سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کی صورت میں اسے جمہوریت کیخلاف سازش سے تعبیر نہ کیا جائے
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
حد تو یہ ہے کہ وفاقی حکومت کا طرزعمل بھی اپریشن کیلئے سنجیدگی کا پیغام دینا نظر نہیں آرہا ۔ بجائے اسکے کہ وفاقی حکومت کراچی اپریشن کو موثر اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے سندھ حکومت کو رینجرز کے اختیارات میں توسیع دینے پر قائل کرتی‘ وفاقی وزیر داخلہ نے یہ اعلان کر دیا کہ سندھ حکومت نے رینجرز کے اختیارات میں توسیع نہ کی تو رینجرز کو کراچی سے واپس بلوالیا جائیگا۔ رینجرز کو واپس بلوانے سے مراد تو سندھ کی حکمران پیپلزپارٹی اور دوسری متعلقہ جماعتوں کو رینجرز اپریشن سے خلاصی دلانا ہے اور ممکن ہے یہ سوچ دوسرے صوبوں میں کراچی جیسے بے لاگ احتساب کے دروازے بند کرنے کی بھی ہو۔
اصولی طور پر تو کرپشن‘ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے مقدمات کو قانونی طریقہ سے انصاف کی عدالتوں کے ذریعے منطقی انجام تک پہنچنے دینا چاہیے‘ چہ جائیکہ اس پر انتقامی کارروائیوں کا واویلا کرکے کرپشن فری معاشرے کی تشکیل کا خواب شرمندہ¿ تعبیر نہ ہونے دیا جائے۔ اگر پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کراچی اپریشن میں رکاوٹیں ڈالنے کے درپے ہے تو اسکی کرپٹ عناصر کو بچانے والی پالیسی کے باعث سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کی صورت میں اسے جمہوریت کیخلاف سازش سے تعبیر نہ کیا جائے۔
|
|
تین ماہ قبل ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری
کراچی میں جاری رینجرز کے ٹارگٹڈ اپریشن کے دوران عمل میں لائی گئی‘ انکے
جسمانی ریمانڈ کے دوران رینجرز کی تفتیش میں لئے گئے انکے بیانات کی روشنی
میں پہلے ان کیخلاف منی لانڈرنگ اور کرپشن کے مقدمات درج کئے گئے اور
بعدازاں ان کیخلاف اپنے نجی ہسپتال میں رینجرز اپریشن کے دوران زخمی
ہونیوالے مبینہ دہشت گردوں کو علاج معالجہ کی سہولت فراہم کرنے کے الزام
میں دہشت گردی کا مقدمہ بھی درج کیا گیا۔ اس مقدمے کی تفتیش کے دوران انہوں
نے مبینہ دہشت گردوں کا علاج کرنے کے اعتراف کیا تاہم انسداد دہشت گردی کی
عدالت میں اپنی گزشتہ پیشی کے دوران انہوں نے رینجرز کی تفتیش کے حوالے سے
انتقامی کارروائیوں کا الزام عائد کیا اور کہا کہ معاملہ کسی اور کے ساتھ
ہے مگر گھسیٹا مجھے جارہا ہے۔ رینجرز اپریشن کے حوالے سے قبل ازیں ایم کیو
ایم متحدہ کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسی نوعیت کے الزامات
لگائے جاتے رہے ہیں اور متحدہ کے قائد الطاف حسین کے ایک ٹیلی فونک خطاب
میں عسکری قیادت اور اداروں کیخلاف تضحیک آمیز لہجہ اختیار کرنے پر انکے
ٹیلی فونک خطاب اور بیانات پر پابندی عائد ہونے کے بعد متحدہ کے قومی‘
صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے ارکان نے احتجاجاً استعفیٰ بھی دے دیا تھا
جنہیں بعدازاں حکمران مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماءاسلام (ف) کے قائدین نے
قومی مفاہمت کے نام پر استعفے واپس لینے پر قائل کیا جس سے کراچی کے رینجرز
اپریشن کے حوالے سے سول قیادتوں کے ایک صفحے پر آنے کا تاثر پیدا ہوا۔ سابق
صدر آصف علی زرداری نے بھی اس اپریشن کے معاملہ میں جارحانہ پالیسی اختیار
کی اور الطاف حسین کی طرح اپنے ایک بیان میں عسکری قیادتوں کے اقدمات پر
برہمی کا اظہار کیا جس کے اگلے ہی روز وہ ملک چھوڑ کر دبئی چلے گئے تاہم وہ
ڈاکٹر عاصم حسین کیخلاف کارروائی کے معاملہ میں خاصے مضطرب نظر آتے ہیں اور
گزشتہ دنوں انہوں نے یہ بیان بھی جاری کیا تھا کہ کراچی میں قیام امن کے
نام پر مذاق بند کیا جائے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے معاشرے میں کرپشن کے ناسور نے بالخصوص
اقتدار کے ایوانوں میں پرورش پائی ہے اور پیپلزپارٹی کے سابقہ دور کی طرح
مسلم لیگ (ن) کے موجودہ اقتدار میں بھی کرپشن کا بھوت ناچتا ہوا نظر آتا ہے
جس کے باعث ایوان اقتدار میں موجود کئی نامی گرامی چہروں کی جانب بھی
انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ اس کرپشن کلچر کے باعث ہی عوام تک جمہوریت کے ثمرات
نہیں پہنچ پاتے اور ان کا سسٹم پر اعتماد کمزور ہوتا ہے۔ بادی النظر میں
حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے معاشرے کو کرپشن سے پاک کرنے کا عزم
اور تقاضا تو کیا جاتا ہے اور اس کیلئے بے لاگ اپریشن اور احتساب کی بات
بھی کی جاتی ہے مگر جب احتساب کے عمل میں یا اپریشن کے دوران اپنے لوگوں کی
گرفت ہونا شروع ہوتی ہے تو احتساب اور اپریشن کا یہی عمل انہیں انتقامی
کارروائی نظر آنے لگتا ہے اور منتخب ایوانوں کے اندر اور باہر چیخ و پکار
کرکے احتساب کا عمل رکوانے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا
سکتا ہے کہ سابق اور موجودہ حکمران طبقات اور سیاست دان کرپشن فری معاشرے
کی تشکیل کیلئے بے لاگ احتساب اور اپریشن میں کتنے مخلص ہیں۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ سیاست بھی بے لاگ احتساب کے نعرے پر کی جاتی ہے اور جب
متعلقہ اداروں کے ذریعے بے لاگ احتساب کا آغاز ہوتا ہے تو اسے جمہوریت
کیخلاف سازش قرار دے دیا جاتا ہے جبکہ سیاست دانوں کی اس روش سے ہی درحقیقت
جمہوریت پر عوام کا اعتماد اٹھتا ہے اور وہ امن و امان کی بحالی کے علاوہ
اپنے مسائل کے حل اور کرپشن کے تدارک کیلئے بھی عسکری قیادتوں کے ساتھ
توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔ اگر حکمران طبقات عوام کو کرپشن کے ناسور سے
نجات دلانے میں مخلص ہوں اور آئین و قانون کی حکمرانی اور میرٹ و انصاف کا
بول بالا چاہتے ہوں تو انہیں اپنے اقتدار و اختیار کو کرپشن کے تدارک اور
میرٹ کے نفاذ کے سلسلہ میں ٹھوس اقدامات اٹھانے کیلئے بروئے کار لانا چاہیے۔
مگر انکے تو اپنے ہاتھ بھی قومی خزانے اور وسائل کی لوٹ مار اور کرپشن کے
گند میں لتھڑے نظر آتے ہیں چنانچہ بے لاگ احتساب انہیں سوٹ ہی نہیں کرتا۔
یہی وجہ ہے کہ اپنے اپنے دور کی کرپشنوں میں وہ ایک دوسرے کو بچانے کیلئے
منتخب فورموں پر بھی ایکا کئے نظر آتے ہیں۔
اس وقت کراچی میں جاری ٹارگٹڈ اپریشن کے حوالے سے بھی سیاست دانوں اور
حکمران طبقات کا ایکا نظر آتا ہے کیونکہ اس اپریشن میں کراچی میں سابق اور
موجودہ حکمرانوں کی کرپشنوں کے معاملات سامنے آرہے ہیں تو اسکی صدائے
بازگشت پنجاب اور دوسرے صوبوں میں بھی سنی جا رہی ہے جس سے تمام حکمران
طبقات کو اپنے اپنے حوالے سے فکر لاحق نظر آتی ہے۔ ایسے ہی تحفظات کی بنیاد
پر کراچی میں متحدہ اور پیپلزپارٹی کی جانب سے رینجرز اپریشن کے حوالے سے
منفی پراپیگنڈا شروع کیا گیا اور پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کی جانب سے
رینجرز کے ساتھ عدم تعاون کی فضا بنائی گئی۔ تین ماہ قبل بھی پیپلزپارٹی کی
قیاد ت اور سندھ حکومت رینجرز کے اختیارات میں توسیع پر بادل نخواستہ آمادہ
ہوئی جبکہ اب سندھ حکومت رینجرز کے اختیارات میں توسیع سے عملاً انکاری نظر
آتی ہے اور اس کیلئے جواز یہ بنایا گیا ہے کہ اختیارات میں توسیع کی سندھ
اسمبلی سے توثیق کرائی جانی ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں تحریک انصاف اور فنگشنل
لیگ کے ارکان سندھ اسمبلی کی ریکوزیشن پر گزشتہ روز سندھ اسمبلی کا اجلاس
طلب تو کرلیا گیا مگر اس میں رینجرز کے اختیارات میں توسیع کیلئے قرارداد
پیش کرنے سے عملاً گریز کیا گیا جو ڈاکٹر عاصم حسین کو مقدمات میں الجھانے
کیخلاف سندھ کی حکمران پیپلزپارٹی کی جانب سے ایک قسم کا ناراضگی کا اظہار
ہے جبکہ سندھ حکومت کے اس اقدام سے درحقیقت کراچی کے گزشتہ اڑھائی سال سے
جاری ٹارگٹڈ اپریشن میں رکاوٹیں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ
وفاقی حکومت کا طرزعمل بھی اپریشن کیلئے سنجیدگی کا پیغام دینا نظر نہیں
آرہا ۔ بجائے اسکے کہ وفاقی حکومت کراچی اپریشن کو موثر اور نتیجہ خیز
بنانے کیلئے سندھ حکومت کو رینجرز کے اختیارات میں توسیع دینے پر قائل کرتی‘
وفاقی وزیر داخلہ نے یہ اعلان کر دیا کہ سندھ حکومت نے رینجرز کے اختیارات
میں توسیع نہ کی تو رینجرز کو کراچی سے واپس بلوالیا جائیگا۔ رینجرز کو
واپس بلوانے سے مراد تو سندھ کی حکمران پیپلزپارٹی اور دوسری متعلقہ
جماعتوں کو رینجرز اپریشن سے خلاصی دلانا ہے اور ممکن ہے یہ سوچ دوسرے
صوبوں میں کراچی جیسے بے لاگ احتساب کے دروازے بند کرنے کی بھی ہو۔
اصولی طور پر تو کرپشن‘ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے مقدمات کو قانونی
طریقہ سے انصاف کی عدالتوں کے ذریعے منطقی انجام تک پہنچنے دینا چاہیے‘ چہ
جائیکہ اس پر انتقامی کارروائیوں کا واویلا کرکے کرپشن فری معاشرے کی تشکیل
کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا جائے۔ اگر پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت
کراچی اپریشن میں رکاوٹیں ڈالنے کے درپے ہے تو اسکی کرپٹ عناصر کو بچانے
والی پالیسی کے باعث سندھ میں گورنر راج کے نفاذ کی صورت میں اسے جمہوریت
کیخلاف سازش سے تعبیر نہ کیا جائے۔ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے پارلیمنٹ کے
اندر اور باہر ایکا کرنیوالے سیاسی قائدین کو یہ حقیقت بہرصورت پیش نظر
رکھنی چاہیے کہ جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچا کر ہی اسے عوام کیلئے قابل
قبول بنایا اور غیرجمہوری عناصر کی سازشوں سے بچایا جا سکتا ہے |
|