سابق چیف جسٹس افتخار چودھری۔صدارتی نظام ِ حکومت کے حامی
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد
چودھر ی نے ملک میں ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کی نوید سنائی تھی۔ ان کا
بیان اخبارات میں آیا تھا کہ وہ جلد ایک نئی سیاسی جماعت کا اعلان کرنے
والے ہیں ۔ بہت ممکن ہے کہ موجودی بلدیاتی انتخابات کے مراحل مکمل ہونے اور
ان کے نتائج کاانتظار کر رہے ہوں ۔ ان نتائج کی روشنی میں اپنی جماعت کے
خدو خال کو حتمی شکل دیں۔ نئی جماعت کا اعلان تو سامنے نہیں آیاالبتہ انہوں
نے عوام کے نام ایک خط تحریر کیا ہے جو 28نومبر کے اخبارات کی زینت بنا۔ اس
خط میں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے پاکستان کی ابتر صورت حال کی تصویر
کشی تو کی اس کے ساتھ ہی اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ ’پارلیمانی جمہوریت
کے نام پر جو ہوا وہ ہم نے دیکھ لیا، ان کی خواہش ہے کہ ہمیں ایک نئے
متبادل جمہوری نظام کے قیام کی ضرورت ہے ، قائداعظم کی فکر کی روشنی میں
ایسے نظام کی جانب بڑھنا ہوگا جو ’صدارتی نظام جمہوریت اور اعلیٰ جمہو ری
اقدار پر قائم ہوگا اور کیوں نہ عوامی نمائندگان صرف قانون سازی تک محدود
رہیں اور دیگر اختیارات عوام کو منتقل کردیے جائیں‘۔
سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے اس خواہش سے یہ نتیجہ اخذکرنا مشکل نہیں کہ
چودھری صاحب پاکستان میں’ صدارتی نظام حکومت‘ کے حامی نظر آرہے ہیں اور وہ
جس نئی سیاسی جماعت کا اعلان کریں گے اس کے منشور میں ملک میں صدارتی نظام
حکمرانی کی تجویز شامل ہوگی۔ سابق چیف جسٹس صاحب کی رائے کوئی نئی نہیں،
پاکستان میں صدارتی نظام حکومت کا تجربہ ہوچکا ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے
صدارتی نظام حکمرانی ہی رائج کیاتھا ۔ جس میں اختیارات کا سر چشمہ نچلی سطح
پر عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس تھے ۔ ایوب خان کا بنیادی جمہوریت کا
نظام ملک میں رائج رہ چکا ہے۔ اس نظام میں نچلی سطح کے نمائندوں کے پاس
اختیار ہوتا ہے اور عوام کے روز مرہ کے مسائل بہت آسانی سے حل ہورہے تھے۔
لیکن ایوب خان کے بعد آنے والے سیاست دانوں نے صدارتی نظام کے بجائے
پارلیمانی نظام حکومت کو ملک کے لیے زیادہ بہتر محسوس کیا ۔ پارلیمانی نظام
حکومت میں سول حکومتوں نے تسلسل کے ساتھ بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے،
قومی، سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین سے کام چلانے کی کوشش کی اس کا
نتیجہ یہ ہوا کہ عوام کے وہ مسائل جن کا تعلق ان کی بنیای ضروریات سے ہوتا
ہے وہ مسائل حل نہ ہوئے۔ پرویز مشرف کے دور میں مقامی حکومتوں کا نظام رائج
ہوا، نچلی سطح پر عوام کو اختیارات دئے گئے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ آج
پرویز مشرف کے اس دور کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کراچی شہر کی ترقی
کوہی لے لیں تو آج مخالفین بھی مصطفیٰ کمال کی مثال دینے پر مجبور نظر آتے
ہیں۔پرویز مشرف بھی صدارتی نظام حکومت کے زیادہ قریب نظر آتے ہیں۔ گویا اس
نقطہ پرسابق چیف جسٹس اور سابق صدر مملکت پرویز مشرف کی سوچ میں خاصی
مطابقت پیدا ہوچکی ہے۔یہ کوئی بری بات بھی نہیں ۔ پروریز مشرف بھی اور اب
سابق چیف جسٹس بھی عملی سیاست میں قدم رنجا فرما چکے ہیں اور سیاست میں کچھ
بھی ممکن ہے۔کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دوست آئندہ کے مخالفین ہو
سکتے ہیں۔ اگر ہماری سول حکوتیں اقتدار سے محرومی کے خوف سے بلدیاتی یا
مقامی حکومتوں کے نظام کو ملک میں جاری رکھتیں تو لوگ اس نظام سے بد دل نہ
ہوتے۔ بدقسمتی سے اقتدار میں شراکت ہمارے حکمرانوں کو پسند نہیں۔ ملک میں
موجودہ بلدیاتی انتخابات موجودہ جمہوری حکومت خوشی سے نہیں کرارہی بلکہ یہ
بات سب ہی کے علم میں ہے کہ اگر اعلیٰ عدلیہ حکومت کے پیچھے ڈنڈا لے کر نہ
پڑتی تو نواز شریف یا پیپلز پارٹی کی حکوتوں نے بلدیاتی انتخابات ہرگز نہیں
کرانے تھے۔ ان انتخابات سے حکومتوں کی اصل حقیقت سامنے آنے کا ڈر جو ہوتا
ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی واش آؤٹ ہوگئی، تحریک انصاف نے نون لیگ کو ٹف
ٹائم دیا، اسلام آباد میں مسلم لیگ نون معمولی سی برتری حاصل کرسکی، اندرون
سندھ میں نون لیگ اور تحریک انصاف کا وجود نظر نہیں آیا، کراچی میں 5دسمبر
کوہونے والا معرکہ اپنے منطقی انجام کو پہنچا، بے شمار قسم کے منفی تجزیے،
وسوسے، خدشات ،دنگا فساد، خون خرابے کی باتیں دم توڑ گئیں ، کراچی پر گزشتہ
تیس برس سے حکمرانی کرنے والی جماعت باوجود مشکلات کے شہر قائد کے عوام کو
اپنا ہم نوا بنانے میں اس بار بھی کامیاب رہی۔ دھاندلی کے الزاما ت بھی
سامنے نہیں آئے۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنے خط میں تحریر کیا جو حقیقت بھی
ہے کہ’ آج تک ایک مزدور کی ، ایک کسان کی، ایک ڈرائیور کی، ایک چپڑاسی کی،
ایک کلرک کی، زندگی میں خوشیوں کی کوئی رمق اس نظام نے باقی نہ چھوڑی ہے۔
ملک کی غالب آبادی سسک سسک کر اور چھوٹی چھوٹی آرزؤں کا گلا گھونٹ کر جی
رہی ہے۔ ان کے لئے بوڑھی ماں کے علاج کی سہولت نہیں، چھوٹے بچے بیمار پڑ
جائیں تو ڈھنگ کا علاج دستیاب نہیں ، تعلیم پر ساہوکاروں کے پہرے ہیں۔
دستور پاکستان تعلیم وصحت ریاست کی ذمہ داری قرار دیتاہے لیکن ہمارے ہاں یہ
بنیادی شعبے پرائیویٹ ہاتھوں میں جا چکے ہیں۔ تعلیم ایک کاروبار ہے اور صحت
بھی۔ کیا ایک فلاحی ریاست ایسی ہوتی ہے؟ ڈگری تو ہے ملازمت نہیں ۔ مواقع
اول تو ہیں ہی کم اور جو ہیں ان پر رشوت اور سفارش کے منحوس سائے ہیں۔
قیمتی ریاستی اداروں کو بہتر کرنے کے بجائے پرائیویٹائز کیا جارہا ہے۔
اسٹیل مل ہو، پی آئی اے ہو، ریلوے ہو یا واپڈا ہر طرف ایک انحطاط ہے۔ یہ
انحطاط نہیں انحطاط مسلسل ہے‘۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا تجزیہ غلط نہیں ہمارے ملک کی حقیقی
صورت حال یہی ہے۔ ہمیں اس جانب توجہ دینا ہوگی۔ ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر
قربان کرنا ہوگا، اقتدار میں آنے والوں کو یہ سوچ بدلنا ہوگی کہ اب حکمرانی
صرف اور صرف انہی کا حق ہے۔ جب تک وہ زندہ ہیں وہی حکمرانی کریں گے، جب اس
کے اعصاب کچھ ڈھیلے پڑنے شروع ہوجائیں گے تو وہ اس فکر میں لگ جائیں گے کہ
ان کے بعد ان کا بیٹا، ان کی بیٹی ہی اقتدار میں رہے۔ جن ممالک میں بادشاہت
ہے تو ان میں اور ہمارے جمہوری نظام میں فرق کیا ہوا، وہ اپنے دستور کے
مطابق شہزادے کو سربراہ بنا لیتے ہیں ہم جمہوری نظام حکومت میں صرف اس فکر
اور کوشش میں ہوتے ہیں کہ ہمارے بعد ہمارا بیٹا یا ہماری بیٹی ہی ہماری
جانشین ہو۔ جب تک سیاست داں اس سوچ کو نہیں بدلیں گے ملک میں حقیقی ترقی
نہیں ہوگی۔ سابق چیف جسٹس نے جن چیزوں کی جانب نشاندھی کی ہے وہ اسی طرح
پروان چڑھتی رہیں گی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کا کہنا ہے کہ’ کیوں نہ
قائد اعظم کی فکر کی روشنی میں ایک ایسے نظام کی طرف بڑھا جائے جو صدارتی
نظام حکومت اور اعلیٰ جمہوری قدروں پر کھڑا ہو اور عوامی نمائندگان صرف
قانون سازی تک محدود رہیں اور دیگر اختیارات عوام الناس کو نچلی سطح پر
منتقل کر دئے جائیں‘۔سابق چیف جسٹس افتخار چودھری سے انتہائی ادب سے عرض ہے
کہ نظام چاہیں پارلیمانی جمہوری نظام ہو یا صدارتی نظام ِ جمہوریت ہو ۔
دونون نظام برے نہیں مسئلہ اس نظام کی اصل روح کے مطابق عمل درآمد کا ہے۔
پیپلز پارٹی کا پانچ سال کا عرصہ زرداری صاحب کی صدارت میں گزر گیا ، وہ
بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرتی رہی اور اس کے پورے پانچ سالہ
دور میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے۔ نون لیگ ھیلے بھانوں سے ڈھائی سال
گزار دیے ۔ نون لیگ بھی ملک میں بلدیاتی انتخابات کے حق میں نہیں تھی، ملک
کی اعلیٰ عدالت اگر حکومت کو مجبور نہ کرتی تو یہ حکومت بھی انتخابت ہر گز
نہ کراتی۔اگر پارلیمانی جمہوری نظام پر تسلسل کے ساتھ، اس کی حقیقی روح کے
عین مطابق عمل درآمد ہوتا رہے تو مقامی حکومتوں کے نظام کے ذریعہ اصل
اقتدار عوام تک پہنچتا رہے گا اور لوگوں کے مسائل حل ہوتے رہیں گے۔ ایک
نظام سے دوسرے نظام کی جانب منتقل ہونا ملک و قوم کے لیے کڑا امتحان اور
مشکلات کا باعث ہوگا۔ویسے بھی پاکستان اب نئے نئے تجربات کا متحمل نہیں
ہوسکتا۔ تمام سیاسی جماعتیں، سول سوسائیٹی لمحہ موجود کے حکمرانوں کو مجبور
کریں کے وہ نظام حکمت کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے، سختی سے مقامی
حکومتوں یا بلدیاتی نظام پر عمل کرتے
رہیں۔ اس طرح عوام الناس کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل ہوتے رہیں گے۔ |
|