جمہوریت زندہ باد

پنجاب اور سندھ میں گزشتہ روز بلدیاتی الیکشن کے تیسرے مرحلے میں پنجاب میں مجموعی طور پر 2507 میں سے 2227 کے غیر سرکاری نتا‏ئج کے مطابق مسلم لیگ ن اور آزاد امیدواروں میں سخت مقابلہ ہوا۔ ن لیگ نے 947 آزاد نے 961 اور پی ٹی آئی ایک بار پھر تیسرے نمبر پر آئی ہے۔ پنجاب میں شیر کی دھاڑ سے بلا کرچی کرچی ہوگیا۔ پی ٹی آئی سے اچھے آزاد امیدوار اچھے نکلے۔ جنہوں نے آزاد حثیت سے بھی واضح برتری حاصل کیں۔ پی ٹی آئی کا شور و زور پہلے کی نسبت اب بہت کم ہوگیا ہے۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت بھی اب بہت معدم ہوچکی ہے۔ ہر چیز کو عروج ہوتا ہے۔ تو زوال پذیر بھی ہونا ہے۔

سندھ کے دارلحکومت کراچی کے 6 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ نے واضح اکثریت حاصل کیں۔ جس کے بعد تحریک انصاف جماعت اسلامی جے آئی کے اتحاد پی پی پی اور ن لیگ سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں کراچی کے میئر کے لیے ایم کیو ایم کا راستہ ہموار ہوگیا۔ حیدرآباد کے بعد کراچی میں ایم کیو ایم کی دوسری بڑی کامیابی ہے۔ ایم کیو ایم 135 نشتوں پر برتری حاصل کرکے پہلے نمبر پر رہی۔ پی پی 23 نشتوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر۔ جبکہ پی ٹی آئی 3 ن لیگ 4 اور جے آئی 3 نشتیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ کراچی سے ایم کیو ایم کا بھاری اکثریت سے جیت جانا حیرت کی بات نہیں بلکہ پی پی پی کا بری طرح ہار جانا حیرت کی بات ہے۔ پیپزپارٹی سندھ کی بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اور سندھ میں حکومت بھی پیپزپارٹی کی ہے۔ کراچی تمام سیاسی جماعتوں کا گڑھ ہے۔ سب سیاستدان کراچی میں رہتے ہیں۔ کراچی کی عوام نے خود ثابت کردیا ایم کیو ایم کو ووٹ دے کر اور تمام جماعتوں کو مسترد کردیا۔

گزشتہ کئی برسوں سے کراچی میں پیپزپارٹی کی حکومت چلتی آرہی ہے۔ پہلے بھی سندھ کے وزیراعلی قائم علی شاہ تھے۔ اب بھی وزیراعلی قائم علی شاہ ہے۔ پیپزپارٹی نے اپنے پانچ سالا دور میں سندھ اور کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا تو اب کیا کرسکتی ہے۔ تو پھر پیپزپارٹی کراچی پر مسلط کیوں ہے۔ سندھ میں پیپزپارٹی کے وزیر تو ہے۔ مگر سندھ کابینہ میں کوئی قابل وزیر نہیں ہے۔ زرداری کے دور سے اب تک اے این پی نے کراچی میں اپنا بہت حق جتایا مگر کیا کچھ نہیں ۔ اور اے این پی کی اکثریت بھی ختم ہوچکی ہے۔ یہ اٹل حقیقت ہے۔ کہ کراچی کی عوام 1986 کئی دہائی سے متحدہ قومی موومنٹ کو ہی ووٹ دیتی آئی ہیں۔ کیونکہ اہل کراچی کی عوام با شعور ہونے میں اول درجہ رکھتی ہیں۔ مشرف دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات میں محتدہ قومی موومنٹ نے کراچی اور حیدرآباد میں جو ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے۔ اور کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے سابق سٹی ناظم مضطفی کمال کی قابل فخر کارکردگی کا اعتراف تمام سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کو ہرانے کے لیے بڑے بڑے برج الٹ گے۔

5 دسمبر کے انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ کے سیاسی مخالفین نے ایم کیو ایم کو ہارانے کے لیے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے جو اتحاد بنایا۔ مگر افسوس انکا سیاسی اتحاد بھی کسی کام نہ آیا۔ اسکے باوجود تحریک انصاف جماعت اسلامی بری طرح ہاری حالانکہ یہ دونوں سیاسی جماعتیں نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے دور ہوتی ہیں۔ تو پھر اندر کی بات کیا ہے۔ تحریک انصاف تو پنجاب میں بھی ن لیگ کے مقابلے میں بری طرح ہار چکی ہیں۔۔ جب پنجاب میں ہی سونامی کا زور ٹوٹ چکا تو پھر کراچی میں سونامی کی جیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب تحریک انصاف کا ملک میں تبدیلی لانے کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا۔ اور کراچی کو ترقی یافتہ شہر بنانے کا جماعت اسلامی کے ارادوں پر بھی پانی پھیر گیا۔ پنڈی میں عمران خان اور شیخ رشید کے اتحاد کے برج بھی الٹ گئے ہیں۔ شیخ صاحب میڈیا ٹی وی میں خاصے مقبول سیاستدان ہے۔ اب شيخ صاحب کو عمران خان کا اتحاد ختم کےکرکے نیا اتحاد قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور اب عمران خان کے منہ سے تبدیلی کی باتیں اچھی نہیں لگتی۔ عمران خان کو اب اپنی سابق بیوی ریحام خان کا پروگرام تبدیلی دیکھنا چاہیے۔

تحریک انصاف پے درپے شکست کے باوجود بھی اقتدار میں آنے کے لیے مضطرب رہتی ہیں۔ اب مستقبل میں تحریک انصاف کے اقتدار میں آںے کے امکانات ماند پڑ چکے ہیں۔ تحریک انصاف کو اپنی جماعت معنظم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کیا ہی اچھا ہوگا کہ تحریک انصاف دوسروں پر نقطہ چینی کرنے کے بجائے پارٹی کی اندرونی خامیوں کو درست کریں۔ ہر الیکشن ہارنے کے بعد دھاندلی کا رونا رونے کے بجائے عوام کے دلوں میں جگہ بنائے۔ میڈیا پر دیکھ کر ایسا لگتا ہے۔ جسے تحریک انصاف کو دھاندلی فوبیا ہوگیا ہے۔ تحریک انصاف کو ن لیگ اور ایم کیو ایم سے سبق سیکھنا چاہیے۔ کراچی میں جاری آپریشن میں پکڑے جانے والوں کی اکثریت کا تعلق سوشل میڈیا الیکٹرانک میڈیا میں ایم کیو ایم سے بتایا جارہا ہے۔ اور سوشل میڈیا پر ایم کیو ایم کا میڈیا ٹرائل بھی کیا جارہا ہے۔ اگر ایم کیو ایم واقعی دہشت گرد جماعت ہے تو پھر کراچی سے ایم کیو ایم بھاری اکثریت سے کیسے جیت گئی۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ فیصلہ عوام نے خود کردیا ہے۔ کہ ایم کیو ایم دہشت گرد جماعت نہیں بلکہ عوامی جماعت ہے۔ سندھ کراچی اور حیدرآباد کی عوام کے دلوں پر راج کرتی ہیں۔

الطاف حسین کی تقاریر پر پابندی ہے۔ الطاف حسین نے فوج کے خلاف سخت تقریر کیں جسکی بنا پر الطاف حسین کی تقریر پر پابندی عائد کی گئی۔ مگر الطاف حسین نے کارنر میٹنگ سے خطاب جاری رکھا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنوں نے سخت آزمائش میں بھی بھر پور طریقے سے انتخابی مہم جاری رکھی۔ اور کراچی کے لوگوں نے فیصلہ ایم کیو ایم کے حق میں کرکے یہ ثابت کردیا کہ ایم کیو ایم دہشت گرد جماعت نہیں بلکہ عوامی جماعت ہے۔ پیپزپارٹی کا بدین کے بعد لیاری سے بھی و نشان مٹ گیا۔ یہ بڑی افسوناک بات ہے۔

کراچی میں جاری رینجرز آپریشن پر بڑی سیاسی جماعتوں کو تحفظات ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد پیپزپارٹی خود مشکل میں پھنس چکی ہیں۔ کراچی میں احتساب عدالت نے ڈاکٹر عاصم کو قومی احتساب بیورو کے حوالے کردیا ہے۔ نیب کے علاوہ کسی کو ان تک رسائی نہیں ہوگی۔ پیپزپارٹی سخت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اور وزیراعلی قائم علی شاہ کا پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو کرپٹ بولنا قابل مذمت ہے۔ سندھ اور وفاق میں کشیدگی پیدا ہوچکی ہے۔ سندھ میں اب گورنر راج کی افواہیں گردش کررہی ہیں۔ فوج محاذ پر لڑ رہی ہیں۔ اور سیاستدانوں نے اپنے محاذ کھول لیے ہیں۔ کراچی آپریشن کو سیاسی آپریشن بنا دیا گیا ہے۔ عوام کی کوئی سننے کو تیار نہیں ہے کہ عوام کیا چاہتی ہیں۔ سب کھینچا تانی کی سیاست میں مگن ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں سے کراچی آپریشن کا رخ موڑنے اور سیاسی بیانات سے رینجرز کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایم کیو ایم نے کراچی میں جاری آپریشن کی حمایت کردی۔ اور سندھ حکومت کا ساتھ دینے سے معذرت کرلی۔ جمہوریت زندہ باد
Mohsin Shaikh
About the Author: Mohsin Shaikh Read More Articles by Mohsin Shaikh: 69 Articles with 61152 views I am write columnist and blogs and wordpress web development. My personal website and blogs other iteam.
www.momicollection.com
.. View More