شاعر مشرق علامہ اقبال کا کلام اسلامی
عقائد و فلسفہ کے ساتھ امت کی تاریخ تہذیب کا بیش بہا گلدستہ ہے۔ ایک مخلص
مصلح کی حیثیت سے انہوں نے ملت مسائل کا تجزیہ فرمایا۔ زوالِ ملت کے اسبابب
و علل کی نشاندہی کرنے کے بعد قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا حل بھی پیش
کیا اس لئے بجا طور پر ان کوحکیم الامت کہلانے کا حق اور شاعر اسلام ہونے
کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کی شاعری میں جہاں معرفت الٰہی کے پہلو بہ پہلو عشق
نبی ؐ کا دریا موجزن ہے وہیں دیگر مذاہب و نظریات کے حوالے بھی جا بجا نظر
آتے ہیں ۔عصر حاضر کا یہ المیہ بھی ہے کہ آج کل عامیانہ اور سطحی قسم کے
شعراء کی خوب پذیرائی ہوتی ہے مگر گہری اورسنجیدہشاعریکرنے والوں کو یہ شرف
کم ہی حاصل ہوتا ہے ۔ علامہ اقبال کا یہ امتیاز ہے کہ نےنہایت اعلیٰ پائے
کی فکری اور اصلاحی شاعری کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں غیر معمولی
مقبولیت سے نوازہ ۔
علامہ اقبال سے بہت پہلے اردو شاعری غم جاناں کے حصار سے نکل غم دوراں کی
آغوش میں آچکی تھی۔ غالب نے شاعری کو فلسفۂ حیات کے اسرارو رموز کو
کھولنے کا ذریعہ بنایا اور ان کے شاگردِ رشید حالی نے شاعری کے ذریعہ اصلاح
امت کا بیڑہ اٹھایا۔ اس دور میں جہاں حالی نہایت سنجیدگی سے یہ فرض منصبی
ادا کررہےتھے وہیں اکبر الہ بادی نے بڑے ظریفانہ انداز میں ایک نہایت
کامیاب کوشش کی اور اصلاح امت کے مشکل ترین کام کو بہت عام فہم انداز میں
پیش کرنے عظیم کارنامہ انجام دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کے اشعار ضرب
المثل بنے ہوئے ہیں ۔ اس طرح کی استثنائی سعید روحوں کے علاوہ عموی صورتحال
وہی تھی جسے شاعر مشرق نے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ ؎
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
ہائے بے چاروں کے اعصاب پر عورت ہے سوار
علامہ اقبال نے صنف شاعری کی مددسے خواب غفلت کی شکار قوم کو بیدار کرنے کی
ذمہ داری ادا کی۔ ان کے بعد اٹھنے والی ترقی پسند تحریک نے بھی بڑے پیمانے
پر شاعری سے عوامی بیداری کی خدمت لی لیکن اس میں اسلام کے بجائے اشتراکی
نظریات کی ترویج و اشاعت کا بول بالا تھا۔ کسی بھی تحریک کیلئے اس بنیاد
نہایت اہم ہوتی ہے۔ بہترین صلاحیتوں کے حامل افراد پر مشتملترقی پسند تحریک
کے بہت قلیل عرصہ میں خزاں رسیدہ ہوجانے کی وجہ اس کا کمزورمحرک کمزور ہے۔
اس کے برعکساقبال نے مایوسی کا شکار مسلمانوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا
کرنے کی خاطر اسلام کی عظمت کو اجاگر کیا۔اقبال کو چونکہ مغرب میں جاکر اس
کے مشاہدے اور تجربے کی سعادت نصیب ہوئی تھی اس لئے اس کی حقیقت اور بودہ
پن ان پر پوری طرح عیاں ہوچکا تھا ۔ اقبال نے زندگی کے مختلف شعبوں میں
مغربی نظریات کی تباہ کاریوں کو بہت قریب سے دیکھا وہ دونوں جنگ عظیم کے
چشم دید شاہد تھے اس لئے انہوں شعوری طور پرامت کو مغربی تہذیب کی مرعوبیت
سے نکالنےکی سعی و جدوجہد کی ۔ علامہ اقبال نے صدابہار دین اسلام کی بنیاد
پر مسلمانوں میں جو بیداری پیدا فرما دی وہخزاں ناآشنا ہے اسی لئے آج بھی
زندہ و تابندہ ہے۔
یہ نغمہ فصل گل ولالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ اللہ
علامہ اقبال نے قرآن سنت کے علاوہ مغربی نظریات اور ہندوستان کے قدیم
فلسفہ اور شخصیات سے بھی استفادہ کیا ۔ علامہ اقبال نے قدیم و جدید زعماء
کی عظمت کے اعتراف میں بڑی وسیع القلبی کا مظاہرہ فرمایا۔ علامہ کی شاعری
میں جہاں امت مسلمہ کے اکابرین کا ذکر ہے وہیں غیر مسلمین کے حوالے بھی
کثرت سے ملتے ہیں۔ سرزمین ہند کی نامور ہندوشخصیات مثلاً رام چندر ، شری
کرشن ، گوتم بدھ ، گرونانک ، وشو امتر ، سوامی رام تیرتھ وغیرہپر بھی علامہ
کی نظموں کو مقبولت حاصل ہوئی اور گاہے بگاہے ان کے حوالے دئیے جاتے ہیں ۔
ایک مرتبہ پنجاب کے گورنر نے ان سے شمس العلماء کے خطاب کیلئے نام پیش کرنے
کی ا ستدعا کی۔ اس کے جواب میں جذبۂ احسانمندی سے سرشار اقبال نےجب اپنے ا
ستاد سید میر حسن کے نام کی سفارش کی تو گورنر نے کہا ہم نے تو نہ ان کا
نام سنا اورنہ ان کی کوئی تصنیف دیکھی۔ اقبال بولے میں ان کی زندہ تصنیف
ہوں۔ لاہور میں اپنے انگریزی اور فلسفہ کے استاد پروفیسر آرنلڈ کی
انگلستان واپسی نے علامہ کو غمگین کردیا جس کا اظہار نظم نالۂ فراق میں
کےلازوال عقیدت کے پھولوں صورت میں ہوا؎
تو کہاں ہے اے کلیم ذرۂ سینائے علم
تھی تری موجِ نفس بادِ نشاط افزائے علم
اب کہاں وہ شوق رہ پیمائی صحرائے علم
تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم
علامہ کی وسعتِ نظر ی اور کشادہ دلی نے انہیں سرزمین ہند کے عظیم فلسفی اور
شاعر بھرتریہری کا بھی دلدادہ بنا دیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنی
مشہور کتاب بال جبریل کے سر ورق پر بھرتری ہری کے شعرکا ترجمہ لکھا ہے۔ کسی
شعری مجموعے کی ابتداء میں کسی دوسرے فلسفی کے شعر کے موجودگی کا منفرد
اعزاز کم ہی لوگوں کو حاصل ہوا ہوگا ۔ بھرت ریہری پہلی صدی عیسوی قبل مسیح
میں سن کر تزبان کا شاعر تھا ۔ ریاستِ مالوہ کےاس راجہ کا دارالخلافہ اجین
تھا۔ اس ماہر لسانیات نے سنسکرت صرف و نحو کی معرکتہ الآرا کتاب تصنیف کی
جس کا آج بھی حوالہ دیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بھرتری ہری تین شعری مجموعے ہیں جن میں زندگی کے تین اہم شعبہ
جات پر اشعار درج ہیں۔ پہلی کتاب شرنگارشتک میں عشق و محبت کو موضوع بنایا
گیا ہے۔ دوسری کتاب نیتیشتک اس دورکی تصنیف ہے جب وہ مالوہ کی ریاست اجینکا
راجکمارتھا۔ اس میں بھرتری ہری نے اپنے دور کے سیاسی حالات و نظریات کو پیش
کیاہے ۔اس شاعر کی اہم ترین کتاب ویراگیہشتک ہے۔ اپناراجپاٹچھوڑکرسنیاس
لینے کے بعد اس نے ویراگیہشتک لکھی جس میں معرفتِ الہٰی اور فقر وغناء کو
موضوع بحث بنایا گیا ہے ۔علامہاقبال ایک شاعر کی حیثیت سےبھرت ریہری کے بڑے
مداح تھے اوراس کی عظمت کا گنگاتے تھے ۔
بھرتری ہریکی شاعری میں موجود موضوعات کے تنوع اور وسعت کی بنیادی وجہ اس
کی زندگی کے نشیب و فراز ہیں ۔ سنیاس لینے سے قبل اس نےایک کامیاب دنیا دار
زندگی کا تجربہ کیا اور دنیاوی آلائشات میں اس حد تک منہمک ہوا کہ فکری اور
تخلیقی زندگی کے شعبوں سے غافل ہوگیا۔ اس غفلت کیلئےاس کااپنی بیوی رانی
پنگلہ کے ساتھجنون کی حد تک عشق کو موردِ الزام ٹھہرایاجاتا ہے ۔ بھرتری
ہری کے سوتیلے بھائی وکرمادتیہ نے اسپر اعتراض کیا تو رانی پنگلہ نے کمال
رعونت کا مظاہرہ کرتے ہوئےاپنے شوہر کی مددسے اسے ملک بدر کروادیا۔
بھرتری ہری کے بابت ایک نہایت دلچسپ واقعہ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔ کہا
جاتا ہے کہ کسی سادھو سنت نےبھرتری ہری سے خوش ہو کر اس کی خدمت میں ایک
پھل پیش کیا اور یہ وردان بھی دیا کہ اسے کھانے سے عمر میں اضافہ ہوگا ۔
بھرتری ہری چونکہ اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا اس لئے اس نے اپنی ذات پر
اسے ترجیح دی ۔ بھرتری ہری نے وہ پھل اپنی چہیتی بیوی کو دے کر کہا کہ
نہانے کے بعد اسے کھائے۔ پنگلہ ایک سائیس کے عشق میں گرفتار تھی اس لئے اس
نے پھل اس کو دے دیا۔ سائیس ایک طوائف کا عاشق تھا اس لئے وہ پھل تحفہ کی
صورت میں طوائف تک پہنچ گیا۔ طوائف نے بادشاہ کو خوش کرنے کیلئے وہ پھل
بھرتری ہری کی نذر کر دیا ۔ اس نے پھل تو کھا لیا مگر اس کو پتہ چل گیا کہ
رانی پنگلہ بے وفا ہے۔ اس واقعہ سے دل برداشتہ ہوکربھرتری ہری نےنہ صرف
اپنی بیوی سے کنارہ کشی اختیار کی بلکہ راج پاٹ چھوڑ کرسنیاسی بن گیا ۔رانی
پنگلہ کاکردار حقیقت ہے یا علامت یہ تو تحقیق کا موضوع ہے لیکن اس میں شک
نہیں کہ کل یگنے سفاک وبے وفا رانی پنگلہ کو جمہوی لباس پہنا کرنیلم پری
بنا دیا ہے جو علامہ اقبال کے اس شعر میں اپنے درشن کراتی ہے؎
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتاہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری
عصرِ حاضر میں اس نیلم پری نے اپنا دامِ فریب کچھ اس طرح سے پھیلا رکھا ہے
کہ جمہوری دستور نے اقتدار کا پھل(حق) بظاہر عوام کے قدموں میں ڈال دیا ۔
عوام نے فی زمانہ بی جے پی پر فریفتہ ہوکر اس پھل سے اسےنواز دیا۔ بی جے پی
کا معشوق نریندر مودی تھا اس لئے وہ مودی جی کو تھما دیا گیا۔ مودی جی
سرمایہ داروں کے عاشق ہیں اس لئے انہوں نے اڈانی اور امبانی کو اس پھل سے
مالامال کر دیا۔ سرمایہ داروں کے دل میں اگر عوام کی محبت ہوتی توا وروہ
پھل انہیں لوٹا دیتے تو دائرہ مکمل ہوجاتا لیکن کل یگ میں یہ کیونکر ممکن
تھا اس لئے حریص سرمایہ داروں اسے اپنی تجوری میں بند کردیااور ملک کے عوام
کی اکثریت نانِ جویں کے محتاج ہوگئی۔
جمہوریت کایہ طلسماتی پھل دستور کے طفیل انتخاب کے موسم میں گاوں گاوں شہر
شہر ہر شاخ پر اپنے آپ لگ جاتا ہے۔ عوام اس کے سحر زدہ میں گرفتار ہو کر
اپنے سارے دکھ درد بھلا دیتے ہیں اور سیاسی رہنماوں کی تقاریر کی بدولت نت
نئے خواب سجانے لگتے ہیں۔ پچھلی بارتو قومی سطح پرعوام نےاس پھل سےبی جے پی
کو نواز دیا تھالیکن چونکہ انہیں اپنی غلطی کا روز افزوں احساس ہورہا ہے اس
لئےممکن ہے وہ آئندہ اس پھل کو کانگریس کے ہاتھ میں دے دیں ۔ پھر وہی
سلسلہ چل پڑے گا ۔ کانگریس اسےراہل کی جھولی میں ڈال دے گی اور پھرگھوم کر
وہ سرمایہ دار کی تجوری میں چلاجائیگا ۔ بیکس و لاچار عوام پھر نئے انتخابی
موسم کا انتظار کریں گے اور کانگریس کو سبق سکھانے کیلئے ممکن ہے تیسرے
محاذ کووہ پھل تھمادیں لیکن بالآخر لالو نتیش یا ملائم بھی اسے سرمایہ
داروں کے ہاتھ فروخت کرنے سے نہںے چوکیں گے ۔ عوام کوتو اس نظام میں صبر کے
میٹھے پھل پر ہی اکتفاء کرنا ہوگا۔وہ اسے کبھی نہ چکھ پائیں گے ۔
عوام کی یادداشت چونکہ بہت قلیل المدت ہوتی ہے اس لئے قوی امکان ہے کہ اگلے
زمانوں کے لوگ بی جے پی کی دھوکہ دھڑی کو بھول چکے ہوں ۔انہیں کمل پھر سے
خوشنما لگنے لگے وہ پھر ایک بار اس کے دامِ فریب میں گرفتار ہو جائیں ۔
متبادل کے طور راضی خوشی نہ سہی تو بادلِ ناخواستہ عالمِ بیزاری میں اقتدار
کے پھل کو اس وقت کے مودی کے چرنوں میں ڈال دیں اور وہ سرمایہ داروں کے
آگے سر بسجور ہوجائے ۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں اس کے علاوہ اور ہو بھی
کیا سکتا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری و ساری رہے گا جب تک کہ لوگ مغرب کے
پروردہ اس لادینی جمہوری نظام کو اپنے لئے باعثِ رحمت سمجھتے رہیں گےاور اس
کی بیخ کنی کرنے کے بجائے اس کی آبیاری میں جٹے رہیں گے ۔ بھرتری ہری کی
طرح موجودہ سیاستدانوں میں سے نہ کوئی سنیاس لے گا اور نہ راشٹرکا کلیان
ہوگا۔ علامہ اقبال نے ابلیس کی مجلس شوریٰ میں مغرب کے اس جمہوری نظام کی
جو عکاسی کیتھی آج ہندوستان کا بچہ بچہ بسرو چشم اس کا نظارہ کر رہا ہے؎
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کاجمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سےتاریک تر!
اس جدید نظام استبداد کی بدولت بھر تری ہری کی سرزمین ہند پر فی الحال جو
شخص حکمرانی کررہا ہے جو بزعم خود سنیاسی نہ سہی تو کم از کم برہماچاری
ضرور ہے۔ اس نے طلاق کےبغیر ہی رشتہ ازدواج منقطع کر رکھا ہے۔ وہ اپنی
والدہ سے نمائشی ملاقات تو کرتا ہے لیکن ان کو اپنے پاس نہیں بلاتا۔ وہ بڑے
طمطراق کے ساتھ یہ دعویٰ تو کرتا ہے کہ اس کا آگے پیچھے کوئی ایسا نہیں ہے
کہ جس کیلئے وہ بدعنوانی میں ملوث ہو حالانکہ جو شخص سرکاری خرچ پردن میں
پانچ مرتبہ کپڑے بدلےاور ان میں ایک آدھ ۱۰ لاکھ تک کا سوٹ بھی شامل ہوتو
اس کو بدعنوانی کے جال میں پھنسنے کیلئے کسی اور کی کیا حاجت ؟
بھرتری ہری کے بعد سے یہ ملک بے مثال فکری و عملی انحطاط کا شکار ہوا ہے ۔
وہ تو خیرعلامہ اقبال کی ملاقات موجودہ وزیراعظم سے نہیں ہوئی ۔ اگر ایسا
ہوا ہوتا اور اس کے بعد انہوں نے بھرتری ہری والاوہ ضرب المثل شعر کہا ہوتا
تو یقیناً وزیراعظم کے حواری اسے اپنے چہیتے رہنما سے منسوب کردیتے۔ مودی
جی بھی جن کے نام سے ایک شعری مجموعہ شائع ہوچکا ہے اس شعر کو سمجھے بغیر
بخوشی اس بات پر فخر جتاتے ہوئے کہتے کہ پہلی بار کسی عظیم شاعر نے کسی
وزیر اعظم پر شعر کہا ہےلیکن چونکہ ان پیدائش سے ۱۲ سال قبل علامہ اقبال اس
دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے اس لئے اس حادثے کا امکان نہیں ہے ۔ ابھی تک
اگر آپ نہیں جان سکے وہ کون سا شعر ہے جو ان کی شخصیت کا بھرپور عکاس ہے
تو لیجئے پڑھئے بالِ جبریل کے سرِ ورق پر بھرتری ہری کا معرکتہ الآراء
خیال؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پرکلامِ نرم ونازک بے اثر
کیجریوال کےوزیراعظم کو بزدل اور نفسیاتی مریض کہنے پر آج کل بی جے پی
والے خوب واویلا مچا رہے ہیں اورانہیں اپنی زبان پر لگام دینے کی تلقین
کررہے ہیں ۔ بی جے پی جیسی بدزبان پارٹی کا جس کی ایک سادھوی رامزادے اور
حرام زادے کی اصطلاح ایجاد کرتی ہے۔ جس کا ایک وزیرزیر حراست دلت نوجوان کی
زیر حراست موت کو کتے کے پلے کی موت قرار دیتا ہے ۔ جس کے رہنما علی
الاعلان بیف کھانے والوں کیلئے موت کی سزا تجویز کرتے ہیں اور خود وزیراعظم
گجرات کے فساد کو اپنی گاڑی کے پہیے تلے آنے والے کتے سے تعبیر کرتا ہے ،
دوسروں کی لب کشائی پر تنقید کرنا کچھ عجیب سا لگتا ہے ۔ اروند کیجریوال نے
مذکورہ شعر کی روشنی میں کہا کہ چونکہ وزیراعظم سیاسی میدان میں مجھ پر
قابو نہیں پاسکے اس لئے اوچھی حرکات پر اتر آئے ہیں اور یہ بھی بولے کہ
ملک کا وزیرخزانہ کاذب ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر لاتوں کے بھوت کی پوجا جوتوں
سے ہوتی ہے۔
|