رحمتِ عالم نور مجسم
(M Tahir Tabassum Durrani, Lahore)
از محمد طاہر تبسم درانی |
|
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقا ت
کا شرف بخشا اور انسان کو تمام مخلوقا ت پر فضیلیت بخشی اور انسان کو زمین
پر اپنا خلیفہ یعنی نیب بنا کر بیھجا۔ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پید ا
فرمایا تو فرشتوں نے عرض کی اے پروردگار انسان زمین پر فساد کریں گے ہم
تمہاری عبادت کے لیئے کافی ہیں تو اللہ جلہ شانہُ نے فرمایا جو میں جانتا
ہوں آپ نہیں جانتے ۔رب کائنات نے اس زمین پر کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار
پیغمبر بھیجے جو اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچاتے رہے قرآنِ پاک
سورۃالااحزات آیت نمبر 39 میں اللہ فرماتے ہیں :وہ جو اللہ کا پیٖغام
پہنچاتے اور اس سے ڈرتے اور اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ کرتے اور اللہ بس ہے
حساب لینے والا۔
اس طر ح ہر پیغمبر اعلیٰ اور اوران سے سب کے مراتب ایک دوسرے سے بڑھ کراعلیٰ،
کسی کو اللہ نے اپنا کلیم اللہ کہا تو کسی کو روح اللہ کے درجے پر فائز کیا
کہیں اسماعیل ذبیع اللہ ابراہیم خلیل اللہ تو کہیں آدم فصیح اللہ کے مرتبے
پر فائز فرمایا مگر ایک حستی ایسی ہے جن کو ان تمام کے بعد بھیجا مگر رتبے
میں محمدﷺ کو حبیب اللہ کہہ کر تما م انبیاء پر فضیلت فرما دی۔ قرآنِ پاک
سورۃالااحزات آیت نمبر 40میں اللہ فرماتے ہیں :محمدﷺ تمہارے مردوں میں کسی
کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ
سب کچھ جانتاہے :۔
ڈاکٹر علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا
سب سے اول تھا جس کو بنایا گیا
نورِ رحمت سے جس کو سجایا گیا
ایسے تصویر محبوب کی کھینچ دی
خود خدا کو بنا کے سرور آگیا
زمانہ تھاجب ہر طر ف ظلمت کے کالے بادل چھائے ہوئے تھے جہالت کا دور دورہ
تھا جب جاہل کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا جب لوگ اپنی بیٹوں کو زندہ
درگور کر دیتے تھے جب عورت کو معاشرہ میں صرف حکارت کی نظر سے دیکھا جاتا
تھا ، جب غریب کا مال ہڑپ کر لیا جا تھاغلاموں کو اپنی جاگیر سمجھا جاتا
تھا ایسے حالا ت میں ایک ایسے کامل انسان کی ضرورت تھی جو اس بکھرے ہوے
شیرازے کو سمیٹ لیتا عورتوں کے حقوق کی بات کرتا غلاموں کو آزادی دلاتا ،
ایسے حالات میں اللہ رب العزت نے اس وقت اپنے پیارے محبوب کو اس دنیا میں
بھیجا جب رات کا اندھیرا اپنی تاریکیوں کو لے کر جا رہا تھا اور ایک روشن
صبح کا نور طوع ہو رہا تھا تب میرے ہمار ے آپ سب کے کریم رحیم حلیم سرور دو
جہاں وجہ کائنات حضرت محمدمصطفےٰﷺ اس دنیا فانی میں تشریف آے بقول شاعر
حبیب ٰ اُچی شان والیو ، جے تُسی آے تے بہاراں آیاں۔
12ربیع الااول پیر کے دن یعنی 571Ad ایک ایسا دن جس دن ظلمت کا بادل چھٹ
گئے اور نورِ رحمت کا ظہور ہوا، ایک ایسا بنی ﷺ جس کی ذات کو پورے عالم کے
لیئے رحمت بنا کر بھیجا ، قرآن گواہی دیتا ہے : بے شک ہم نے آپ کو دو
جہانوں کے لیئے رحمت بنا کر بھیجا، ڈاکٹر علامہ اقبال نے کیا خوب کہا:۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادین غریبوں کی بر لانے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والآآپ کی تعریف کرنے کا لئے اگر زمانے بھر کے
درختوں کی قلمیں بنا دی جایں اور پور ے سمندر کے پانی کی سیاہی بنا دی جائے
اور پرند چرند انسان حیوان نباتات سب آپ کی تعریف لکھنے بیٹھ جایں تو آپ کی
حیا تِ طیبہ کا ایک پہلو بھی نہیں لکھا جا سکتا ، کیونکہ آپ کے ذات بے مثل
بے مثال ہے ، لوگ بچپن سے ہی آپ کو صادق اور امین کے نام سے جانتے تھے آپ
بے حد خوبصورت شخصیت کے مالک تھے جب آپ کے چہرہ مبارک پر پسینہ نمودار ہوتا
تو یوں لگتاگویا کوئی موتی چہرہ انورپر پڑا ہو، آپ ﷺ کو میرے اللہ نے کبھی
یٰسن کبھی طحہٰ کبھی ولیل کے نام سے پکارا ،کسی نے امی حضرت عائشہ صدیقہؓ
سے عرض کی کہ حضور کا اخلا ق کیا ہے تو اماں جان فرماتی ہیں سارا قرآن آپ
کا اخلاق ہے ، سورہ العمران آیت نمبر31 میں اللہ فرماتے ہیں ،اے محبوب تم
ان سے فرما دو ان لوگوں سے اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہوتو میرے
فرمانبردارہو جاؤ، اللہ تمہیں دوست رکھے گااور تمہارے گناہ معاف کر دے گا
بے شک وہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔
اس آیت کریمہ کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو حضور ﷺ کی غلامی میں ہی کامیا
بی کا راز پنہاں ہے ۔ بقو ل ڈاکٹر علامہ اقبال
محمد کی غلامی دینِ حق کی شرطِ اول ہے
ہو اگر اس میں خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
اس میں کوئی شک یا گنجائیش کی بات نہیں اگر حضرت محمد ﷺ کی غلامی حقیقی
معنوں میں نصیب ہو جائے تو انسان کامل بن جاتا ہے حضرتِ بلال حبشی فرماتے
ہیں ہم باپ دادا سے غلام چلتے آرہے ہیں ہم نے بہت تکالیف دیکھیں لیکن جب سے
غلامیِ رسول میں آئے تو دنیا کے سردار بن گئے حبشی غلام سے سیدنا بلال حبشی
بن گئے یہ سب فیض غلامی رسول کا ہے حضرت عمرؓ فرماتے ہیں میرے باپ مجھے
بکریاں چرانے کو کہا کرتے تھے اور وہ ریوڑ میں سمبھال نیں پاتا تھا مگر جب
سے حضور کی غلامی نصیب ہوئی عر ب کی سر زمین پر ایک کامیاب حکومت قائم کی
اور انصاف کی ایسی مثال قائم کی جو آ ج تک یاد کی جاتی ہے اور ایک ایسے
معاشرے کی بنیا د رکھی جو آج تک قائم ہے۔
آقاءِ نامدار فخرموجودات رحمتِ عالم ، شافیِ محشر اتنے شفیق اور کریم تھے
ایک بار آپ طائف کے مقام پر پیام حق لوگوں تک پہچانے کے لئے پہنچے ، جب آپ
ﷺ نے اللہ کا پیغام لوگوں کو سنایا تو لوگ آپ کے خلاف ہو گئے لوگوں نے آپ ﷺ
پر پتھر برسا ئے آپ کے پاؤں مبارک لہولہان ہو گئے آپ کی تکلیف شاید اللہ
جلہ شانہٗ کو بھی گوراہ نہ تھی فورا جبریل ؑ تشریف لائے اور عرض کی سرکا ر
اگر آپ فرمایں تو ان کو اس پہاڑ کے درمیاں مسل کر ختم کر دیا جاے مگر سبحان
اللہ میرے آقاﷺ نے فرمایا نہیں میں ان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں اے
اللہ آپ ان پر رحم فرما اور ان کو صراطِ مستقیم نصیب فرما۔ آپ اتنے رحم
کرنے والے کہ آپ نے اپنے صحابہ کرام سے فرمایا کہ جب کفار سے جنگ لڑو تو
خیا ل رکھو اگر کوئی ضعیف تمہارے سامنے آجائے تو اسے معاف کر دینا، سبز
پتوں والے درخت نہ کاٹنا، بچوں اور عورتوں کا خیال
رکھنا، اوراگر کوئی پناہ میں آجائے تو اسے بھی معاف کر دینا، جب فتع مکہ
ہوئی تو بہت سے کفار بھی جنگی قیدی تھے اگرآپ چاہتے تو ان کے ساتھ بھی ویسا
ہی سلوک کر سکتے تھے جیسا وہ مسلمانوں کے ساتھ کیا کرتے تھے مگر میرے انیس
الغریبن رحمت العالمین نے ایسا نہ کیا بلکہ ان سے کہا آپ ہمارے بچوں کو
تعلیم کے زیور سے مزین کریں، آپ ﷺ کا حسن سلوک دیکھ کر بہت سے لوگ مشرف بہ
اسلام ہو گئے ۔۔
بقو ل شاعر۔ اک لفظ نہیں ہے جو تیرے لب پہ نہیں ہے۔یعنی آپ کا ایسا در ہے
جہاں غیریب تو کیا امیر بھی اپنا سر جھکاتے ہیں اور اتنا عطا کرتے ہیں کہ
دوبارہ مانگنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی ، میرے آقا صرف انسانوں کے ہی نہیں
بلکہ جن پرند حیوان سب کے لیئے رحمت ہیں جانور بھی آپ کی عزت اور تعظیم
کرتے تھے ایک مرتبہ ایک کافر کے ہاتھ میں کچھ پتھرکی کنکریاں تھیں آپ کے
پاس حاضر ہو ئے کہ میں تب ایما ن لاؤں گا کہ ااپ بتا دیں میرے ہاتھ میں کیا
ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا میں بتا ؤں یا تمہارے ہاتھ میں جو ہے وہ خود بتاے
کہ میں کون ہوں جب آپ ﷺ اُن سے مخاطب ہوے تو پتھر بولنے لگے ائے اللہ کے
پیارے نبیﷺ آپ نے مجھے یاد فرمایا۔ آپ اللہ کی نبی محمدﷺ ہیں ۔ ایسی شان
والامیرا نبی جس کی گواہی قران دے ، جس کی قسمیں میرے رب نے کھایں ، ایسا
نبی جو آبِ کوثر پلانے والا، ہم پینے والے ، جو جنت میں لے جانے والا ہم
جانے والے ، جب نہ کوئی باپ کسی بیٹے کے کام آے گا جب نفسا نفسی کا آلم
ہوگا ہر طرف گرمی ہوگی لوگ ایک ایک نیکی کو ترس رہے ہونگے آہ و پکار ہوگی ،
محشر کا میدان ہوگا تب ایک آواز بلند ہو گی یا ربِ امتی یا رب امتی اور رب
اپنے محبوب کو مخاطب ہو گا اے میرے نبی ہم نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا ، ہم
تم کو اتنا عطا فرمایں گے کہ تو راضی ہو جائے گا آج تیرے مانگنے کا وقت ہے
مانگ جو مانگنا ہے ، تب میرے شفیق آقاﷺ اپنے رب سے عرض کریں گے میری امت کو
بخش دےمیرے نبی ﷺ کا ذکر خود ربِ کائنا ت نے بلند فرمایا اور قرآن مجید میں
ارشار ہوا: بے شک ہم نے آپ کے ذکر کو بلند فرمادیا۔
امت کے ساتھ محبت اور پیار اس قد ر تھا کہ جب آپ ﷺ کا وصال مبار ک کا وقت
آیا تو آپ نے جبریل ؑ سے فرمایا میرے اللہ سے پوچھو میرے بعد میر ی امت کا
کون رکھوالا ہوگا تو اللہ جلہ شانہٗ نے فرمایامیں اللہ خود حفاظت فرماوں گا
، آخری لمحا ت میں بھی آپ کی زبانِ اقد س پر صرف امت کا ہی ذکر تھا، اور
روزِمحشر بھی یا رب امتی ۔اب بطور امتی ہم پر بھی کچھ فرض ہوتا ہے ، ہمیں
سوچنا اور اس پر عمل کی ضرورت ہے کہ آج ہم اپنے پیار ے نبی ﷺ کی کتنی سنتوں
پر عمل پیرا ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں ارشاد فرمایا ، میرے بعد
گمراہ نہ ہوجانا قبروں کو پوجا گاہ نہ بنا لینا، میں تمہارے لیئے دو چیزیں
چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک سنت اور ایک قرآن پاک ۔ان پر عمل پیرا ہوکر ہم اپنی
زندگیوں کو کامیاب بنا سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو میری اطاعت کرنا
چاہتا ہے پہلے میرے نبی کی اطاعت کرے ، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہم اپنے
نبی کے احکامات پر کس قدر عمل پیرا ہیں۔صر ف جھنڈیا ں لگا کر ، جلوس نکال
کر کیا ہم نے وہ اپنا فرض ادا کردیا جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا اور
ہمارے کریم آقا نے جس امت کے لیے رو رو کر دعایں کیں کیا ایسے پیارے بنی کے
لیئے صرف چراغاں کر لینا اور نماز نہ پڑھنا، سنتیں ادا نہ کرنا انصاف
ہے؟۔یقیناًجواب نہیں ہو گا۔
آج ہمارے معاشرے میں بگاڑپیدا ہو گیا ہے ، بے چینی اور سکون سے عاری زندگی
گذار رہے ہیں، آے روز کسی نہ کسی آفت مصیبت میں گھرے ہوئے ہیں، اس کی کیا
وجہ ہو سکتی ہے حالانکہ اغیار پرُسکون زندگی گذار رہے ہیں ، کیوں کہ ہم نے
وہ راستہ چھوڑ دیا جس کا حکم اللہ نے اور اللہ کی نبیﷺ نے ہمیں دیا
تھا۔۔اور اللہ تو کسی کی چھوٹی سی نیکی کو بھی ضائع نہیں فرماتے اگر
غیرمسلم کوئی نیکی کرتا ہے تو اللہ اس کوبھی اس کا اجر فرماتا ہے کیونکہ
غیرمسلم کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اس لیئے اسے اسی دنیا میں عطا کر دیا
جاتا ہے اور اہلِ ایمان کا حساب روز محشر ہونا ہیس لیئے ہمیں آخرت میں دیا
جاے گا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم اپنے رب کے سامنے جایں گے تو کیا
اعمال لے کر جایں گے جس کی وجہ سے جنت کے حقدار ٹھہریں گے وہ یقیناًحضورﷺ
کی غلامی اور اطباع ہے اگر ہم اس سے سر گرداں ہوتے ہیں تو اس دنیا میں بھی
روسوائی ہے اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے ۔ یہ دنیا تو ایسے تیسے کٹ جائے
گی مگر ابدی زندگی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور وہ ایسی زندگی ہے جس نے
ختم بھی نہیں ہونا اللہ ہمیں اپنے آقاﷺ کی سچی اور پکی غلامی نصیب فرمائے
اور روز محشر آپ کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے آمین۔ |
|