ڈاکٹر حافظ کرناٹکی
’’الرُّبع‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جسے ہم قرآن کے ہر پارے میں تین یاچار
صفحات بعد حاشیہ پرضرور دیکھتے ہیں،جہاں کسی پارے کاایک چوتھائی حصہ مکمل
ہوجاتا ہے۔اور جب اِتنی ہی مقدار کے ۴ حصے پورے ہو جاتے ہیں تو ایک پارہ
مکمل قرار دیا جاتا ہے۔عربی لغت میں لفظ ’’رباعیہ‘‘ ملتا ہے جس کے معنے
ہوتے ہیں ایک چوتھائی یا Quarterکے۔ رُباعی اِسی سے نکلا ہے۔ چونکہ شاعر
یکے بعد دیگرے ۴ مصرعے تخلیق کر تے ہوئے اپنا خیال مکمل کرلیتا ہے، اِس لیے’’
رُبع یا رُباعیہ‘‘ کی مناسبت سے اِس کا نام رُباعی عام ہوگیا ہے۔ورنہ عربی
لغت میں مجر ّد ’’رُباعی‘‘ نہیں ملتا ۔’’رباعیہ‘‘عربی اور فارسی زبانوں سے
ہوتے ہوئے اُردوزبان میں آکر ’’رُباعی‘‘ بن گیا ہے۔ کہیں اِسے دو بیتی،
چہار مصرعی بھی کہا گیا ہے۔اِسے انگریزی زبان میں’’Quatrain‘‘کے نام سے
موسوم کیا جاتا ہے۔مخصوص اوزان کی پاسداری کے ساتھ ۴ مصرعوں میں ایک
دِلنشیں خیال پیش کرنے کی روایت صرف اُردو یا فارسی شاعری کے ساتھ مخصوص
نہیں ہے، نہ قریب کی صدیوں تک محدود ہے ۔ہم میں سے اکثر اِس حقیقت سے نا
واقف ہیں کہ ۴ مخصوص اوزان کے مصرعوں میں اپنے کسی جذباتی خیال کو نظم کرنے
کی روایت،تاریخ میں بہت دور تک جاتی ہے اور تقریباًہر زبان میں یہ روایت
موجود رہی ہے۔قدیم یونانی، رومی و چینی تہذیبوں کی منظومات میں اِس کے آثار
ملتے ہیں۔جیسا کہ’’ انگریزی وِکی پیڈیا‘‘(Wikipedia) میں اِس سلسلے کی بہت
ساری تفصیلات ملاحظہ کی جاسکتی ہیں ، مثلاً، یہ اقتباس ملاحظہ
ہوجوQuatrainکے زیر عنوان ملتا ہے:
"A quatrain is a type of stanza, or a complete poem, consisting of four
lines. Existing in various forms, the quatrain appears in poems from the
poetic traditions of various ancient civilizations including Ancient
Greece, Ancient Rome, and China; and, continues into the 21st century,
where it is seen in works published in many languages"ــ
(ترجمہ: رباعی ایک قسم کا بند یاچار مصرعوں پر مشتمل ایک مکمل نظم ہوتی
ہے۔مختلف شکلوں میں اپنی موجودگی کے ساتھ،رباعی، یونانی سمیت مختلف قدیم
رومی و چینی تہذیبوں کی منظومات میں ظاہر ہوتی رہی ہے،اور۲۱ ویں صدی تک کی
مختلف زبانوں کی طبع شدہ تحقیقات میں اپنے وجود کو جاری رکھتی نظر آتی ہے)۔
تھامس گرےThomas Gray کے بارے میں بھی یہ تذکرہ ملتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے
مرثیے("Elegy Written in a Country Churchyard") میں ،جسے انہوں نے ۱۷۵۰ء
میں پایہ تکمیل کو پہنچایاتھا،رباعی کے مخصوص اوزان(Rhyming ABAB or
AABB)ہی استعمال کیے تھے ،جسے Iambic Pentameterکہا جاتا ہے ۔ اِس مرثیے
میں شامل اُن کی ایک انگریزی رباعی ملاحظہ ہو:
The curfew tolls the knell of parting day,
The lowing herd wind slowly o'er the lea,
The plowman homeward plods his weary way,
And leaves the world to darkness and to me.
(اس انگریزی رباعی میں شاعر نے اپنے ایک ہمعصر شاعرRichard Westکی موت
پر(1742 AD) کمالِ فن کاری اور نہایت دِل سوزی کے ساتھ اپنے احساسات کا
اِظہار کیا ہے)۔
’’ قطعہ‘‘ بھی اگرچہ ۴ مصرعوں پر ہی مشتمل ہوتا ہے، لیکن رُباعی کا اِمتیاز،
اور بطورِ صنفِ سخن الگ سے اِس کا وجود، اِس وجہ سے ہے کہ رُباعی کچھ خاص
اوزان(ـ’’ اوزان شجرہ اخرب‘‘ اور’’اوزان شجرہ اخرم‘‘) کی پابند ہوتی ہے، جس
سے شعرائے رُباعی خوب واقف ہوتے ہیں، اور جن کی تعداد ۲۴ بتائی جاتی ہے۔
رُباعی کے ابتدائی دو مصرعوں میں شاعر تاثر کی ایک فضا ء بناتا ہے، تیسرے
مصرعے میں تجسس کی ایک لہر پیدا کرتا ہے،اورقاری میں اپنے چوتھے مصرعے کو
سننے کی بے تابی بڑھا دیتا ہے،کیونکہ رباعی کے چوتھے مصرعے میں ہی وہ اپنے
خیال کو اثر آفرینی کی بلندی پر لے جانے کی کوشش کرتا ہے اور اگر اِس کوشش
میں وہ کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ اپنے حقیقی شاعرِ رباعی ہونے کا ثبوت پیش
کرتا ہے۔
اِس مختصر سی تمہید کی روشنی میں،رباعی کے فن اوراس کے فکری پہلوؤں کے
حوالے سے جب ہم شاعرِادبِ اطفال کے نام سے مشہور ریاستِ کرناٹک کے ڈاکٹر
حافظ کرناٹکی کی رباعیات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ دیکھ کر بے اِنتہا خوشی
ہوتی ہے کہ رُباعی کے میدان میں موصوف نے رباعی کی عظیم روایت کو برقرار
رکھنے، اِسے پروان چڑھانے اور جدید رباعی کے معروضی تجربے کی مثالیں قائم
کرنے میں اِنتہائی کامیاب ہیں اور اُن کی محنتیں رنگ لا رہی ہیں اور
اطمینان ہوتا ہے کہ،فنِ رباعی کے سلسلے میں انجام پذیر اُن کی جانفشاں
کاوشیں شعرو سخن کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام بنانے کی اُمیدیں بھی جگا
رہی ہیں۔فی زمانہ ہندوستان میں شایدہی کوئی ایسا شاعر ہوگا، جو رباعی کے فن
کو فروغ دینے میں ایسی بے مثال تند ہی کا مظاہرہ کیا ہو اور کر رہاہو۔
رباعی کی تخلیق کی جانب آج کل خال خال شعراء ہی متوجہ نظر آتے ہیں۔اِن کی
تعداد آٹے میں نمک کے برابربھی نہیں ہے۔اِس لحاظ سے موصوف رباعی کے میدان
میں گو کہ بالکل اکیلے نظر آتے ہیں، لیکن قابلِ رشک مقام حاصل کرچکے ہیں
اور انہوں نے واقعتا ایک تاریخ مرتب کر دی ہے،اور جسے آنے والی نسلیں کبھی
فراموش نہیں کر پائیں گی۔ متنوع موضوعات پر ۵۰ سے زائد کتابوں کی اشاعت کے
بعد انہوں نے اب صرف اور صرف’’ صنفِ رباعی‘‘ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنارکھا
ہے۔ اِنسانی زندگی کے روزمرّہ اُمورکا کوئی ایسا موضوع اُن سے چھوٹا نہیں
ہے، جسے اُن کے زرخیز قلم نے چھو انہ ہو۔مختلف موضوعات پر اُن کی یہ
رباعیاں ہم نے پڑھیں اور بار بار پڑھیں۔اِن رباعیات کے مطالعے کے دوران ذہن
میں ایک خیال گزرا۔اور وہ یہ کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اِنسانی فلاح ،زمین
پر امن کے قیام کی آرزو،بھائی چارہ،اِنسانیت نوازی،ہمدردی کے پیغامات سے
لبریز اِن رباعیات کو اُن افراد و اقوام تک بھی پہنچایا جاتا، جو امن و چین
اور رواداری کی فضا کو ترستے رہتے ہیں، چاہے وہ مسلم ہو ں کو غیر مسلم۔اور
اِس کی صرف ایک ہی صورت ہمیں نظر آئی اور وہ یہ کہ اِن کو انگریزی اور ہندی
زبانوں میں Transliterateکیا جائے۔
چنانچہ ،اگر اِسے مبالغے پر محمول نہ کیا جائے تو ہم عرض کریں گے کہ ہم نے
حافظ صاحب کی تین ہزار آٹھ سو رباعیات جو دو جلدوں پر مشتمل رباعیات کی
کتاب میں درج ہیں، کے ایک ایک لفظ کو پڑھا ۔ نہ صرف پڑھا، بلکہ اِن کو
انگریزی اور ہندی میں Transliteration کا اِرادہ بھی کر لیا۔اِنشاء اﷲ جب
مکمل ہو جائیں گی تو شائع ہو کر منظرِ عام پر بھی آسکتی ہیں۔ اِس لحاظ سے
بھی ہم بجا طور پر اِس امر کا استحقاق رکھتے ہیں کہ اِن پر اِظہار ِ خیال
کریں اور موصوف کی رباعیات کے محاسن کا بساط بھر چرچا بھی کریں ۔ چنانچہ یہ
مضمون بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
پوری کتاب کوپڑھنے(لکھنے) کے بعد ہمارا یہ تاثر ہے کہ حضرت حافظ کرناٹکی
اپنے اداروں کے چند طلباء و طالبات ہی کے اب اُستادنہیں رہ گیے ہیں ، بلکہ
آج وہ اپنی انسانیت نواز رباعیات کے ذریعہ اپنے ہر قاری کے اُستاد بن گیے
ہیں۔کسی بھی رباعی میں کوئی پیغام ایسا نہیں ہے، جسے ایک مشفقانہ اُسلوب سے
سنوارا نہ گیا ہو اور جس میں ہر عمر کے اِنسان کو اپیل کرنے کی قوت و
صلاحیت موجود نہ ہو۔ پند و نصائح ہوں کہ عبرت آموزحکایات، تنبیہات ہو ں کہ
بشارت افروز بیانات ، ہر عمر کے اِنسان کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور غور و
فکر پر مجبور کرتے ہیں، جیسے کوئی استاد اپنے طلباء کو حق و انصاف،
اِنسانیت و بھائی چارہ کے اسباق پڑھا رہا ہو اور مسلسل اِن کی تربیت میں
مصروف ہو۔ ایک اُستاد کی طرح اِن کی غلط روش پروہ اُنگلی بھی رکھتے ہیں اور
ضرورت پڑنے پر اپنے قاری پر طنزکی ضربیں بھی لگا نے سے نہیں چوکتے۔یعنی
گویا وہ ہمارے معاشرے کے ہر فرد کے اُستاد کا فریضہ نبھاتے نظر آتے ہیں۔
اُن کی رباعیوں کے دو مجموعے انسانیت نواز پیغامات سے بھرے پڑے ہیں۔ اُن کی
کتاب پرتبصرہ کرنا، یا اُن کے فکر و خیال کا ایک مختصر سے مضمون میں احاطہ
کرنا،کسی تبصرہ نگار یا قلم کار کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اِن کی
رباعیات کی تعداد اِس قدر زیادہ ہے کہ اِن کا خلاصہ بھی پیش کرنا ممکن
نہیں۔اُن کی رباعیات پر جو بھی تحریرکیا جائے گا اُس کی حیثیت بجز کچھ
تاثراتی لہروں کے اور کچھ نہیں ہوگی۔کیوں کہ وہ اپنی رباعیات میں کہیں
خالقِ کائنات کی عظمت کے گن گاتے ہیں۔کہیں اپنے قلم کی جولانیوں کے ذریعہ
قارئین کے دلوں میں خوفِ اِلٰہی کو جاں گزیں کرتے نظر آتے ہیں۔کہیں وہ
معاشرے میں برپا بے راہ رویوں پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور اِصلاح کی دِل
آویز تجاویز پیش فرماتے ہیں۔ اور کہیں وہ عصر حاضر کی خدا بیزار تہذیبوں کے
پیدا کردہ گھناونے نتائج کا ماتم کرتے ہیں۔ ایک ایک رباعی کوئی نہ کوئی
انسانیت نواز پیغام لیے ہوئے ملے گی۔ اُنہوں نے صاف طور پر عرض کیا ہے
کہ:’’ ـمحض رباعیوں کی تعداد بڑھانے اور کتابوں کاشمار کرانے کے لیے (رباعی
کی)کتابیں شائع نہ کرائی جائیں۔‘‘
ہم نے اوپر جن بحورِ رباعی کا حوالہ دیا ہے، اِن میں سے ہر بحر پر آپ نے
پانچ پانچ رباعیات تخلیق کرکے نہ صرف قاری شعرا ء کی رہنمائی کی ہے ، بلکہ
انہیں رباعی کہنے پر اُکسایا بھی ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی ثابت کیا ہے کہ
رباعی کی ہر بحر پر وہ رباعی کہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یعنی رباعی سے متعلق
ہر امر پر اُن کی نگاہ ہے اور مکمل پختگی کے ساتھ وہ رباعیات کے نیے نیے
ابعاد سر کرتے چلے جار ہے ہیں۔صوفیانہ امور، پند و نصائح، اﷲ کی تعریف،
بزرگوں کی سیرتوں کے حوالے، فلسفیانہ نکات ،زندگی، موت، اُخروی زندگی،غرض
کے رباعی کے دامن کو اس نوع کے فکری جواہرات سے موصوف نے خوب سجایا ہے۔
ہمیں خاص طور سے اِس بات کی خوشی ہے کو ہماری ریاست (کرناٹک) سے رباعی کا
ایک ایسا شاعر اُبھررہا ہے ، جو اِنشاء اﷲ، اپنے آپ کو رودکی، بابا طاہر
عریاں، سرمد شہید، ابوسعید ابوالخیر، فرید الدین عطار، حافظ شیرازی اور شیخ
سعدی اور عمر خیام کی صف میں پہنچا کر دم لے گا۔ وہ صف جس میں اردو شعراء
میر تقی میر، سودا، میر درد، میر انیس، غالب، ذوق، مومن، حالی، اکبر الہ
آبادی اپنا نام درج کراچکے ہیں۔خاص طور سے علامہ اقبال اوراسد اﷲ غالب نے
بھی اردو اور فارسی میں رباعیاں کہہ کر اِس صف کی شان وشوکت میں اضافہ کیا
ہے ۔ یہ اور بات کہ اِن میں سے بعض شعراء نے رباعی کے ۲۴ اوزان سے ہٹ کر
بھی اپنی ایک الگ راہ لی ہے۔ جوش، فانی، فراق، شمس الرحمن فاروقی اور صبا
اکبر آبادی وغیرہ نے بھی رباعیات کہہ کر اِس صف میں خود کو شامل کر لیا ہے۔
نیز احمد فراز، ناصر کاظمی ، عبدالعزیز خالد، امجد حیدرآبادی کے نام بھی
اِس میں شامل ہیں۔ لیکن امجد حسین حافظ کرناٹکی نے ہر وزن پر رباعیات کہہ
کر رباعی کے فن سے اپنی گہری وابستگی اور بے پناہ وفاداری کا ثبوت پیش کیا
ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ علامہ اِقبال کے بعد رباعی عرصے تک تعطل کا شکار
رہی تھی،لیکن شکاری پور(کرناٹک) سے ایک ایسا فنکار اُٹھا جس نے ادب کی
دُنیا میں رباعیات کی ایک آندھی چلا دی ۔ جس کے درمیان گھر کر اُس کے ہمعصر
شعراء سوچ میں پڑ گیے ہیں کہ کیا شاعری صرف ـ’’غزل ‘‘ کا نام ہے؟کیا شاعری
مشاعروں پر چھا جانے کے لیے جذباتی و استحصالی اور احتجاجی کلام تخلیق کرنے
کا نام ہے؟ کیا رباعی کے میدان میں ہمیں بھی طبع آزمائی نہیں کرنی چاہیے؟
عام طور پررباعی کے اوزان کو لے کر عصر حاضر کے شعراء پر ایک ہیبت سی طاری
رہی ہے کہ کہیں وزن کے لحاظ سے کوئی خامی نہ رہ جائے۔ اِن کا احساس ہے کہ
اِس فن پر عبور حاصل کیے بغیر رباعی کہنا خطرے سے خالی نہیں۔لیکن پورے فن
کارانہ رکھ رکھاؤ کے ساتھ جب حافظ کرناٹکی صاحب نے رباعیات کا ایک پہاڑ
کھڑا کر دیا ہے تواب دیگر شعراء کو بھی رباعیات کی تخلیق کے بارے میں ضرور
سوچنا چاہیے۔اورضروری مشق کے ذریعہ اِس فن میں مہارت حاصل کرلینی چاہیے۔ ہو
سکتا ہے غلطیاں سرزد ہوں۔یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ غلطی بڑے سے بڑے شاعر
سے ممکن ہے۔ جیسا کوغالب کے بارے مشہور ہے کہ اہل فن نے اُن کی اِس رباعی
کے ایک مصرعے کو خارج از بحر قرار دیا تھا۔ رباعی یہ تھی:
دْکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالب
دل رک رک کر بند ہو گیا ہے غالب
واﷲ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سوگند ہو گیا ہے غالب
اہلِ فن نے کہا تھا کہ اس کے دوسرے مصرعے میں ایک " رک " کا لفظ زیادہ
ہوگیا ہے اور مصرع وزن سے گر گیا ہے۔چنانچہ بلا خوف و جھجک ہمارے شعراء کو
اِس میدان میں طبع آزمائی ضرور کرنی چاہیے۔ حافظ کرناٹکی نے راہ دکھا دی
ہے، اس لیے کہ اب وہ ایک تحریک کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں اوراُمید کی
جانی چاہیے کہ اِس میں شعر و ادب کے شہ سوارانِ وقت اپنے حصہ کا عطیہ ضرور
پیش کریں گے۔یہ اِس لیے بھی ضروری ہے کہ اِنسانی معاشرے کی فکری و ذہنی
تربیت، سیرت و کردار کی تعمیر، تعلیم و تزکیہ کے عمل کی آج جس قدر ضرورت ہے
، ایسی ضرورت کبھی نہیں رہی۔شعر کے دیگر اصناف کے ذریعہ اِنسانی سوچ اور
کردار پر جو ڈاکے ڈالے جارہے ہیں، ان کے سد باب کے لیے ضروری ہے کہ رباعی
جیسے فن کو بڑھاوا ملے۔کیوں کہ اِس میں مخرب اخلاق خیالات کو پیش کرنا بہت
مشکل ہے۔ چاہے نہ چاہے ایک رباعی گو شاعر لامحالہ ایک انسانیت نواز خیال ہی
نظم کرنے کے دباؤ میں رہتا ہے۔اور یہ دباؤ گویا ایک سعادت ہے جو ازخود شاعر
کے حصے میں آجاتی ہے اور کچھ اچھا ہی کہنے پر اُسے اُکساتی ہے ، جیسا کہ ہم
ڈاکٹر صاحب کے ذخیرۂ رباعیات میں دیکھتے ہیں۔اور جس کی کچھ مثالیں بھی ہم
قارئین تک پہنچانا چاہتے ہیں۔چونکہ موضوعات بے شمار ہیں ، اِس لیے ہر موضوع
کی نمائندگی کرنے والی رباعی پیش کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ تاہم کچھ
وہ رباعیات جو راقم الحروف کو بہت پسندآئی ہیں، اِ س اُمید کے ساتھ پیش
کررہے ہیں کہ قارئین میں ڈاکٹر صاحب کی دیگر رباعیات کو پڑھنے اور سمجھنے
کی چاہ ضرور پیدا ہوگی:
……موضوع: ’’ماں‘‘:
ہر لمحہ مرے سر پہ گھٹا ہوتی ہے……آنچل کی طرح ماں کی دعا ہوتی ہے ……خوش
ہوگی اگر یہ تو خدا خوش ہوگا……ماں روٹھے تو قدرت بھی خفا ہوتی ہے
ماں کیا ہے یہ بِن ماں کے پسر سے پوچھو……جو پیاسی ہے ماں کی وہ نظر سے
پوچھو……محروم کو معلوم ہے ماں کی قیمت……دھن سے نہ کرنسی سے نہ زر سے پوچھو
……موضوع: ’’ماں باپ‘‘:
ماں باپ کا احسان بھُلایا نہ گیا……یہ قرض تھا ایسا جو چُکایا نہ
گیا……پھولوں کی حسیں سیج پہ سوئے لیکن……بانہوں کا وہ آرام تو پایا نہ گیا
……موضوع: ’’توحید اور جنّت‘‘:
کانٹے سے نہ کنجی سے کھُلے گی جنّت ……توحید پرستی سے کھُلے گی جنّت……اس در
پہ سفارش نہیں چلتی کوئی……اللّٰہ کی مرضی سے کھلے گی جنّت
……موضوع’’قرآن؍توحید؍رسالت‘‘:
قرآن حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں ……سامانِ بصیرت کے سوا کچھ بھی نہیں ……مل
جاتے ہیں سیرت کے بھی پہلو اس میں……یہ شرحِ رسالتؐ کے سوا کچھ بھی نہیں
……موضوع: ’’دُعا‘‘:
تاثیر جو لائے وہ دعا ہے کچھ اور ……باطن پہ جو برسے وہ گھٹا ہے کچھ اور
……تقدیر بدل دیتی ہے مومن کی نظر……اﷲ کے بندوں کی ادا ہے کچھ اور
……موضوع: ’’قرض کی لعنت‘‘:
جیسے بھی ہو تم قرض کی لعنت سے بچو ……خود داری کو ڈستی ہوئی ذلّت سے بچو
……شرمندہ کیا کرتی ہے یہ انساں کو ……بھوکے رہو لیکن یہ نحوست سے بچو
……موضوع: ’’آنسو‘‘:
ہیرا ہے نہ موتی نہ گہر ہے آنسو ……دکھ درد کے پیڑوں کا ثمر ہے آنسو ……افلاس
نگر کا یہ مسافر حافظؔ ……صدیوں ہی سے سرگرم سفر ہے آنسو
……موضوع: ’’خوشا مد‘‘:
جو لوگ خوشامد میں یقیں رکھتے ہیں ……وہ پاؤں تلے اپنی زمیں رکھتے ہیں ……یہ
حرص و مفادات کے بندے حافظؔ ……زرداروں کی چوکھٹ پہ جبیں رکھتے ہیں
……موضوع: ’’ صحابہ کی عظمت‘‘ :
عثمانؓ ابوبکرؓ علیؓ ہوں کہ عمرؓ……رکھتے تھے عزیز ان کو حضورِ انورؐ
……تاحشر مثالی ہے رفاقت اِن کی ……ہے عشق کی بنیاد انہیں چاروں پر
……موضوع: ’’درسِ عمل‘‘:
ہر وقت عمل کے لیے تیار رہو…… فعّال بنو خوش دل و خود کار رہو…… اس مضطر و
مصروف ادا کے بدلے…… کنجی کی طرح صاف چمکدار رہو
……موضوع: ’’نفرت کے علمبرداروں کے نام‘‘:
نفرت کا سبق پڑھتے ، پڑھاتے کیوں ہو؟……انسان کو انساں سے لڑاتے کیوں
ہو؟……مذہب میں کہاں بیر کی گنجائش ہے ؟……ترشولوں کی تقسیم کراتے کیوں ہو؟
……موضوع: ’’بدن کی پاکیزگی اور نیک چلنی‘‘:
شفّاف بدن رکھنا بھی اک خوبی ہے ……ہاں پاکیزہ پن رکھنا بھی اک خوبی ہے
……لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس سے بڑھ کر ……اک نیک چلن رکھنا بھی اک خوبی ہے
……موضوع: ’’احسان فراموش کا انجام‘‘:
احسان کو محسن کے بھُلا دیتے ہو……احساس تشکّر کا مٹا دیتے ہو……یہ جرم ہے اس
جرم کی پاؤ گے سزا……کیوں آتشِ دوزخ کو ہوا دیتے ہو
……موضوع: ’’اِسلام کی بخششیں‘‘:
اسلام نے ہر جنس کو عظمت بخشی……مرد اور خواتین کو عزّت بخشی……ہر ایک کے
جذبات کو رکّھا ملحوظ ……دونوں کو برابر کی سعادت بخشی
……موضوع: ’’آزادی کی آرزو‘‘:
آزادی نظر آنے لگی خواب مجھے……اس درجہ کیا قید نے بیتاب مجھے……زنجیروں کی
جھنکار سے زنداں سے پَرے……اے کاش بہادے کوئی سیلاب مجھے
……موضوع: ’’قناعت و سنت‘‘:
انساں کو قناعت کا سبق یاد رہے…… سنّت ہے یہ سنّت کا سبق یاد رہے……حرص
اورہوَس دشمنِ خود داری ہیں……بس اپنی ضرورت کا سبق یاد رہے
……موضوع: ’’قرآن کا مقام‘‘:
دیکھا نہ سنا کوئی صحیفہ ہم نے……قرآن کو سمجھا ہے مسیحا ہم نے……ہر روگ ہُوا
دور اسے پڑھتے ہی……پایا ہے محمدؐ سے یہ نسخہ ہم نے
……موضوع: ’’قلم ایک امانت‘‘:
اک لفظ بھی بے کار نہ لکھا جائے ……انکار کو اقرار نہ لکھا جائے ……اﷲ کی
جانب سے امانت ہے قلم…… اس سے غلط اظہار نہ لکھا جائے
……موضوع: ’’اﷲ کا نام‘‘:
انوار کی برسات ہے اﷲ کا نام……ہر شے کی شروعات ہے اﷲ کا نام……اس نام سے حل
ہوتی ہے ہر اک مشکل……ہاں دافعِ آفات ہے اﷲ کا نام
……موضوع: ’’چور کی سزا اِسلام میں‘‘:
اسلام میں چوری کی ہے سنگین سزا……دو ہاتھ کئے جاتے ہیں پیکر سے جدا……چوری
کی بُری لت ہے ذلالت کا سبب……چوری سے کوئی شخص معزز نہ ہُوا
……موضوع: ’’نبیوں کے فاقے‘‘:
اسلاف کے چولہوں میں پَلے ہیں فاقے……مانگے کے نوالوں سے بھَلے ہیں فاقے
……ہم چیز ہیں کیا اور ہے کیا اپنی بساط……نبیوںؑ کے یہاں برسوں چلے
……موضوع: ’’ اِنسانیت کا بحران‘‘:
انسان ہی خوں پیتے ہیں انسانوں کا ……بدنام مگر نام ہے حیوانوں کا !……جنگل
کی سی حالت ہے ہر اک شہر کی آج……تہذیب تو حصّہ بَنی افسانوں کا
……موضوع: ’’گاؤں کی جستجو‘‘:
اس ملک میں جو گاؤں تھے کیا ہوگئے وہ…… تعمیر کے دھوکے میں فنا ہوگئے وہ
……لُوٹا جو کسانوں کو زمیں داروں نے ……اک قرض کی مانند ادا ہوگئے وہ
……موضوع: ’’واعظ کا کردار‘‘:
منبر پہ اکڑتے ہیں ہمارے واعظ ……ملّت پہ بگڑتے ہیں ہمارے واعظ ……حالات سے
لڑنے کی جب آتی ہے گھڑی ……رہ اپنی پکڑتے ہیں ہمارے واعظ
……موضوع: ’’منزلِ موت کا مسافر‘‘ :
ٹوٹی ہوئی کشتی کا مسافر ہوں میں…… ہاں! موت کی وادی کا مسافر ہوں میں ……جس
راہ پر چل کر کوئی لوٹا نہ کبھی ……اُس راہ وہ بستی کا مسافر ہوں میں
……موضوع: ’’ عاملوں کا شیطانی علاج‘‘:
عامل جو کیا کرتے ہیں روحانی علاج……بے جا نہیں کہنا اُسے شیطانی علاج ……سچ
پوچھو تو اک دھندہ ہے یہ بھی حافظ……پیسوں کی طلب کرتا ہے قربانی علاج
……موضوع: ’’پانی کی نعمت‘‘:
پانی بھی ضرورت پہ نہیں مل پاتا ……دھن رب کا یہ قیمت پہ نہیں مل پاتا ……یہ
دولت و نعمت لُٹی انسان کے ہاتھ…… یہ وقت یا نےّت پہ نہیں مل پاتا
ہم نے یہ چندمثالیں مشتے از خروارے ہی پیش کی ہیں، ورنہ قارئین کو حافظ
کرناٹکی کی ہر رباعی میں کوئی نہ کوئی اِنسانیت نوازپیغام ضرور ملے
گا،جنہیں پڑھنے اور اخذ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اب ڈاکٹر صاحب نے یہ کہہ کر
ہمیں چونکا دیا ہے کہ وہ اب خالص حمد یہ رباعیات کا ایک اور مجموعہ بہت جلد
منظرِ عام پر لانے جارہے ہیں۔ ایک طرف حیرانی ہے تو دوسری طرف ہم بے انتہا
مسرور ہیں کہ ایک عظیم موضوع اپنی رباعیات کے لیے اُنہوں نے منتخب کیا ہے ۔
گو کہ اُن کی موجودہ کتابوں میں حمدیہ رباعیات کی جھلکیاں دیکھنے کو ضرور
ملتی ہیں، لیکن خالص حمد یہ رباعیات کا مجموعہ اُن کی تصنیفی زندگی کا ایک
اہم سنگ میل ثابت ہوگا، دُنیوی فلاح کے لحاظ سے بھی اور اُخروی نجات کے
اعتبار سے بھی۔ اِنشاء اﷲ اِس سے توحید کی دعوت کو عام ہونے کا موقع ملے گا
اور صنم کدوں کے پجاریوں میں برہمی کی لہریں اُٹھنے لگیں گی۔ اِس دورِ شرک
میں ، اِس سے عظیم کام اور کیا ہو سکتا ہے کہ توحید کی دعوت کو عام کیا
جائے۔ میں ڈاکٹر امجد حسین حافظ کرناٹکی صاحب کو اُن کی نئی کتاب پر اپنی
دِلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ حسبِ سابق اُردو عوام جو
ہندوستان کے کونے کونے میں بستے ہیں اور انٹرنیٹ کے حوالے سے اب اِن کا
دائرہ پور ے عالم کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے،اِس کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے
اور اپنے قلوب کو توحید کے نور سے منور کر لیں گے۔انشاء اﷲ۔
دُعا ہے کہ ملّت کا یہ وفا شعار شاعرلمبی عمر کی نعمت سے مالامال ہو جائے
اور تادیر اپنے پیغامِ توحید سے اِنسانیت کو فیض پہنچاتا رہے۔ آمین۔ |