سانحہ سقوط ڈھاکہ و پشاور
(Muhammad Shahid Mehmood, )
سولہ دسمبر سقوط ڈھاکہ اورسولہ دسمبر سانحہ پشاور،کچھ تو کڑیاں ملتی ہیں۔اسی تاریخ
کو پاکستان دو لخت کیا گیا اور اس میں پاکستان کے ازلی دشمن انڈیا کا کردار تھا ۔اب
تینتالیس سال بعد(ایک سال قبل) سولہ دسمبر کو پشاور میں جو ہوا اس کربناک واقعہ پر
نہ صرف پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ ہے ،ہو
بھی کیوں ناں؟آرمی پبلک سکول کے معصوم طلباء پر بیتنے والی واقعہ کو درندگی کہوں یا
حیوانیت،وحشت کی انتہا لکھوں یا ظلم کی انتہا،معصوم بچے جو صبح اپنے گھروں سے تیار
ہو کر سکول گئے ۔ماؤں نے کپڑے پہنائے ،سردی کے شدید ترین موسم میں تیار کیا اور
سکول بھیجا ابھی واپسی کا انتظار تھا کہ دہشت گردوں کے گروہ نے سکول میں پہنچ کر
درندگی کا وہ کھیل کھیلا کہ زمین بھی کانپ اٹھی،پورا پاکستان اشکبار تھا۔ان
خاندانوں پر کیا بیتی ہو گی جن کے گھروں سے معصوموں کے جنازے اٹھے؟انسانیت کے ماتھے
پر بدنما داغ وحشی درندے اپنا روپ بدل کر سکول کی عقبی سائیڈ سے سیڑھی لگا کر داخل
ہوئے اور گولیاں چلانا شروع کر دیں۔جن طلباء نے کلاس رومز کے دروزے لاک کئے ان کے
دروازے توڑ کر دہشت گردوں نے اندھا دھند فائرنگ کی جس سے کئی ماؤں کی گودیں
اجڑیں۔آرمی چیف کے ہسپتال کے دورہ کے موقع پر زخمی بچوں نے آرمی چیف کو جو پیغام
دیا وہ پاکستان کے مسلمانوں کے لئے بھی ایک پیغام ہے کہ ہمیں ضرب عضب کا سپاہی
سمجھیں،وہ طلباء جو آرمی پبلک سکول میں پڑھتے تھے انکے والدین کی خواہش تھی کہ
ہمارے بیٹے بڑے ہو کر افواج پاکستان کے سپاہی بنیں اور وطن عزیز کے لئے ایک محافظ
کا کردار ادا کریں۔ان ماؤں کی بات پوری ہو گئی۔وہ سکو ل میں ہی شہید کر دیئے
گئے۔زخمی بچوں کا دہشت گردی کے خلاف ایک سپاہی سے بھی زیادہ عزم قوم کے لئے ایک
زندہ مثال ہے وہ معصوم جنہوں نے اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھائیں،خود بھی درندوں کی
گولیوں سے زخمی ہوئے انکا پیغام ہمارے لئے مثال ہے۔سانحہ پشاور میں ہونے والی دہشت
گردی کی اندوہناک واردات کی وجہ سے پاکستان کا ہر شہری آج بھی مغموم ہے ۔سانحہ
پشاور کے بعدیہ بات واضح ہو چکی ہے کہ نفاذ شریعت کے نام پر معصوم بچوں کا خون
بہانے والے مجاہدین نہیں بلکہ خارجی ہیں۔یہ بھارت و امریکہ نہیں پاک فوج کے خلاف
لڑتے ہیں۔ حکومت مصلحت پسند ی چھوڑے اور دہشت گردوں کو پھانسیوں کے پھندوں پر لٹکا
کر انہیں نشان عبرت بنایاجائے۔ پشاور دہشت گردی میں را اور سی آئی اے کا نیٹ ورک
ملوث ہے۔ پاکستان پر بہت بڑا حملہ کیا گیا ہے تاکہ مسلمانوں کو خوفزدہ کرکے ان کے
موقف سے ہٹایا جائے۔ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے کفار کی بی ٹیم ہیں۔بیرونی
قوتیں میدانوں میں شکست پر تکفیریوں کو مسلمانوں کا خون بہانے کیلئے شہ دے رہی
ہیں۔آگ وخون کے اس کھیل نے امن وامان تباہ وبرباد کررکھاہے۔ایسے واقعات انسانیت کی
تذلیل ہیں جن کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔سانحہ پشاور سے16دسمبر1971ء کے زخم
پھر سے تازہ ہوگئے ہیں۔ ملک وقوم کواتحاد ویکجہتی کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہ
تھی۔وقت آگیا ہے کہ ملک کودرپیش مسائل اور دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لئے سب
مل کر مقابلہ کریں۔سانحہ پشاور میں بیرونی ہاتھ کو خارج ازامکان قرار نہیں
دیاجاسکتا۔افغانستان کے ساتھ22سوکلومیٹرطویل سرحد پر واقع 2درجن سے زائد بھارتی
قونصل خانے کیاکررہے ہیں؟دنیاجانتی ہے کہ وہاں پاکستان مخالف عسکریت پسندوں
کوباقاعدہ تربیت دی جاتی ہے اور انہیں جدیداسلحہ سے لیس کرکے پاکستان میں تخریب
کاری کے لئے بھیجا جاتا ہے۔سی آئی اے،راء اور موساد نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں امن
قائم ہو۔دہشت گردی کی فضاء سوچی سمجھی سازش کانتیجہ ہے جس کامقصد پاکستان کوعالمی
دنیا سے الگ کرناہے۔دین اسلام تو سلامتی کا دین ہے ۔دین اسلام تو کفار دشمنوں کے
بھی جان ومال کی حفاظت کا درس دیتا ہے نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے
دشمنوں کو معاف کر دینے کی اعلیٰ مثال قائم کی جب مکہ فتح ہوا اور اس وقت کے سب
دہشت گرد سر جھکائے اپنی گردنوں پر تلوار چلنے کے منتظر تھے اگر آپ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم چاہتے تو اس وقت ان لوگوں سے جنہوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر کوڑا
کرکٹ پھینکا تھا، جن لوگوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو طائف کے میدان میں پتھر
مار مار کر لہو لہان کر دیا تھا جنہوں نے آپ کے چچا سید الشہداء امیر حمزہ رضہ اﷲ
تعالیٰ عنہ کی لاش کا مثلہ کیا تھا۔ جنہوں نے بلال حبشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو گرم
ریت پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھے تھے، جنہوں نے حضر ت سمیہ کے دو ٹکڑے کیے
تھے جنہوں نے حضرت خباب کو تپتے انگاروں پر لٹایا تھا۔ جنہوں نے سجدے کی حالت میں
آپ ﷺ پر اونٹ کی اوجھڑی رکھی تھی ان سب دہشت گردوں سے انتقام لے سکتے تھے۔ اس وقت
بڑے بڑے رؤسا، سردار سکتے کے عالم میں تھے معلوم نہیں آج ہمارے ساتھ ساتھ کیا سلوک
ہوگا…؟ ہم نے محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور اس کے ساتھیوں پر جو مظالم کیے آج
ہمارے ساتھ بھی وہی برتاؤ ہو گا مگر نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے عام معافی
کا اعلان کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ دین اسلام کے ماننے والے دہشت گرد نہیں۔ امن
پسند ہیں۔دین اسلام تو امن کے قیام کا سب سے بڑا درس دیتا ہے لیکن پشاور میں جو
سانحہ ہوا اس میں دہشت گرد نعرہ تکبیر لگاتے رہے۔انکی داڑھیاں تھیں۔کم از کم دین
اسلام کو ماننے والا اس طرح کے گھناؤنے واقعے کو انجام نہیں دے سکتا ۔یہ صرف اورصرف
اسلام و پاکستان کو بدنام کرنے کی مذموم سازش ہے۔آرمی پبلک اسکول کے شہداکی پہلی
برسی بدھ 16دسمبر کو منائی جارہی ہے ،وزیراعظم نوازشریف اورآرمی چیف جنرل راحیل
شریف مرکزی تقریب میں شرکت کیلئے پشاورجائینگے اورشہداکی یادگارپرپھولوں کی چادریں
چڑھائیں گے۔مرکزی تقریب میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اوروزیراعلیٰ
خیبرپختونخوا پرویزخٹک بھی شریک ہونگے۔ آرمی پبلک اسکول پشاور کے شہید طلبا اور
اساتذہ کی پہلی برسی قریب آتے ہی قومی فضا پھر سوگوار ہوگئی، شہید بچوں اوراساتذہ
کی قربانیوں کو قوم خراج عقیدت پیش کررہی ہے ، شہدائے پشاور کو پہلی برسی پر خراج
عقیدت پیش کرنے کیلئے ملک بھر میں قرآن خوانی اور دیگر تقریبات سمیت شمعیں روشن کی
جارہی ہیں، 16دسمبر کو مختلف سیاسی، مذہبی جماعتیں، تاجر اور طلبا تنظیمیں اور این
جی اوز تقاریب منعقد کریں گی، مساجد میں ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی سمیت تعلیمی
اداروں میں فاتحہ خوانی کی جائے گی۔ وزیراعظم نواز شریف نے اسلام آباد کے
1122کالجوں اور اسکولوں کو آرمی پبلک اسکول حملے کے شہداء کے ناموں سے منسوب کرنے
کی منظوری دیتے ہوئے کہاہے کہ عدم برداشت پیدا کرنے والے نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے
پڑھیں لکھیں، دشمنوں سے برداشت، روشن خیالی اور تعلیم کے ہتھیار سے لڑیں گے۔
وزیراعظم نے واقعہ اے پی ایس کی پہلی برسی کے موقع پرکہا شہداء کی یادیں وطن عزیز
کی بقاء کے ساتھ جڑی ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ اس اقدام کا مقصدشہداء کو خراج عقیدت
پیش کرنا ہے۔ عدم برداشت پیدا کرنے والے نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے پڑھیں لکھیں مگر
ہم ان عناصر کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ شہداء بچوں نے روشنی کے بیج بو دیے ہیں،
مگر ہمارے دشمن نفرت اور انتہاء پسندی چاہتے ہیں۔ ہمیں تحمل،روشن خیالی اور تعلیم
کے فروغ سے دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہے۔پنجاب بھر میں بھی 16دسمبر کو بڑی تقریبات کا
انعقاد کیا جارہا ہے ، جس میں سانحہ اے پی ایس کے شہدائکو خراج عقیدت پیش کیا
جائیگا، ایوان اقبال میں سب سے بڑی تقریب منعقد کی جارہی ہے ، جس کے مہمان خصوصی
وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف ہوں گے ، جبکہ مختلف اسکولز، کالجز میں بھی تقریبات کا
انعقاد کیا جارہا ہے۔اور اسکولز ، کالجز میں ہونیوالی تقاریب میں تقاریری مقابلہ
جات ، ٹیبلو پیش کئے جا رہے ہیں۔آئی ایس پی آر کی جانب سے سانحہ پشاور کے شہداء کو
خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے جاری کیا گیا نغمہ ’’مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے‘‘
ایک دن میں انتہائی مقبول ہو گیا، اس نغمے کو نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر
بھی پذیرائی حاصل ہونے لگی ہے ، اس نئے نغمے نے کروڑوں پاکستانیوں کے دل جیت لیے
ہیں۔ 16 دسمبر کو سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے منعقد ہونیوالی تقریبات میں اس نغمے
کو بھی شامل کیا جائیگا۔ سرکاری محکموں، اسکولز، کالجز میں سانحہ پشاور میں شہید
ہونیوالے بچوں و اساتذہ کی بہادری کو سلام پیش کیا جا رہا ہے ، جبکہ اس نغمے کو سن
کر سرکاری ملازمین، طلبا وطالبات کا کہنا ہے کہ نغمے میں بچوں کی ذہانت، بہادری،
جرات مندی اور حیرت انگیز طور پر انکی مقابلہ بازی دکھائی گئی اور تعلیم حاصل کرنے
کا عزم بھی کیا گیا ہے۔ پاکستان میں سانحہ اے پی ایس کے شہداء کو خراج عقیدت پیش
کرنے کی تقریبات میں اس نغمے کو خاص اہمیت دی جارہی ہے ، بعض حلقوں کی جانب سے یہ
تجویز بھی دی جا رہی ہے کہ اس نغمے کو اسکولوں کی روزانہ صبح ہونیوالی تقریبات میں
بھی شامل کیا جائے۔ |
|