بیوی ایک بلا
(Khalid Saif Ullah Asari, )
’’اجی! سنتے ہو ، کل عید ہے۔ آفس سے جلدی آئیے گا۔ شاپنگ کے لیے جاناہے اور ہاں کچھ
پیسے دیتے جائیے۔ پچھلی مرتبہ آپ نے جو تھوڑے سے پیسے دئیے تھے ختم ہوگئے۔ اچھا ہاں
آتے وقت درزی سے میرا سوٹ بھی لے لیجیے گا۔ اوہ اچھے وقت پر یاد آیا آج فون بل جمع
کرنے کی آخری تاریخ ہے اسے بھی جاتے وقت جمع کروادیجیے۔ اس مرتبہ بل زیادہ آگئی ہے
معلوم نہیں کون اتنی دیر دیر تک بات کرتاہے۔ابھی تو آفس کا وقت بھی نہیں ہوا ہے۔
دیکھئیے منا رورہاہے اسے ذرا بہلا دیجیے تب تک میں یہ ناول ختم کرلوں۔‘‘
یہ ہیں آج کل کی بیویاں جو کام پر جاتے وقت شوہر کا اچھا بھلا موڈ بگاڑ دیتی ہیں۔
آپ ہی بتائیے کام ہوگا تو کیسے ہوگا، اسی لیے ہر جگہ پروڈکشن کمی کا شکار ہے۔ اس
میں بیچارے مرد کی کیا غلطی؟ وہ تو ظلم کی چکی میں ہفتوں مہینوں نہیں بلکہ شادی
خانہ بربادی کے بعد تاحیات پستا رہتاہے ۔ کوئی جائے پنا ہ نہیں آخر شوہربیچارہ جائے
تو کہاں جائے۔ کوئی نجات دہندہ بھی نہیں بیوی سے نجات دلائے تو کون دلائے۔ سبھی
شادی شدہ مرد بے چارے حالات کے مارے(بہتیرے بیوی کے مارے) ’’میں نے قبول کیا‘‘کا
مزہ چکھتے رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بیوی کا نام سنتے ہی اچھے اچھے شوہروں کے چہروں
پر بیوگی طاری ہوجاتی ہے۔ در اصل بیوی نام ہی ہے اس بلا کاکہ جس کی وجہ سے کئی
افراد تجرد کی زندگی گزارنے پر مجبور وبے بس نظر آتے ہیں۔ اسی بیویٔ بلا سے گلو
خلاصی کی خاطر ہر سال سینکڑوں ہزاروں افراد خودکشی کا بھی ارتکاب کربیٹھتے ہیں۔
سوچیے !اگر کسی صاحب کو فربہ اندام اور اور موٹی تازی بیوی مل جائے اورساتھ میں تنک
مزاج اور تند خوبھی تو’’ سونے پر سہاگہ ‘‘یا’’ کریلا نیم چڑھا‘‘۔ ہمہ وقت گھر میں
معرکہ آرائی کا بازار گرم رہے گا اور دونوں طرف سے برابر میزائلیں داغی جائیں گی۔
اگر بیوی کی فربہی کے ساتھ ساتھ دو چار عدد نوخیز سالیاں بھی میسر آجائیں تو آپ کا
قصہ ہی پاک یا بیڑا ہی غرق، کیوں کہ وہ امریکہ اور برطانیہ کی طرح متحدہ محاذ بناکر
آپ کا وہ حشر کریں گی کہ آپ کودن میں تارے نظر آئیں گے اور چھٹی کے دن چھٹی کا دودھ
یاد آجائے گا۔ پھر آپ لاکھ جتن کریں اس پھنسے ہوئے دلدل سے نہیں نکل سکتے بلکہ اور
بھی پھنستے چلے جائیں گے الاّ آنکہ فرشتۂ اجل آپ پر نظر کرم فرمائے اور آپ لقمۂ اجل
بن جائیں۔
ایک بیویاتی تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ بیوی کے نتیجے میں بہت ساری چیزیں معرض وجود
میں آتی ہیں۔ بال بچے تو خیر بیوی کا خاصہ ہی ہیں۔ اسی لیے کسی شاعر نے اپنی بیوی
کی کثرت اولادی سے چڑ کر کہا تھا:
سوچا نہیں تھا شادی میں کچھ سود و زیاں کا
بچوں کے لگادوگی تم باغات مسلسل
علاوہ ازیں بیماری ، بے روزگاری ، بے کاری اور بربادی وغیرہ بھی بیوی کی ہی مرہون
منت ہیں۔ ان ساری باتوں کا ظہور خارج سے متعلق ہے۔ اندرون میں بھی اسی بیوی کی
کارفرمائی نظر آتی ہے۔ چنانچہ یہی بیوی اپنے معصوم شوہر کے لیے بے چینی و بے کلی،
بے کسی و بے بسی ، بے قدری و بے عزتی اور اکثرہی بے لطفی اور بد مزگی کا باعث بنتی
ہے۔ ان تمام الفاظ کی باہم دیگرے یک گونہ مماثلت بھی اس فکر کی واقعیت اور صداقت پر
دلالت کرتی ہے۔
ایک دوسرے ماہر بیویات کا کہنا ہے کہ بیوی اور بناؤ سنگا ردونوں لازم و ملزوم ہیں۔
جب بھی آپ اپنے پرسکون گھر میں بیوی لانے کا بد ارادہ کریں گے تو یقینا آپ کو اپنی
بیوی کے لیے اس کے وزن بھرسامان زینت فراہم کرنا ہوگا۔ ان سب کا ایک ہی نتیجہ ہے
اقتصادی بحران اور بے روزگاری۔
جھانسنے اور پھانسنے میں بھی بیوی کا شمار ماہرین میں ہوتاہے، شوہر بیچارے کو ہمیشہ
اپنے دام بیماری میں پھانسے رہتی ہیں اور بجائے خود اس کی خدمت کرنے کے ، اسے ہی
اپنی خدمت پر مجبور کرتی ہیں۔ ایک شاعر بے دھڑک اسے یوں بیان کرتے ہیں:
ساجن کو دیا کرتی ہے یوں بھی جھانسے
بیمار بنے دیکھ کے چھینکے کھانسے
میکے کا ارادہ ہو کہ زیور کی طلب
ایک رات میں سو بار رجھائے پھانسے
اسی وجہ ترقی اور جدت کے اس درخشاں دور میں بھی ہر کوئی اپنی بیوی کی برائی کا رونا
روتا نظر آتاہے ۔ اس تعلق سے بڑا مشہور واقعہ ہے کہ ایک شخص نے اخبار میں اشتہار
دیا مجھے بیوی چاہیے۔ اگلے کچھ ہی دنوں میں اسے دھیڑ سارے خطوط موصول ہوئے جس میں
لکھا تھا میری بیوی مفت میں ضرور لے جائیے۔ اس سے آپ خود ہی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ
لوگ اپنی بیوی سے کس حد تک نالاں اور بے زار ہیں۔ اسی طرح اپنی بیوی سے بے زار صفت
صاحب اپنی بیوی کارونا شعری پیرائے میں یو ں روتے ہیں :
دل بھی گردن بھی ہتھیلی پہ لیے پھرتے ہیں
جانے کب کس کا لہو میری بیوی مانگے
ایک اور ہمارے شادی شدہ دوست ہیں انتہائی مہذب اور مثقف قسم کے غصے میں تہذیب و ادب
کے دامن کو فیوی کول کی طرح پکڑے رہتے ہیں۔ جب کسی پر بر افروختہ ہوتے ہیں تو اسے
یہ بد دعا دیتے ہوئے یہ دعا دیتے ہیں ’’اﷲ تعالیٰ آپ پر خوب موٹی تگڑی بیوی مسلط
فرمادے‘‘۔ایسا وہ اس لیے کہتے ہیں کیونکہ وہ خود بھی ایک موٹی تگڑی بیوی کے زیر
نگیں ہیں اور اس مصیبت یا بلائے عظمیٰ سے جوج رہے ہیں۔
ایک ڈاکٹرشوہر کا واقعہ بھی آپ کے گوش گزار کردوں جو ماہر کیمیا ہونے کی وجہ سے خشک
مزاج واقع ہوئے ہیں ۔در اصل ڈاکٹر صاحب سے ان کی بیوی کی شکایت تھی کہ وہ انہیں
پیار و محبت بھرے خطوط نہیں لکھتے ۔ آخر خدا خدا کرکے ڈاکٹر صاحب کا کفر ٹوٹااور
انہوں نے رفع شکایت کی ٹھان لی ۔ عمر(خاص طور سے وہ عمر جس میں آج عشق و محبت کے
سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں) تو ان کی گزری تھی کتابوں میں اور لیباٹری میں ، کیا جانیں
گل و بلبل ، بادہ و ساغر ، ساقی و میخانہ ، شراب و شباب، پنکھڑی و گلاب،ہجر وملاقات
اور اردو شاعری کے لوازمات۔ لہذاانہوں نے بعد از خرابی بسیار جو محبت نامہ تیار کیا
وہ اس طرح سے تھا:
’’ڈیئر!جب تم مسکراتی ہو تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ٹسٹ ٹیوب آپس میں ٹکرائی
ہو ۔ میرا دل تمہار ا منھ دیکھ کر مرکری کی طرح تڑپنے لگتا ہے۔ اف وہ تمہارا میری
طرف چہرہ فوکس کرکے مسکرانا قسم ہے نیوٹن کی !مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرا دل
فاسفورس کا ایک ٹکڑا ہے جو ۳۵درجے پر جل رہاہے۔ تمہارے بغیر میری زندگی فاسفورس سے
بھی ہلکی ہے۔ مجھے تمہاری محبت نے کاربن ڈائی آکسائڈ کی طرح بے رنگ ،بے بواور بے
ذائقہ بنا دیا ہے۔میں تمہارے جدائی میں گندھک کی طرح زرد ہوگیا ہوں۔ آخر میں کب تک
دھواں دینے والے لیمپ کی طرح جلتا رہوں گا۔ تمہیں کیا معلوم تمہارا قرب کیلشیم سے
زیادہ اثر رکھتاہے۔ تمہاری سائنس میرے لیے آکسیجن سے زیادہ افادیت رکھتی ہے۔ جب میں
نے تمہیں محدب عدسے میں دیکھاتو تم اور زیادہ حسین نظر آئی ۔ کاش کوئی ایسا لٹمس
پیپر ہو جس میں تمہیں میرے دل کا رنگ نظر آسکے ، پلیز تم میرے پیار کو سمجھو ایسا
نہ ہو کہ میرے دل کو زنگ لگ جائے ، تمہاری نفرت کا سلفورک ایسڈ پڑے اور میری زندگی
ہائیڈروجن بن کر اڑ جائے‘‘۔
ہم نے بارہا علما ء کو یہ کہتے ہوئے سنا تھاـبیوی لانے سے گھر جنت الفردوس کا نمونہ
بن جاتاہے۔ مجھے یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوئی لیکن ہضم تو بہر حال کرنی ہی تھی کیونکہ
علماء جھوٹ نہیں بولتے ۔چنانچہ بڑے غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب
ہوا کہ بلا شبہ یہ بات مبنی بر حقیقت ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ عموماً شادی کے بعد جوڑے
عطر جنت الفردوس کا خوب استعمال کرتے ہیں چونکہ اس عطر مجموعہ سے علماء حضرات کو
کچھ زیادہ ہی شغف ہے لہذا وہ اس سلسلے میں جو بھی رائے قائم کریں گے، اس عطر جنت
الفردوس کو مد نظر رکھ کرہی کریں گے ۔ورنہ ایسا قطعی نہیں ہے کہ علماء کا طبقہ اپنی
بیویوں سے مطمئن ہو۔ ایک عالم سے میری شناسائی ہے وہ مجھ سے اکثر وبیشتر اپنی بیوی
کی شکایت کرتے ہوئے کہاکرتے ہیں کہ ان کی بیوی کو ان کے ریش مبارک سے کوفت محسوس
ہوتی ہے اور وہ اسے مسلسل حلق کروانے پر اصرار کررہی ہے۔ ایک دوسرے عالم دین مجھ سے
شکوہ سنج تھے کہ ان کی بیوی ، ان کے ہمراہ کسی سنیما ہال میں فلم بینی کی خواہاں ہے
اور کئی سالوں سے انہیں سنیما ہال کی سیر کروانے کے لیے ورغلا بھی رہی ہے ۔اسی طرح
ایک نوجوان عالم جنہیں سنت نبوی سے حد درجہ عشق تھا۔ شادی ہوئی تو حجام کے پاس گئے
اور کہا داڑھی اور بال اتنے چھوٹے کردو کہ میری بیوی کھینچ نہ سکے ۔ایک اﷲ والے ملا
بھی میرے پاس اپنی بیوی کے سلسلے میں شکایت درج کراتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھائی جان
کیا کروں بالکل ہی سمجھ میں نہیں آتا، سنت نبوی پر عمل کروں کہ بیوی کی بات مانوں ۔
سنت تو کثرت اولاد پر ابھارتی ہے لیکن میری بیوی تو فیملی پلاننگ کی زبر دست حامی
ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ بیوی نام ہے بلا کا ہر شخص کے لیے خواہ وہ کسی بھی طبقے سے تعلق
رکھتاہو ۔یہ ایک ایسی بلا ہے جو ایک مرتبہ نازل ہونے کے بعد کبھی ٹلتی نہیں ہے۔
شوہر کا ایسا لباس بن جاتی ہے جسے تبدیل کرنا گویا دوسری بلا کو دعوت دینا ہے ۔اس
لیے اب بڑی عاجزی کے ساتھ بیویوں کو مخاطب کرتاہوں کہ اے بیویو! (میری نہیں اپنے
اپنے شوہروں کی ) مذکورہ بالا بیویوں کا سارویہ نہ اختیار کرو۔ (مجھے معلوم ہے تم
وہی کروگی جس سے تم کو روکا جائے گا۔)تب ہی تم زوجۂ صالحہ کہی جاؤگی ورنہ تو بلا ہو
ہی تم ۔ ایمان سے! ٭٭٭
|
|