارٹی قیادت جو بھی وزارت کیلئے
نئے افراد کو لائیگی اس سے اس بات کو تقویت ملے گی کہ کرپشن کے الزامات
تبدیلی والی سرکار نے جو لگائے تھے وہ ٹھیک تھے- اس لئے اتحاد سے دور
رہاجائے- ساتھ ہی ساتھ سینٹ الیکشن میں پارٹی رہنماؤں کی جانب سے مخصوص
ممبران کو شوکاز نوٹس دینے اور پھر خاموشی اختیار کرنے پر بھی پارٹی کی
اعلی قیادت تقسیم ہوگئی - تاہم پارٹی کے چیئرمین نے وقت کے تقاضوں کے پیش
نظر حکومتی اتحاد میں شامل ہونے پر زور دیا جس کے بعدپارٹی رہنماؤں نے تین
نئے نام منظور کردئیے جنہیں وزارت میں شامل کیا جانا تھا-اور پرانے اتحادی
جنہیں دوبارہ شامل کیا جارہا تھا کو بتا دیا گیا تھا کہ صوبائی وزارت داخلہ
کا محکمہ انہیں دیا جائیگا لیکن حلف اٹھانے کے بعد بھی محکمے الاٹ نہیں کئے
گئے اور وزارت داخلہ کے بجائے سوشل ویلفئیر و خواتین کا محکمہ دیا گیا جس
کے پاس فنڈز بھی نہیں‘ وزیر کی حیثیت سے شامل ہونیوالے رہنماؤں کو وزراء کا
پروٹوکول دیا جارہا ہے نہ ہی انہیں اختیار دیا گیا ہے جس کے باعث اب قوم
پرست پارٹی کے رہنماء و کارکن بھی بد دل ہورہے ہیں کہ ایک تو ان کے کوئی
کام نہیں ہورہے اور دوسری طرف صرف نام کی وزارت دی گئی ہیں جس سے انہیں بھی
کوئی فائدہ نہیں ہورہا-
پرانے اتحادی کو شامل کرنے کے عمل سے قوم پرست کے رہنما جو پہلے اتحاد میں
صنعت کے وزیر تھے اور جن پر عمران خان نے کرپشن کا الزام عائد کیا تھا اپنی
پارٹی میں پریشر گروپ بنانے کا بھی اعلان کیا ہے کیونکہ اس پر پارٹی کی
جانب سے دباؤ ہے کہ وہ عمران خان کے خلاف ہتک عزت کا دعوی واپس لے - لیکن
پارٹی کی جانب سے سائیڈ لائن کے عمل پر وہ اور ان جیسے بہت سارے رہنماء بد
دل ہو چکے ہیں اور وہ الگ پریشر گروپ بنانے پر غورکررہے ہیں- اوریہی وجہ ہے
کہ بنی گالہ کے شہزاد ے کے خلاف ایک ارب روپے کے ہتک عزت کا دعوی ابھی
عدالت میں چل رہا ہے- جس کا فیصلہ تو آنیوالا وقت ہی کریگا تاہم ایک بات
صاف نظر آرہی ہے کہ صوبے میں حکومت کرنے والی تبدیلی والی سرکار کو آج بھی
اپنے ممبران پر اعتماد ہی نہیں - |
|