ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
نواز‘ مودی ملاقات سے دنیا کو پاکستان اور بھارت کے مابین برف پگھلنے کا عندیہ ملا۔ ملاقات کے بعد میاں نوازشریف نے پراسرار لہجے میں کہا کہ انکے اور مودی کے مابین کیا بات ہوئی‘ یہ ایک امانت ہے اس لئے وہ بتانے سے قاصر ہیں‘ تاہم اس ملاقات کے چند ہی روز بعد بنکاک میں پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیروں میں بھی باضابطہ ملاقات ہو گئی جسے نواز‘ مودی ملاقات سے منسوب کرکے پاکستان اور بھارت کے مابین خیرسگالی کے تعلقات کی بحالی میں اہم پیشرفت قرار دیا گیا اور پھر اس ملاقات کے اگلے ہی روز بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج کے ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس میں شمولیت کے سلسلہ میں اسلام آباد آنے کی بھی تصدیق ہو گئی۔ چنانچہ ان دو ہفتوں کے دوران پاکستان اور بھارت میں تعلقات کی بحالی کے حوالے سے جو خوشگوار فضا قائم ہوئی اس میں عالمی دباﺅ ٹالنے کی کوئی بھارتی سازش ہی کارفرما نظر آتی ہے اور ملک کے بعض سیاسی‘ سفارتی‘ دفاعی اور دوسرے محب وطن حلقوں کی جانب سے اسی بنیاد پر بھارتی نیت پر شک و شبہ کا اظہار کیا جارہا ہے کیونکہ چند ماہ قبل تک تو بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج اور دوسرے بھارتی حکام پاکستان کو یہ باور کراتے نظر آتے تھے۔ |
|
افغانستان میں مستقل قیام امن کی علاقائی کوششوں میں مزید پیش رفت کیلئے اسلام آباد
میں پاکستان کی میزبانی میں ”ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس“ کا انعقاد ہوا۔ اس
کانفرنس " ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس " کی بنیاد 2011ءمیں استنبول میں شروع کی گئی
افغان امن کوششوں کو آگے بڑھانے اور کوئی لائحہ عمل طے کرنے کیلئے رکھی گئی تھی‘ اس
وقت 14 ایشیائی ممالک بشمول پاکستان‘ بھارت‘ چین‘ افغانستان اسکے رکن ہیں اور
پاکستان میں اس کانفرنس کا پانچواں اجلاس منعقد ہوا ہے جس میں افغان صدر اشرف غنی
کے علاوہ بھارت سمیت دس ممالک کے وزراءخارجہ اور 27 ممالک اور 12 عالمی تنظیموں کے
نمائندے شریک ہوئے۔ اس کانفرنس کا چھٹا اجلاس آئندہ سال بھارت میں منعقد ہو گا جس
کیلئے بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج نے اسلام آباد کانفرنس کے مندوبین کو پیغام دیا
کہ 2016ءمیں ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس کیلئے آپ سب کا بھارت میں خیرمقدم کیا جائیگا۔
اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس عین اس موقع پر ہوئی جب پاکستان اور بھارت ہی
نہیں‘ پاکستان اور افغانستان کے مابین بھی سرحدی کشیدگی اور سفارتی سطح پر تلخیاں
انتہاءکو پہنچی ہوئی تھیں جبکہ مودی سرکار کی سرپرستی میں بھارت میں انتہاءکو پہنچی
ہندو جنونیت سے علاقائی اور عالمی امن کو بھی سخت خطرہ لاحق تھا جس کا عالمی فورموں
پر نوٹس لیتے ہوئے بھارت پر ہندو انتہاءپسندی کو ترک کرنے کیلئے دباﺅ ڈالنے کی حکمت
عملی کا سوچا جارہا تھا اور اس کیلئے پاکستان سفارتی سطح پر متحرک ہو کر عالمی
تنظیموں اور قیادتوں کو بھارتی اشتعال انگیزیوں اور اسکی سرپرستی میں پاکستان میں
ہونیوالے دہشت گردی کے واقعات سے آگاہ کررہا تھا جبکہ مودی سرکار کی جانب سے نئی
دہلی میں دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کے طے شدہ مذاکرات سبوتاژ کرنے کے
بعد پاکستان سے مذاکرات کے دروازے عملاً بند کئے جاچکے تھے اور ساتھ ہی کشمیر کو
مستقل طور پر ہڑپ کرنے کیلئے بھارتی جلد بازی کا عندیہ بھی مل رہا تھا۔ تلخی کی اسی
فضا میں پاکستان بھارت خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات بھی مو¿خر ہوئے اور پھر بھارت
میں ہندو جنونیت کی انتہاءکرتے ہوئے پاکستانی دانشوروں‘ فنکاروں‘ کھلاڑیوں اور
سرکاری حکام سے بدسلوکی‘ انکی تضحیک اور تشدد کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا جس
کیخلاف آواز اٹھانے والے بھارتی دانشوروں‘ فنکاروں اور دوسرے مکاتب زندگی کے لو گوں
کا بھی جینا دوبھر کردیا گیا جبکہ پاکستان سے کشیدگی بڑھانے میں خود مودی سرکار نے
نمایاں کردار ادا کیا جس نے ہندو انتہاءپسند تنظیموں آرایس ایس اور شیوسینا کو شہ
دی اور تشدد اور قتل و غارت گری کے واقعات میں ملوث ان تنظیموں کے غنڈوں کیخلاف کسی
قسم کی کارروائی نہ کی۔ اس فضا میں مسلمانوں سمیت بھارت کی تمام اقلیتوں کیلئے عدم
تحفظ کی فضا پیدا ہوئی تو اقوام عالم کو بھی اس صورتحال پر تشویش لاحق ہوئی جس کا
اظہار امریکی صدر اوباما پہلے ہی اپنے دورہ¿ بھارت سے واپسی پر کرچکے تھے جبکہ
یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس اور پھر لندن میں منعقدہ دولت مشترکہ کے اجلاس
میں بھی بھارت کی پیدا کردہ ہندو انتہاءپسندی کا نوٹس لیا گیا جس سے بھارت پر عالمی
دباﺅ بڑھتا نظر آیا تو پاکستان کے ساتھ دشمنی کی انتہاءکو پہنچے ہوئے حالات پر
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پیرس میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے موقع پر یکایک
پلٹا کھایا اور اس کانفرنس کے دوران انہوں نے وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کے
پاس جا کر ان سے غیررسمی ملاقات ہی نہیں‘ پاکستان بھارت کے متنازعہ ایشوز پر تبادلہ
خیال بھی کرلیا۔ نواز‘ مودی اس اچانک ملاقات سے دنیا کو پاکستان اور بھارت کے مابین
برف پگھلنے کا عندیہ ملا۔ ملاقات کے بعد میاں نوازشریف نے پراسرار لہجے میں کہا کہ
انکے اور مودی کے مابین کیا بات ہوئی‘ یہ ایک امانت ہے اس لئے وہ بتانے سے قاصر ہیں‘
تاہم اس ملاقات کے چند ہی روز بعد بنکاک میں پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے
مشیروں میں بھی باضابطہ ملاقات ہو گئی جسے نواز‘ مودی ملاقات سے منسوب کرکے پاکستان
اور بھارت کے مابین خیرسگالی کے تعلقات کی بحالی میں اہم پیشرفت قرار دیا گیا اور
پھر اس ملاقات کے اگلے ہی روز بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج کے ہارٹ آف
ایشیاءکانفرنس میں شمولیت کے سلسلہ میں اسلام آباد آنے کی بھی تصدیق ہو گئی۔ چنانچہ
ان دو ہفتوں کے دوران پاکستان اور بھارت میں تعلقات کی بحالی کے حوالے سے جو
خوشگوار فضا قائم ہوئی اس میں عالمی دباﺅ ٹالنے کی کوئی بھارتی سازش ہی کارفرما نظر
آتی ہے اور ملک کے بعض سیاسی‘ سفارتی‘ دفاعی اور دوسرے محب وطن حلقوں کی جانب سے
اسی بنیاد پر بھارتی نیت پر شک و شبہ کا اظہار کیا جارہا ہے کیونکہ چند ماہ قبل تک
تو بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج اور دوسرے بھارتی حکام پاکستان کو یہ باور کراتے
نظر آتے تھے کہ اسکے ساتھ اب جس بھی سطح کے مذاکرات ہونگے‘ کشمیر انکے ایجنڈا کا
حصہ نہیں ہوگا۔ اس تناظر میں تو بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دروازے عملاً بند
کرچکا تھا جبکہ پاکستان کی جانب سے بھی بھارت کو دوٹوک الفاظ میں باور کرادیا گیا
تھا کہ بھارت کے ساتھ کسی بھی سطح کے مذاکرات میں کشمیر ہی بنیادی ایشو ہوگا۔
اب اگر بھارت کی جانب سے کشمیر سمیت تمام تنازعات پر مذاکرات کا عندیہ دیا جارہا ہے
تو یہ ماضی جیسی ہی کوئی بھارتی چال ہو سکتی ہے جبکہ اب تک مذاکرات کی ہر میز بھارت
ہی کی جانب سے الٹائی گئی ہے۔ خطے میں قیام امن بلاشبہ پاکستان کی ضرورت ہے کیونکہ
دہشت گردی سے پیدا ہونیوالی بدامنی کا سب سے زیادہ پاکستان نے ہی نقصان اٹھایا ہے۔
اس تناظر میں پاکستان مستحکم اور پرامن افغانستان چاہتا ہے تو اپنے پڑوسی بھارت کے
ساتھ بھی پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت امن و سکون سے رہنا چاہتا ہے مگر اب تک
ان دونوں ممالک کی جانب سے پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی سازشیں ہی سامنے
آتی رہی ہیں جن میں عملاً بھارتی اور افغان حکمرانوں کا گٹھ جوڑ نظر آتا ہے۔ ابھی
گزشتہ ماہ ہی جہاں بھارت کی جانب سے پاکستان کو ہندو انتہاءپسندی کے پیغامات مل رہے
تھے‘ وہیں افغان صدر اشرف غنی نے بھی اپنے تلخ و ترش بیانات کے ذریعے پاکستان
کیخلاف محاذ گرم کر رکھا تھا اور دونوں ممالک دہشتگردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے
میں ذرّہ بھر حجاب محسوس نہیں کرتے تھے۔ افغان صدر نے تو پیرس کانفرنس میں پاکستان
پر افغانستان کیخلاف جنگ شروع کرنے کا الزام بھی دھر دیا جبکہ درحقیقت وہ خود اپنی
سرزمین پر دہشت گردوں کی سرکوبی میں ناکام رہے تھے۔
اس تلخ ماحول میں اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس کا انعقاد ہوا ہے جس میں
افغان صدر اور بھارتی وزیر خارجہ نے بھی شریک ہو کر خطے میں امن کوششوں کو آگے
بڑھانے کیلئے سنجیدگی کا اظہار کیا ہے تو اسے علاقائی استحکام کی جانب اہم پیش رفت
قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس موقع پر جہاں کانفرنس کے اعلامیہ میں طے کیا گیا ہے
کہ خطے کا کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریگا‘ وہیں
افغان صدر اشرف غنی اور بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج کی وزیراعظم نوازشریف‘ مشیر
امور خارجہ سرتاج عزیز اور دوسرے پاکستانی حکام سے الگ الگ ملاقاتوں کا موقع بھی
نکل آیا جن سے یقیناً دوطرفہ اور علاقائی امن و آشتی کے پیرامیٹرز متعین کرنے میں
بھی مدد ملے گی اور سشماسوراج کا میاں نوازشریف اور سرتاج عزیز سے والہانہ مصافحہ
بھی اثرپذیر ہوگا۔ اسکے باوجود ہمیں بھارت کے معاملہ میں انتہائی محتاط رہنا ہے اور
کشمیر اور دہشت گردی کے حوالے سے کسی قسم کی مفاہمت سے بہرصورت گریز کرنا ہوگا۔ |
|