کیا سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں ؟

سندھ حکومت کے نیچے سے زمین کھسکتی دکھائی دے رہی ہے۔ سنجیدہ فکر رکھنے والے پاکستانیوں کو رینجرز کے متعلق حالیہ صورتحال پر افسوس ہورہا ہے۔ صرف دو شریفوں کا ایک پیج پر ہونا کافی نہیں، چاروں صوبے پاکستان کی چھت کے چار ستون ہیں، چاروں ستون ایک جیسی قوت، سوچ اور فکر کے مالک ہونگے تو بات بنتی ہے۔ اصل بات صوبوں اور وفاق کا ایک پیج پر ہونا ہے۔ نواز شریف کی کوشش سے صوبے اور وفاق ایک پیج پر لائے جاسکتے ہیں۔ 488 جانوں کا نذرانہ پیش کرنیوالی فوج کے کندھے سے کندھا ملانے کا وقت ہے۔ اندرونی نااتفاقی سے ہماری بیرونی سیاست کمزور پڑتی ہے۔ افغانستان اور بھارت کیساتھ تعلقات میں کئی دراڑیں ہیں، مودی سے چند منٹوں کی ملاقات سے ہمارے دیرینہ مسائل حل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ ہم تو 67 سال میں 67 بار تو ضرور ڈسے گئے ہونگے۔
ایک بات ڈیڑھ سال سے دہرائی جارہی ہے کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے حالانکہ بات سو فیصد ایسی نہیں، دو سیاسی قوتیں تو واضح طور پر اپنا پیج علیحدہ رکھے ہوئے ہیں۔ ایم کیوایم اور پیپلز پارٹی کے عقائد، نظریات، فکر، سوچ اور منشور حکمران جماعت ن لیگ سے مختلف ہے۔ دونوں جماعتوں کی قیادت غصے سے بھری ہوئی ہے۔ دامن داغ دار ہو تو خودساختہ جلاوطنی کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہتا۔ بے داغ شخصیت ہی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہے۔ آپریشن ضرب عضب نے دہشتگردوں جبکہ آپریشن کراچی نے داغ دار قیادت کا سر چکرا رکھا ہے۔ دونوں فریقین کیلئے آپریشن عذاب عظیم سے کم نہیں۔ کراچی میں رینجرز کا وجود کس کی نیندیں حرام کئے ہوئے ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی حالت کمرئہ امتحان میں بیٹھے اس امیدوار کی ہے جس کے سر پر نگران کھڑا ہے اور اسکے پاس بُوٹی استعمال کرنے کا کوئی موقع نہیں۔ نگران بھی ایسا جابر ہے کہ اگر اسکی مٹھی گرم کرنے کی کوشش کرتا ہے تووہ الٹا اسکے گلے پڑ جائیگااور اس کا پیپر کینسل کردیگا۔ ورنہ سائیں یہ نہ کہتے کہ رینجرز کو دہشتگردی روکنے کیلئے بلایا تھا لیکن وہ کرپشن کے معاملات میں گھس گئی ، اسے اختیارات دینے کی کوئی جلدی نہیں۔ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد سے اب تک سائیں کے تیور بدلے ہوئے ہیں۔ سائیں کو پتہ ہوگا کہ دہشتگردی اور کرپشن جڑواں بہنیں ہیں، دونوں کا ہدف پیسہ ہے۔ سائیں کے بقول کرپشن پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے دور سے شروع ہوئی تھی، اگر یہ بات مان لی جائے تو کیا اسے جاری رہنے دیا جائے۔ وفاق سندھ پر حملہ آور نہیں، وفاق تو دہشتگردوں اور کرپٹ عناصر پر حملہ آور ہے۔ تین چار وفاقی ایجنسیاں سائیں قائم علی شاہ سے نہیں، انکی حکمرانی میں پناہ گزیں کرپٹ مافیا سے برسرپیکار ہیں۔ سندھ میں اینٹی کرپشن کا محکمہ موجود ہے جس کی کارکردگی صفر ہے، کبھی کبھار کسی اے ایس آئی یا کلرک کو پکڑ کر چھوڑ دینا کوئی کارکردگی ہے۔ سائیں کی حکومتی مشینری زنگ آلود نہ ہوتی تو ایف آئی اے اور نیب کو چھاپوں کی کیا ضرورت تھی۔ سائیں کیوں نہیں سمجھتے کہ ہر باپ کو اپنی اولاد پر نظر رکھنا ہوتی ہے ورنہ اسکی بے راہ روی حد سے بڑھ جاتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم کو بچانے کیلئے کراچی آپریشن کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وفاق کے پاس کرپشن کی ویڈیو موجود ہیں جو وزیر داخلہ چوہدری نثار بوقت ضرورت چلا دینگے۔ سائیں اپنے آقا کی وفاداری میں حد سے آگے نہ جائیں، حکومت کے پاس ہر مسئلے کے حل کے آپشنز موجود ہوتے ہیں۔ پہلے پانی کی گولیوں سے مجمع در فع کیا جاتا ہے ، بات نہ بنے تو پھر آنسو گیس استعمال کی جاتی ہے، کرفیو اور گولی کا استعمال آخری آپشن ہوتا ہے۔ لفظوں کی جنگ ایک دوسرے کو ننگا کرتی ہے، بڑھکیں گلی محلوں میں لڑکے لگاتے ہیں نہ ہی بڑھکیں کسی کا کچھ بگاڑتی ہیں۔ دورحاضر کا لندن میں خودساختہ جلاوطن بڑھک باز اب کہاں ہے؟

دوسرا ایک ہی بڑھک مار کر جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اب واپسی کیلئے طیارے میں بیٹھنے کی ہمت ہی نہیں ہورہی۔ 3400 دہشت گرد ہلاک، 21193 گرفتار اور 837 ٹھکانے تباہ کرنیوالوں کے سامنے بڑھکوں کی حیثیت بلی کی میائوں سے بھی کم ہے۔ جو لوگ ایک پیج پر دکھائی دے رہے ہیں، وہ انکی مجبوری ہے۔ زندگی سے اور پھر جلاوطنی سے سبق نہ سیکھنے والوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ بلی شیر کے سامنے کبھی بھی سینہ نہیں تان سکتی۔ موسم کو دیکھ کر کپڑے بدلے جاتے ہیں، سائیں کی باتوں سے یا مولابخش چانڈیو کی جرأت اندازی سے کراچی آپریشن کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔ ایوب، ضیاء اور مشرف کے ادوار پچھلی صدی کی باتیں نہیں۔

افسوس اس بات کا ہے پاکستانی سیاست میں ڈائیلاگ بازی کا مقابلہ ہورہا ہے۔ عمران خان کے ڈائیلاگ کا جواب دینا پرویز رشید یا خواجہ سعد رفیق فرض عین سمجھتے ہیں۔ اسی طرح چوہدری نثار علی کے ڈائیلاگ کے جواب کی ذمہ داری مولابخش چانڈیو کو سونپی گئی ہے۔ ڈائیلاگ بازی کے مقابلے میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور فرحت اللہ بابر کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں۔ خورشید شاہ موجودہ طرز سیاست کو 90ء کی سیاست سے تعبیر کررہے ہیں۔ کہتے ہیں پیپلز پارٹی والوں نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔ فرحت اللہ بابر نے بھی ڈاکٹر عاصم کی ویڈیو لانے کے جواب میں کہہ دیا کہ ہمارے پاس بھی جاندار شواہد ہیں۔ دیکھتے ہیں بات کہاں جاکر ختم ہوتی ہے۔ فی الحال تو سندھ حکومت کے نیچے سے زمین کھسکتی دکھائی دے رہی ہے۔ سنجیدہ فکر رکھنے والے پاکستانیوں کو رینجرز کے متعلق حالیہ صورتحال پر افسوس ہورہا ہے۔ صرف دو شریفوں کا ایک پیج پر ہونا کافی نہیں، چاروں صوبے پاکستان کی چھت کے چار ستون ہیں، چاروں ستون ایک جیسی قوت، سوچ اور فکر کے مالک ہونگے تو بات بنتی ہے۔ اصل بات صوبوں اور وفاق کا ایک پیج پر ہونا ہے۔ نواز شریف کی کوشش سے صوبے اور وفاق ایک پیج پر لائے جاسکتے ہیں۔ 488 جانوں کا نذرانہ پیش کرنیوالی فوج کے کندھے سے کندھا ملانے کا وقت ہے۔ اندرونی نااتفاقی سے ہماری بیرونی سیاست کمزور پڑتی ہے۔ افغانستان اور بھارت کیساتھ تعلقات میں کئی دراڑیں ہیں، مودی سے چند منٹوں کی ملاقات سے ہمارے دیرینہ مسائل حل ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ ہم تو 67 سال میں 67 بار تو ضرور ڈسے گئے ہونگے۔ عام پاکستانی کو کیا پتہ پاکستان اور بھارت کے تصفیہ طلب مسائل کیلئے کمپوزٹ ڈائیلاگ ہوتے رہے ہیں لیکن اب جامع مذاکرات ہونگے۔ کشمیر، سیاچن، سر کریک اور دہشتگردی پر بات ہوگی۔ چھ ماہ بعد ہم دوبارہ اوفا معاہدے کی طرف جارہے ہیں۔ یہ بھی پرانا ڈائیلاگ ہے کہ ہم ہمسایہ ممالک سے دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں لیکن تعلقات دوستانہ ہوتے نہیں۔ دوستی کا مفہوم سمجھنا ہو تو امریکہ کی برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے دوستی کو سامنے رکھا جائے۔ ان ممالک کا ساز اور آواز ایک ہے۔ ایک دوسرے کیلئے جان دینے کو تیار ہیں۔ انکے دوست اور دشمن سانجھے ہیں۔ ہمارے دائیں بائیں ایسی دوستی نہیں کہ ہم بلاجھجھک ایک دوسرے کے گھر جائیں، ہماری خوشیاں ہمارے غم سانجھے ہوں، مذاکرات یا باتیں اس وقت اچھی لگی ہیں جب دل صاف ہوں، نیت صاف ہو، تب ہی مسائل کا حل سامنے آتا ہے۔ فرانس میں دہشتگردی کے ایک واقعے پر بڑی طاقتوں کا خوفناک ردعمل ان کی یکجائی کا ثبوت ہے۔ ہمارے ہاں آرمی پبلک سکول کا سانحہ ایسے کسی ردعمل کو سامنے نہ لاسکا۔ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے شریک ممالک عالمی امور میں ایک پیج پر نہیں۔ چین، بھارت، پاکستان ایک دوسرے کے حریف ہی ہیں۔
Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 336028 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More