عمر قصائی کے بکرے چور

ضلع بہاولنگر کے ایک شہر’’مروٹ‘‘میں ابھی میرا دوسراہی دن تھا،میزبان مجھے یہاں کے حالات اور ماحول کے بارے میں بتارہے تھے کہ یہ نہایت ہی پُرامن شہرہے۔ میں بھی یہاں کے حالات، آب وہوا،رسم رواج، اور لوگوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ میں کمرے میں بیٹھا کسی کتاب کا مطالعہ کررہا تھا کہ’’ تھانہ مروٹ‘‘ کے سامنے واقع ایک مسجد کے سپیکر سے اعلان ہوا:
عمرقصائی دے سَت بکرے گواچ گئے نیں، اگر کسی نوں اُناں دے بارے پتا ہوے ، یا کسی چک وچ ویکھے ہونڑ تے اطلاع دے دیو۔

عمر قصائی کے سات عدد بکرے گُم ہوگئے ہیں اگر کسی کو ان کے بارے میں معلومات ہوں یا کسی چَک وغیرہ میں دیکھیں ہوں تو اطلاع دے دیں۔ ان بکروں کا ڈراپ سین ایک ہفتے بعد ایسی حیرت انگیز کہانی کی صورت میں سامنے آیا کہ میں شہباز شریف اور ان کی پنجاب پولیس کو داد دیے بغیر نہ رہ سکا، یہ کہانی بعد میں پہلے چند اور باتیں پڑھ لیں۔

یہ اعلان سن کر مجھے سب سے پہلے تو یہ حیرت ہوئی کے پنجاب کے اندر بھی مختلف شہروں کے مختلف قانون ہیں، کہیں تو مسجد کے اسپیکر سے فوتگی کا اعلان ہوتا ہے تو پرچہ کاٹ لیا جاتا ہے اور کہیں بکروں، مرغوں کے اعلان بھی تھانے کے سامنے والی مسجد کے اسپیکر سے ہوتے ہیں۔

’’مروٹ‘‘ بہاولنگر کاایک چھوٹا سا آخری شہر ہے، یہاں کے لوگ نہایت ہی سادہ اور محنتی ہیں۔یہاں تقسیم ہند کے وقت ہندوستان سے ہجرت کرکے آباد ہونے والوں کی بھی بہت بڑی تعداد ہے۔مروٹ کے مغرب میں بہاولپور، مشرق میں فورٹ عباس اور جنوب کی جانب صحرائی علاقہ چولستان ہے، جومروٹ سے تین چار کلو میٹر آگے سے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ چولستان میں بھی وقفے وقفے سے کافی آبادی موجود ہے جہاں لوگ جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں یہاں کے ’’ایم پی اے‘‘ کو پنجاب حکومت نے ’’سینکڑوں ٹوبے‘‘ بنانے کے لئے بہت بڑی گرانٹ دی، یہ گرانٹ ایک ٹوبہ چار لاکھ کے حساب سے دی گئی، حالانکہ ایک ٹوبہ زیادہ سے زیادہ پچاس سے ساٹھ ہزار میں بن جاتا ہے۔

(ٹوبہ ایک بڑے گھڑے کو کہتے ہیں جس میں بارش کا پانی جمع ہوجاتا ہے۔اس کو بنانے کے لئے صرف ٹریکٹر کے ذریعے تھوڑی سی کھدائی کی جاتی ہے، اس میں کسی قسم کا کوئی میٹریل استعمال نہیں ہوتا۔) پچاس ہزار میں ایک ٹوبہ بننے کا مطلب ہے باقی ساڑھے تین لاکھ ایم پی اے کی جیب میں۔ اور پھر اس طرح کے سینکڑوں ٹوبے بنانے کی گرانٹ منظور ہوئی ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ قوم کی دولت کو کس طرح پارٹی کے جاگیرداروں اور حمائتیوں میں تقسیم کیا جارہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ الیکشن لڑتے وقت کروڑوں روپے پھونک دیتے ہیں کیونکہ ان کو پتا ہوتا ہے کہ اگلے دو چار سال میں ہم دُگنا چُگنا واپس نکال بھی لیں گے۔یہ تو ایک ایم پی اے کا حال ہے، اسی سے آپ اندازہ لگا لیں ایم این اے قومی خزانے کو کتنا لوٹتا ہوگا۔ اور پھر سنیٹر تو اس سے بھی آگے ہوتے ہیں، جو سنیٹر بننے کے لئے دس دس کروڑ میں ایک ایک ایم این اے کو خریدتے ہیں۔

اب عمر قصائی کے بکروں کا احوال ملاحظہ کریں۔ ہوا کچھ یوں کے اعلان سننے کے بعد میں ایک دکان پر گیا وہاں بھی یہی بحث لگی ہوئی تھی کہ عمرقصائی کے سات بکرے چوری ہوگئے ہیں، چنانچہ اسی قسم کے اعلان کئی مساجد میں کروائے گئے۔ بہرحال ایک ہفتے بعد عمرقصائی کو کسی نے بتایا کہ آپ کے بکرے فلاں علاقے میں فلاں شخص کے پاس موجود ہیں، اس شخص کو جس نے بیچے ہیں اس نے ان چوروں کی ساری ویڈیو موبائل کے ذریعے بنائی ہے۔ چنانچہ عمرقصائی کے بندے جب وہاں گئے تو دیکھا واقعی بکرے موجود ہیں، انہوں نے موبائل پر ویڈیو پلے کی جس میں ایک پولیس وین اس گاؤں میں داخل ہوتی ہے ، اس پولیس کی گاڑی سے بکرے اتارے جاتے ہیں اور اس شخص کو فروخت کرلیے جاتے ہیں۔چنانچہ یہ ناقابل تردید ثبوت لے کر عمرقصائی صاحب تھانے میں گئے پہلے تو ویسے ہی بات کی لیکن تھانے والے نہ مانے، لیکن جب ویڈیو دکھائی تو تھانے والے منت ترلے پر آگئے اور بکروں کی واپسی کے علاوہ ایک لاکھ روپے کی آفر بھی ہوئی۔

اس واقعے سے یہ پتا چلا کہ جہاں حالات بہتر ہوں، لوگ سیدھے سادھے اور پُرامن ہوں وہاں پولیس وردیوں میں ملبوس ہو کر خود ہی چوریاں کرتی اور حالات کو خراب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
Syed Abdulwahab Sherazi
About the Author: Syed Abdulwahab Sherazi Read More Articles by Syed Abdulwahab Sherazi: 78 Articles with 74090 views Writer, Speaker, Mudarris.
www.nukta313.blogspot.com
.. View More