چار روزہ توانائی کانفرنس سے کراچی کو کیا ملا

کیا کراچی کے لئے بجلی کی سپلائی میں 300میگاواٹ کی کمی کا اعلان.....ایک سازش ہے؟
بجلی کی بچت کی انوکھی منطق ہفتہ، اتوار چھٹی ......اور سالانہ 9کھرب روپے کا نقصان ....؟
کٹ مروں گا، بجلی پر سمجھوتہ نہیں کروں گا شہبازشریف کا عزم مصمم

گزشتہ دنوں ملک میں بجلی اور توانائی کے بحران کے حل کے حوالے سے ہونے والی انرجی کانفرنس کے بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے جو اعلانات کئے گئے اُس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ اِس توانائی کانفرنس میں کراچی کو کچھ ملا تو نہیں بلکہ اُلٹا اِس سے تین سو میگاواٹ چھیننے اور کراچی کی انڈسٹری کو تباہ کرنے کی بھر پور کوششیں کی جارہی ہیں کیونکہ اُلٹا اِس کانفرنس میں اہلِ کراچی کے لئے یہ ایک انتہائی ظالمانہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ کے ای ایس سی کو بجلی کی سپلائی650سے کم کر کے 300میگاواٹ کردی جائے گی جِسے اہلیانِ کراچی یہ سمجھ رہے ہیں کہ سازشی عناصر شائد یہ کبھی نہیں چاہتے کہ کراچی میں دیرپا امن و سکون قائم رہے اور سازشی عناصر کی یہی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح سے کراچی کا امن و سکون تباہ وبرباد ہو کر رہ جائے جس کے لئے اُنہوں نے غالباً اپنی پہلے سے تیارہ کردہ منصوبہ بندی کے تحت یہ چاہا ہے کہ جب پیپکو سے کراچی کو بجلی کی فراہمی میں 300میگاواٹ کمی ہوگی تو کراچی کے لوگ بلبلا اٹھیں گے اور کراچی بھی بدترین لوڈشیڈنگ کی زد میں آجائے گا اور جب کراچی میں بھی طویل ترین لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہوجائے گا تو پھر خود بخود دنیا کا بارہواں انٹرنیشنل شہر کراچی بھی ہنگامہ آرائی اور لوٹ مار کی زد میں آجائے گا حکومت کو اپنے اِس روئے پر ضرور نظرثانی کرنی چاہئے جس سے کراچی کی عوام میں حکومت سے متعلق یہ تاثر اُبھر کر سامنے آرہا ہے کہ حکومت نے چند سازشی عناصر کے ہاتھوں بلیک میل ہوکر اہلیانِ کراچی کے ساتھ بجلی کی سپلائی میں 300میگاواٹ کی کمی کر کے اپنے ظالمانہ اقدام کی مرتکب ہو رہی ہے۔ اِس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ اِس توانائی کانفرنس نے کراچی کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے اور اِس کانفرنس میں کراچی سے اُجالے چھین کر اِس کے ہاتھوں میں اندھیرے کی ایک بڑی سے گٹھری تھما دی گئی ہے جس سے کراچی تاریکیوں میں ڈوب جائے گا اور ملک کے دوسرے شہر اُجالے سے مستفید ہو رہے ہوں گے۔

جبکہ دوسری جانب وزیر اعلی ٰ پنجاب نے بھی اپنے صوبے میں بجلی کی سپلائی کے حوالے سے کمر کس لی ہے اُنہوں نے کہا ہے کہ وہ پنجاب کے حق کے لئے کٹ مریں گے مگر بجلی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اِن کا کہنا ہے کیونکہ بجلی کی لوڈشیڈنگ سے سب سے زیادہ نقصان پنجاب کو پہنچا ہے اور سب سے زیادہ احتجاج کرنے والوں نے پنجاب میں پولیس کی لاٹھیاں اور ڈنڈے کھائے ہیں اِس بنا پر کچھ بھی ہوجائے میں پنجاب میں بجلی کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ نہیں کروں گا چاہے کٹ مروں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک صوبے کا وزیراعلیٰ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے اتناجذباتی ہوجائے کہ وہ غصہ میں آکر یہ بول اٹھے کہ کٹ مروں گا مگر پنجاب میں بجلی پر سمجھوتہ نہیں کروں گا تو پھر میرے قارئین آپ خود یہ سمجھیں کہ آئندہ حالات کی سنگینی کیا رخ اختیار کرے گی ....؟اِس کا اندازہ آپ خود لگالیں۔ اور جب ملک میں ہفتے میں ہفتہ، اتوار 2 چھٹیاں ہونے لگیں گیں تو ذرا یہ سوچیئے کہ ملک کی معیشت کا کیا حشر ہوگا اور اِس سے ملک کو سالانہ 9کھرب کا جو نقصان ہوگا....؟اور جس کا بوجھ بھی بھوکے ننگے مفلوک الحال عوام پر ہی پڑے گا اور جب میری یہ باتیں آپ کی سمجھ میں آجائیں تو پھر خود فیصلہ کریں کہ ملک میں ہونے والی اپنی نوعیت کی پہلی اور انوکھی توانائی کانفرنس سے کس کو کیا فائدہ ہوا ہے اور کس کو کیا نقصان ہوگا۔

بہرکیف! یہ بات بھی ہمارے حکمرانوں اور عوام کو اچھی طرح سے ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ جب پاکستان نے پہلے ہی سے اپنے پڑوسی اسلامی ملک ایران سے ملک میں بجلی اور توانائی کے بحران کے حل کے حوالے سے کوئی سلسلہ شروع کر رکھا تھا تو پہلے اِس کا کوئی حتمی نتیجہ سامنے آنے کا انتظار کیا ہوتا تو پھر کسی اور جانب حکومت پاکستان خود سے کوئی قدم اٹھاتا تو بہترہوتا وہ ملک میں بجلی اور توانائی کے بحران کے حل کے حوالے سے ایران سے دوبارہ رابطہ کرلیتی تو اچھا تھا کیونکہ پاکستان میں متعین ایرانی سفیر ماشااللہ شاکری نے توانائی پر شائع ہونے والے عالمی میگزین انرجی اَپ ڈیٹ کو اپنے ایک انٹرویو میں اپنے جن خیالات کا اظہار کیا تھا وہ گزشتہ دنوں ایک خبر کی شکل میں اُس وقت ملکی اخبارات کی زینت بنے جب ہماری حکومت ملک میں بجلی اور توانائی کے بحران سے متعلق اپنے یہاں منعقد ہونے والی انرجی کانفرنس کے بعد چاروں صوبائی وزرا اعلی ٰ کی سفارشات کی روشنی میں ملک میں بجلی اور توانائی کی بچتوں کے حوالے سے اقدامات کرنے کا اعلان کرچکی تھی اُس کے بعد ایرانی سفیر کی یہ خبر آئی کہ ایران پاکستان کو بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے مقامی ٹیرف سے بھی کم نرخوں پر ایک ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کے لئے تیار ہے شاکری کا کہنا تھا کہ مگر پاکستانی حکام نے ابھی تک اِس ایرانی پیشکش کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا اور اِس کے ساتھ ہی اِن کایہ بھی کہنا کئی ایک سوالات کو جنم دے رہا ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر دستخط کے باوجود بھی پاکستان کی جانب سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہمیں گیس پائپ لائن پر پاکستانی حکومت کے اقدامات کا انتظار ہے اور نہ صرف اُنہوں نے یہ کہا بلکہ شاکری کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم (ایران)نے ایک ہزار کلومیٹر پر گیس کی پائپ لائن بچھانے کا کام مکمل کرلیا ہے یوں 12ارب ڈالر کے منصوبے سے پاکستان کو750ملین کیوبک فٹ گیس فراہم ہوگی جو خصوصی طور پر پاور جنریشن پلانٹ کو فراہم کی جائی گی اُنہوں نے اپنے اِس انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان میں لوڈشیڈنگ اور شہریوں کی مشکلات اور صنعتکاروں کو درپیش مسائل کوہی دیکھتے ہوئے ایران نے گزشتہ سال حکومت پاکستان کو خود سے ہی باضابطہ طور پر یہ پیشکش کی تھی اور اِس سلسلے میں ایران نے کہا تھا کہ مقامی ٹیرف سے بھی کم ریٹ میں یہ بجلی پاکستان کو فراہم کرسکتا ہے اور اِس کے علاوہ بھی ایران نے پاکستان کی مشکلات کے پیشِ نظر یہ پیشکش بھی دی تھی کہ اگر انفراسٹرکچر بھی فراہم کرنا پڑا تو ایران اِس میں بھی تعاون کرے گا مگر نہایت ہی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے اعلی ٰ سطح پر اِس جانب کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہاں راقم الحرف کا خیال یہ ہے کہ حکومت پاکستان بھلا خود سے اپنی تئین اِس حوالے سے کوئی فیصلہ کیوں کرسکتی ہے جب تک کسی بھی معاملے میں حکومت پاکستان اپنے سرپرست اور آقا امریکا سے صلح مشورہ اور آشیرباد حاصل نہ کرلے ۔اور جب تک کسی بھی معاملے میں پوری طرح امریکی مرضی و منشا شامل نہیں ہوتی حکومت پاکستان کوئی ایک قدم بھی آگے یا پیچھے نہیں اُٹھاتی اور شائد یہی وجہ تھی کہ حکومت پاکستان کو ایران کی جانب سے آنے والی اِس اچھی اور معیاری پیشکش کا کوئی مثبت و تعمیری جواب دینے میں پس وپیش ہوتی رہی ہے کیونکہ ممکن ہے کہ جب حکومت پاکستان نے امریکا سے اِس معاملے میں کوئی رائے لی ہوگی تو اِس پر امریکا نے خاموشی کے ساتھ یا صاف ہی انکار کر دیا ہوگا کہ خبردار...! ایران سے بجلی یا گیس کے حوالے سے کوئی مدد لی ہو...اور بس پھر اِس کا نتیجہ یہی نکلا کہ آج حکومت پاکستان نہ تو خود اپنے یہاں بجلی و توانائی پیدا کرنے والے وسائل کو ہی اپنے لئے بروئے کار لاسکی ہے اور نہ ہی اِس نے اِس جانب کوئی توجہ ہی دی ہے کیونکہ ماہرین کا خیال یہ ہے کہ اگر پاکستان کے جغرافیائی اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو صرف صوبہ سندہ میں تھرکے مقام پر کوئلے کے اتنے ذخائرموجودہیں کہ کم وپیش ملک میں 150 سال تک اِسی تھر کے کوئلے سے 50ہزار میگاواٹ تک بجلی پیداکی جاسکتی ہے۔ اِس طرح ملک بجلی کے کسی بھی سنگین سے سنگین بحران سے بھی محفوظ رہ سکتا ہے مگر ضرورت تو اِس امر کی ہے کہ کون اِن ذخائر کو اِس مقصد کے لئے بروئے کار لائے اور کون بے لوث ہوکر بغیر کسی لالچ کے اِس سلسلے میں پاکستان کی مدد کرے وہ امریکا جو ہر معاملے میں پاکستان کا دوست بنا پھرتا ہے کیا وہ اپنی کسی لالچ اور غرض کے بغیر پاکستان کی تھر سے کوئلے نکالنے اور پاکستان میں بجلی اور توانائی کا بحران ختم کرنے میں کوئی مدد کرسکتا ہے۔ جو حکومت ِپاکستان کو ایران سے سستی بجلی کی فراہمی میں رخنہ ڈال کر تھر سے کوئلے نکلنے تک پاکستان کی مشکلات میں بجائے کمی لانے اور اَنہیں ختم کرنے کے اُلٹا اِن میں اضافہ ہی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ملک میں بجلی اور توانائی کا یہ بحران جو اَب ایک سنگین شکل اختیار کر گیا ہے 2006 میں پیدا ہوا تھا جب ملک پر امریکی چہیتے ایک جابر فاسق و فاجر آمر حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت تھی اور ماہر معیشت دان مسٹر شوکت عزیز اُس کی حکومت میں ملک کے وزیراعظم ہوا کرتے تھے اُس وقت سے ہی ملک میں صحیح معنوں میں بجلی اور توانائی کے عفریت نے اپنا سر اُٹھانا شروع کردیا تھا اور اُن دنوں پورے ملک میں بجلی کا یہ بحران صرف 450میگاواٹ سے ہوا تھا اگر اُس وقت بھی وہ حکمران کچھ کرتے اور اپنے ایران اور چین جیسے دوستوں سے بھی اِس حوالے سے مدد طلب کرتے تو ممکن ہے کہ یہ بحران یہ شکل اختیار نہ کرتا جیسی ہولناک صورت اِس نے اَب اپنالی ہے اور آج اِس بجلی اور توانائی کے بحران میں بتدریج ہونے والے اضافے کا اِس موجودہ حکومت نے 2010 میں جب اِس کا سنجیدگی سے نوٹس لیا تو پانی اِس کے سر سے بہت اُونچا ہوچکا تھا اور حالات ایسے پیدا ہوگئے تھے کہ حکومت کا اِس پر تنہا قابو پانا بڑا مشکل ہوچکا تھا کیونکہ ملک کے طول و ارض میں روزانہ 18سے20گھنٹے ہونے والی طویل بجلی کی لوڈشیڈنگ نے ملک کے عوام کو باہر سڑکوں پر آکر اپنا احتجاج کرنے پر مجبور کردیا تھا اور اِس طرح اگر یوں کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں تنگ اور ستائے ہوئے عوام سڑکوں پر نکل کر اپنا احتجاج کرنے اور سرکاری و نجی املاک کو بھی نقصان پہنچاکر حکومت اور اِس کی پالیسیوں کے خلاف اپنی نفرت اور غم و غصے کا کھلم کھلا اظہار کرنا اپنا حق سمجھنے لگے تھے گو کہ عوام میں حکومت سے بغاوت کی ابتدا ہونے کو ہی تھی کہ بالآخر ملک میں بجلی کا وہ بحران جو 2006میں مجموعی طور پر صرف 450میگاواٹ تک تھا اَب یہی بحران سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی نااہلی اور اِن کی ناقص حکمتِ عملی اور ناکام منصوبہ بندی کے باعث 2010میں 4700 میگاواٹ تک پہنچ گیا تو اِس صورت ِ حال میں حکومت نے ملک میں بجلی اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے انتہائی عجلت اور جلدبازی اور پریشانی کے عالم میں اسلام آباد میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں 19اپریل 2010 میں ملک میں ہونے والی پہلی دو روزہ توانائی کانفرنس کا انعقاد کیا۔

اگرچہ یہ دو روزہ انرجی کانفرنس جو ابتدا میں تو صرف دو روزہ ہی تھی مگر بعد میں اپنے مطلوبہ ایام میں کوئی نتیجہ نہ نکلنے کی بنا پر اِس میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی خصوصی ہدایت پر مزید دو روز کی توسیع دی گئی تھی اور اِس طرح حکومت کو اِس کانفرنس کے ذریعے جو کچھ کرنا کرانا تھا اِس نے ملک میں بجلی اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے جیسے تیسے یہ کانفرنس محض عوام کو دکھانے اور دنیا کو بے وقوف بنانے کے لئے منعقد کر کے اپنے سر سے عوامی اور اپوزیشن کے دباؤ کا بوجھ اٹھا پھینکا اور اِس کے ساتھ ہی اِس کانفرنس کے نتیجے میں ملک میں توانائی کی بچت کے سلسلے میں جو اقدامات و اعلانات کئے گئے ہیں وہ بھی انتہائی نامناسب اور لاحاصل ہیں۔

اور اَب اِس کے بعد آئندہ ملک پر اِس کے کیا اچھے....؟ یا بُرے .....؟نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ تو بعد کی بات ہے.....؟ مگر پھر بھی ایک طبقے کا خیال یہ ہے کہ اِس کی بھی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے کہ ملک میں توانائی اور بجلی کے بحران کے حوالے سے حکومت نے توانائی کانفرنس کے بعد جو کچھ کیا ہے اُس کے سب بُرے یا اچھے ہونے کی حکومت ہی ذمہ دار ہوگی ......کیونکہ آج حکومت نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ محض تجرباتی بنیادوں پر ہے اگر کچھ اچھا ہوجاتا ہے تو ملک کے ساڑھے سولہ کروڑ افراد پر مشتمل ہجوم کی قسمت اور اگر سارا کا سارا بُرا ہوا بھی تو اِسی ہجوم کا مقدر بہرحال ! حکومت نے جو ملک میں پہلی چار روزہ انرجی توانائی کانفرنس کے اختتام کے بعد اقدامات کرنے اور ملک میں بجلی کی بچت کے سلسلے میں جتنے بھی انوکھے نوعیت کے اعلانات کئے ہیں اَن سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکے گا یعنی کہ یہ اُمید روپے میں چار آنے جتنی بھی نہیں ہے کہ حکومت نے جو کیا ہے وہ اچھا ہی ہوجائے سوائے سب کا سب بُرا ہونے کے .....

مگر پھر بھی حکومت پر یہ لازم ہے کہ وہ کراچی کے لئے تین سو میگاواٹ کی بجلی کی کمی کے منصوبے پر ضرور نظرثانی کرے کہ کراچی کے عوام میں پایا جانے والا یہ تاثر ختم ہوسکے کہ یہ حکومت دانستہ طور پر کراچی میں ایسے حالات پیدا کرنا چا رہی ہے کہ کراچی لوڈشیڈنگ میں ہو اور کراچی کے عوام سڑکوں پر آکر شہر کا امن و سکون وتباہ کو برباد کر دیں مگر حکومت میں شامل وہ سازشی عناصر جن کی یہ سوچ ہے کہ کراچی کی عوام اِس طرح سڑکوں پر نکل آئیں گے تو یہ اُن سازشی عناصر کی بھول ہے کہ کراچی کے عوام کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ وہ اپنے ہی ہاتھ سے اپنے ہی شہر کو آگ لگائیں اور اپنے ہی شہر کی املاک کو نقصان پہنچائیں۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 906995 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.