قربانی

بوجھل قدموں کی چاپ کمرہ جماعت کے بند دروازے کے پاس جا کر رک گئی۔لرزتے،کپکپاتے ہاتھوں نے بند دروازے کے کواڑ دھکیل کر کھولے ۔ایک لمحہ باہر کی ہوا میں لمبا سانس لینے کے بعد عدنان کمرے میں داخل ہوااور ملگجی سی روشنی میں پتھرائی ہوئی آنکھوں اور وحشت زدہ چہرہ لیے اپنی کرسی کی طرف بڑھ گیا جہاں بیٹھ کر وہ سبق پڑھا کرتا تھا اور اپنے دوستوں یاروں سے پہلے پہنچ کر اگلی رو میں رکھی ہوئی تیسرے نمبر پر موجود اس کرسی پر بیٹھاکرتا تھا۔تیسرا نمبر شاید اس کی زندگی میں اہمیت کا حامل تھا کیوں کہ اپنے بہن بھائیوں میں وہ تیسرے نمبر پر تھا اور سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے پیار بھی بہت ملتا،کرکٹ میں تیسرے نمبر پر آ کر بیٹنگ کیا کرتااور تیسرے نمبر کی شرٹ پہنتا تھا۔دوست بھی اس نے تین ہی بنائے اور دوستوں کا بھی وہ چہیتا تھا۔شوخ و چنچل عدنان آج خاموش تھا۔معاً اسے کچھ یاد آیا اس کے خالی ذہن میں تحریک پیدا ہوئی۔۔۔میرے دوست ،میرے ہم جماعت کہاں ہیں؟میں اکیلا کیوں ہوں؟آج موت کی سی خاموشی کیوں ہے؟؟ اچانک وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور چاروں طرف اپنے اردگرد موجود خالی کرسیوں کو دیکھنے لگا۔آج کوئی موجود کیوں نہیں؟کہاں گئے میرے دوست؟اس کے دماغ کے بند دریچے کھلنے لگے اور اسے علی کا وہ ہنستا مسکراتا چہرہ نظر آیا ۔علی،علی کہاں ہو تم ؟تمھاری کرسی خالی کیوں ہے؟آو نا کدھر ہو علی۔اپنے لنگوٹیے یار کو چھوڑ کر کدھر چلے گئے۔ آہستہ آہستہ اس کا خوابیدہ ذہن بیدار ہونے لگا۔اسے یاد آیا کہ علی کدھر گیا ۔آہ۔علی تو چلا گیا۔کبھی چھوڑ کر نہ جانے والا کبھی نہ آنے کے لئے چلا گیا۔اسے یاد آیا کہ کس طرح وہ اپنی کلاس میں بیٹھا دوستوں سے گپیں ہانک رہا تھا تو دو نقاب پوش اندر داخل ہوئے اور کس طرح انھوں نے پوری کلاس کو یرغمال بنا کر سلگتے لوہے اور دہکتی آگ کا کھیل کھیلنا شروع کیااور کس طرح اس کے دوست اس خوفناک اور دردناک کھیل کا حصہ بن گئے ۔آہ۔میرے دوست تم چلے گئے ۔دفعتاً اس کے ذہن کی کھڑکی میں عامر کی تصویر ابھری ۔آہ۔عامر تم کدھر ہو؟تم کیوں جواب نہیں دے رہے؟بولو نا عامر کدھر ہوتم تو مجھے ہمیشہ ہنسائے رکھتے تھے۔جب کبھی گھر سے من پسند ناشتہ نہ ملنے پہ اور زبردستی ناشتہ کروانے پے میں منہ بنائے ناراض ہو کر آتا تو تمھاری لطیفوں کی پٹاری سے ایک لطیفہ نکلتا اور مجھے قہقے لگانے پہ مجبور کر دیتا ۔تم تو مجھے کبھی غمزدہ نہیں دیکھ سکتے تھے۔ میرے دوست کدھر ہو آو دیکھو تومیں کتنا اداس ہوں۔میرے آنسو گم ہو گئے ہیں،میرا دل دھڑکنا بھول گیا ہے،میری نظریں پتھرا گئی ہیں،میرے قدم ڈگمگا گئے ہیں،میرے ہاتھ لرز رہے ہیں،میرے چہرے سے وحشت عیاں ہے۔آو میرے دوست عامر میرے پاس آو،آج تم سنو میں سناوں گا،آج میں تمھیں ہنساوں گا،تمھیں لطیفے سناوں گا۔میرے دوست میرے پاس آو نا۔۔۔آہ ۔مگر تم کیسے آ سکتے ہو،ظالموں نے تمھیں ہی تو سب سے پہلے گولی ماری،میری آنکھوں کے سامنے تمھارے ہنستے مسکراتے چہرے کو خون سے لت پت کیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ عامر کی خالی کرسی پے جھکا ہوا تھا اور پتہ نہیں کب سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو کر اس کے چہرے پے رواں تھے۔اوہ ۔میں سہیل کو کیسے بھول سکتا ہوں ،میرا سب سے آخر میں بننے والا دوست اور سب سے مخلص دوست۔کلاس کا سب سے لائق فائق طالب علم جو کہ مجھے علی کے ساتھ جفت طاق کھیلتے دیکھ کر کڑھتا رہتا اور میرے لئے علی سے لڑ پڑتا کہ اسے کھیل ہی میں لگاے رکھو گے یا پڑھنے بھی دو گے اور میں تمھاری خاطر علی کو ناراض چھوڑ کر پڑھنے بیٹھ جاتا اور پھر کچھ دیر بعد علی کی ناراضگی کا سوچ کر کھیلنے اٹھ جاتا۔آہ میرے دوست سہیل دیکھو آج عامر نہیں،علی بھی نہیں،آج میں نہیں کھیلوں گا،تم جو کہو گے پڑوں گا،تمھارے ساتھ رہوں گا۔دیکھو تو تمھارا دوست،تمھارا عدنان پڑھائی میں کتنا کمزور ہو گیا ہے،مجھے پڑھاو نا سہیل آو نا ،اسے یاد آیا کہ کس طرح ان دوظالموں میں سے ایک ظالم نے سہیل کو شہید کر دیا تھا۔آہ میرے معصوم دوستو تم سب کیوں نہیں بولتے ہو،کیوں میرے پاس نہیں آتے ہو،مجھے کیوں سب اکیلا چھوڑ گئے ہو،میرے دوستو میں بھی تمھارے ساتھ کیوں نہ چلا گیا،تمھاری یاد میں مر کیوں نہ گیا۔اور وہ اپنے دوستوں کی خالی کرسیوں کے ساتھ نیچے زمین پر بیٹھ گیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے منہ کو چھپایا جیسے اسے شرمندگی ہو کہ وہ اپنی دوستوں کے ساتھ نہ جا سکا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اچانک اس نے اپنے چہرے سے ہاتھ ہٹائے اور آنسو صاف کرنے لگا،اس کے چہرے سے وحشت کم ہونے لگی،اس کی کپکپاہٹ ختم ہونے لگی اور وہ ایک جوش اور ولولے سے زمین سے اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میرے دوستو مجھے پتہ چل گیاکہ تم مجھے کیوں اکیلا چھوڑ گئے ،تم مجھے اس لئے پیچھے چھوڑ گئے کیوں کہ میں نے تمھارا بدلہ لینا ہے،ان ظالموں سے تمھارے معصوم خون کا حساب لینا ہے۔تمھارا قصور صرف یہ تھا کہ تم تعلیم حاصل کر رہے تھے اور تمھارے دلوں میں اس پاک سر زمین کے لئے،اس پاک وطن کے لئے کچھ کر دیکھانے کا جذبہ تھا ۔اس جذبے کو میں نے برقرار رکھنا ہے،تمھارے مشن کو میں نے جاری رکھنا ہے ا وران ظالموں سے تمھارے معصوم خون کا حساب لینا ہے۔میرے دوستو میرا تم سے وعدہ ہے کہ میں نے تمھارا ادھورا مشن پورا کروں گا ،تمھارے قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دوں گااور میں ان ظالموں سے کہ جنہوں نے تمہیں اور تم جیسے ہزاروں پھولوں کومرجھایا ان سے اپنی تعلیم کے ہتھیار سے ،اپنی قلم کے ہتھیار سے اور اپنے جوش اور ولولے کے ہتھیار سے اس وقت تک لڑوں گاجب تک کے وہ ہار نہیں جاتے۔میں لڑوں گا ،اس پاک سر زمین کے لئے لڑوں گا ۔
Aftab Ahmed
About the Author: Aftab Ahmed Read More Articles by Aftab Ahmed: 3 Articles with 3164 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.