مشترکہ مسلم فوج....عالم اسلام کے دفاع کی جانب مثبت پیش رفت

سعودی عرب کی زیر قیادت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے 34 اسلامی ملکوں کا فوجی اتحاد تشکیل دیا گیا ہے، جس میں پاکستان، متحدہ عرب امارات، بحرین، بنگلا دیش، ترکی، چاڈ، تیونس، ٹوگو، بینن، سوڈان، صومالیہ، سینگال، قطر، فلسطین، گنی، گبون، مراکش، مصر، مالی، مالدیپ، لیبیا، موریطانیہ، نائجر، نائجیریا، یمن، کویت، کمروز، جبوتی، لبنان، سیرالیون اور اردن شامل ہیں۔ اس اتحاد کا آپریشنل مرکز سعودی دارالحکومت ریاض میں ہو گا۔ ریاض میں ہونے والے اجلاس کے بعد جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ انسانیت کے خلاف وحشیانہ جرائم اور فساد فی الارض ناقابل معافی جرائم ہیں، جو نہ صرف انسانی نسل کی تباہی کا موجب بن رہے ہیں، بلکہ بنیادی حقوق کی پامالی اور انسانی عزت و احترام کے لیے بھی نہایت خطرناک ہیں۔ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے تمام مسلمان ممالک سعودی عرب کی قیادت میں متحد ہیں اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کی جائے گی۔سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کے حوالے سے پاکستانی خارجہ سیکرٹری اعزاز چودھری نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں انھوں نے اخبار میں شائع ہونے والی خبر پڑھی، جس پر انھیں حیریت ہوئی کہ سعودی عرب نے پاکستان کا نام فوجی اتحادی میں شامل کیا ہے، جبکہ ایک اور سرکاری عہدیدار نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اتحاد میں شامل کرنے کے حوالے سے پاکستان کو پہلے سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ مصر میں واقع عالم اسلام کی مشہور تعلیمی درس گاہ جامعة الازہر نے تمام مسلمان ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے لیے سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے نئے فوجی اتحاد کا ساتھ دیں۔ جامعة الازہر کی طرف سے اس نئے اتحاد کی تشکیل کا خیرمقدم کیا گیا ہے اور امید ظاہر کی گئی ہے کہ اس طرح ”دہشت گردی کی برائی“ کا خاتمہ کیا جا سکے گا۔ لبنان کے سابق وزیر اعظم سعدالدین الحریری نے بھی اس اتحاد کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اتحاد ایک اچھا اقدام ہے۔

پاکستانی قانون سازوں اور دفاعی تجزیہ کاروں نے مسلم ممالک کے اتحاد کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ اور سینیٹ کے موجودہ رکن عبدالرحمن ملک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام وقت کی ضرورت تھا۔ خاتون رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی کہتی ہیں کہ مسلمانوں کو آپس کے تنازعات بھی ختم کرنے چاہیں۔ سینیٹر لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقیوم کہتے ہیں کہ دنیا میں جب کہیں دہشت گردی ہوتی ہے، تو انگلیاں مسلمان ممالک کی طرف اٹھتی ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف اس اتحاد سے دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ اسلامی ممالک اس بارے میں سنجیدہ ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب کافی عرصے سے دیگر اسلامی ممالک کا کھلا تعاون چاہ رہا تھا اور یہ اتحاد اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ میرے خیال میں یہ ایک نظریاتی قسم کا اتحاد تشکیل دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد بظاہر اتحاد کے رکن ممالک کے درمیان خفیہ معلومات کا تبادلہ، بین الاقوامی سطح پر مختلف فورمز میں دہشت گردی کے امور سے متعلق یکساں موقف اپنانا ہو گا۔“ دفاعی تجزیہ کار ماریہ سلطان کا کہنا ہے کہ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ یہ فوجی اتحاد دہشت گردی کے خلاف کس طرح سے کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں تو یہ کسی فوجی کارروائی سے زیادہ دہشت گردی کے مسائل پر یکساں موقف اپنانے کے حوالے سے ایک اتحاد ہو گا، تاکہ اسلامی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہونے کا پیغام دے سکیں۔اگر اس میں کسی طرح براہ راست فوجی تعاون بھی شامل ہے تو پھر اس کی نوعیت بھی دیکھنی ہو گی۔

ایک عرصے سے کئی مسلم ممالک کی جانب سے نیٹو کی طرز پر مسلمان ملکوں کے مشترکہ ”اسلامی فوج“ بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ آج مشترکہ مسلم فوج کی انتہائی زیادہ ضرورت ہے۔ آج دنیا میں 192 میں سے 58 ممالک مسلمان ہیں۔ ساڑھے چھ ارب کے قریب انسانوں میں سے سوا ارب سے زاید مسلمان ہیں، جو وہ دنیا کے معدنی ذخائر کے75 فیصد کے مالک ہیں۔ دنیا کی بہترین بندرگاہیں، آبی گزر گاہیں، زمینی اور فضائی راستے مسلمانوں کے پاس ہیں۔ سب سے اچھا محل وقوع مسلم ممالک کا ہے۔ تیل کے لبالب بھرے کنویں اور سونے کی کانیں ہیں۔ زرخیز زمین، دریا اور نہریں ہیں۔ محنتی کسان ہیں۔ پسینہ بہانے والے مزدور، جان کی بازی لگانے والے فوجی ہیں۔ اعلیٰ دماغ اور باصلاحیت نوجوان ہیں۔ اس کے باوجود پسماندگی اور کمزوری مسلمانوں کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ عالم اسلام اور مسلمانوں میں اتفاق واتحاد کا فقدان ہے۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والے ممالک میں سرفہرست مسلم ممالک ہیں، جو دہشت گردی کے مراکز بنتے جارہے ہیں۔ آج مسلم ممالک کی حالت یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کوئی بھی مسلم ملک امن و آشتی کا گہوارا نہیں۔ بدامنی، جنگ وجدل اور قتل وغارتگری کی دبیز چادر میں لپٹی امت مسلمہ خود اپنی داستان الم سنا رہی ہے۔ عالم اسلام کے زخموں سے رستا ہوا خون ہر کھلی آنکھ کو دکھائی دے رہا ہے۔ سکون و چین عنقا ہوچکا ہے۔ مسلم ممالک میں جو متعدد عسکریت پسند تنظیمیں اور گروپس دہشت گردی میں ملوث ہیں، ان کے سدباب کے لیے لائحہ عمل طے کریں۔ بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے مسلم دنیا کی سلامتی اور استحکام کے حوالے سے سنگین چیلنجز پیدا ہوگئے ہیں۔ افغانستان، عراق، شام، پاکستان، صومالیہ، یمن اور دیگر کئی مسلم ممالک میں کئی عسکریت پسند تنظیمیں مسلم ممالک کو نقصان پہنچا رہی ہیں، ان حالات میں مسلم ممالک کے ایک بڑے اتحاد اور مسلم معاشروں میں دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ طور پر عملی اقدامات کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والا نیا فوجی اتحاد انتہائی خوش آئند ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ جب امریکا، برطانیا، فرانس، کینیڈا اور دوسرے مغربی ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نیٹو کی شکل میں ہاتھ ملا سکتے ہیں تو مسلمان ممالک کی جانب سے ایک مشترکہ اسلامی فوج بنانے پر اس اقدام کو سراہا جانا چاہیے۔ اگرچہ دنیا میں مذہب کے نام پر بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے تناظر میں بین الملکی تعاون و اتحاد بے حد اہم ہے، لیکن اچانک ایک ایسے فوجی اتحاد کے قیام کا اعلان جو مسلمانوں کی طرف سے دہشت گردوں کا مقابلہ کرے گا، دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ مبصرین نے کہا ہے کہ اگر تمام مسلم ممالک مل کر دہشتگردی کے ساتھ ساتھ دیگر عالم اسلام کو پیش دیگر مسائل کا مقابلہ بھی کریں تو ایک بہت ہی مثبت اقدام ہوگا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر نیا فوجی اتحاد صرف سیاسی ہتھکنڈہ کے طور پر سامنے آیا ہے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، لیکن اگر اس اتحاد کو حقیقی معنوں میں فوجی قوت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ مسلم دنیا کی ایک بہت بڑی قوت بن کر ابھرے گا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 703672 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.