۱۲؍ ربیع الاول اور ہماری عقیدت
(Shamim Iqbal Khan, India)
اسلام کی تاریخ میں ایک بڑا اہم جلسہ ہوا
تھا جس میں حضور اقدس ؐ نے عرفات کے میدان میں اُوٹنی پر سوار ہو کرآخری
اور مشہور و معروف خطبہ دیا جو تاریخ اسلام میں ’’حجۃ الودع‘‘ کے نام سے
مشہور ہے۔یہ خطبہ اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔یہیں پر وحی نازل ہوئی اور اﷲ
تعالی نے فرمایا ’آج ہم نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم
پر تمام کر دیں اور تمہارے لیے مذہب اسلام کا انتخاب کیا‘۔ (سورہ مائدہ ۔۳)
یہ آخری وحی تھی اس کے بعد اﷲ تعالی کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا، نہ اب کوئی
پیغمبر آئے گا،کیونکہ اسلام اب مکمل ہو چکا ہے اور اسی لیے اسی خطبہ کے
دوران حضور اقدسؐ نے ارشاد فرمایا ’’مذہب میں غلو اور مبالغہ سے بچو کیونکہ
تم سے پہلے کی قومیں اسی سے برباد ہوئیں‘‘۔
اﷲ تعالی فرماتے ہیں کہ ہمارے دین کو مکمل کر دیا رسول اقدس ؐ کا ارشاد
ہوتا ہے کہ ’مذہب کی کسی بات کو بڑھا چڑھا کر مت بتاو ورنہ بربادی لازم
ہے‘۔اس کے بعد بھی رسول اقدسؐ نے ارشاد فرمایا ’’میں تمہارے درمیان دو
چیزیں چھوڑتا ہوں،اگر تم نے ان کو مضبوط پکڑ لیا تو گمراہ نہ ہوگے وہ چیزیں
ہیں کتاب اﷲاور میری سنّت‘‘۔اﷲ اور رسول کے احکامات کے باوجود مسلمان جان
بوجھ کر اپنے تباہی کے راستے پر اپنے کو گھسیٹ رہا ہے۔
ہم جو کام بھی کریں وہ اﷲ و رسولؐ کے احکامات کے دائرے میں ہو،اس دائرے سے
باہر نکلے کہ ہم دین سے ہٹ گئے۔ ہمارے لیے جو احکامات ہیں انہی کی پابندی
ہی ہماری عبادت ہے۔اگر حکم ہے نماز پڑھنے کا تو نماز پڑھنا عبادت ہے،سفر
میں چار رکعت کی جگہ پر صرف دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم ہے تو چار رکعت نماز
پڑھنا گناہ ہوگا۔اس سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ اﷲ اور رسولؐ کے احکاما ت
کی پاسداری اور پابندی ہی ہماری شریعت ہے۔
حضور اقدسؐ اسی خطبہ میں ایک جگہ اور ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’اگر کٹی ہوئی
ناک کا کوئی حبشی بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے
چلے تو اس کی اطاعت و فرما برداری کرو‘‘۔
ہم کو اپنے پیچھے لے چلنے والے تو بہت مل جائیں گے اور اس طرح کا لوگ شوق
بھی رکھتے ہیں لیکن یہ گارنٹی نہیں ہو سکتی کہ وہ خدا کی کتاب کے مطابق لے
چل رہے ہیں یا نہیں۔ایسی صورت میں کتاب کی شد بُد مجھے بھی ہونی چاہئے ورنہ
وہ ہمیں کسی بھی اندھیرے کنویں میں ڈھکیل سکتے ہیں۔رسول ؐ کے احکامات کی
پاسداری میں ہمارا ہر کام رسولؐ کی سنت کے مطابق اگر ہے توکوئی بھی آسانی
سے کہہ سکتا ہے کہ اس کے دِل میں رسول ؐ کے لیے بڑی محبت ہے۔ شریعت کے
بنیادی احکام کے ساتھ اگر ہم نے رسولؐ کی سیرت سے عفو ودرگزر، صبر و برداشت،
تحمل، بردباری، اور حسن سلوک لے رکھا ہے تو ہم سو فیصد کامیاب ہیں۔
ربیع الاول کے مہینہ میں حضور اقدسؐ کی پیدائش ہوئی اسی لیے یہ مہینہ بڑی
برکتوں والا ہے۔ اس برکت والے مہینہ میں بے برکتی کے کام کیوں کریں۔ہمیں ہر
ایسے کام سے اجتناب کرنا ہے جس کے ذریعہ دیگر مذاہب سے مشابہت ہوتی ہو۔
مسلمان اس وقت عجیب حالات سے دوچار ہیں، جس پر بہت سنجیدگی کے ساتھ غور
کرنا ہے۔’بیٹی بچاؤ، بہو لاؤ‘کا نعرا لگایا جا رہا ہے ہم نے کبھی اس طرف
توجہ کی کہ کیا کہا جا رہا ہے؟وہ اپنے لڑکوں سے کہہ رہے ہیں کہ مسلمان کی
لڑکیوں کو بیاہ کر لاؤ۔اس بات کو ہم نظر انداز کر رہے ہیں، کیا اپنی بیٹیوں
یا اپنے معاشرے کی بیٹیوں سے بالکل ہمدردی نہیں ہو رہی ہے؟کیا اسی طرح
’گھرواپسی ‘ کے مناظر کو دیکھتے رہیں گے؟
ہم اپنے طور پر رقم کا بندوبست کریں اپنے قرابت میں، اپنی جان کاری میں ان
بچیوں کوتلاش کریں جن کی غربت کی وجہ سے شادی نہیں ہو رہی ہے، ان کی شادی
کرانے میں مدد کریں ۔حضرت مولانا ابو الحسن علی حسنی ندویؒ فرماتے ہیں کہ
وہ شخص جس کا خدااور رسولؐ پر ایمان ہے اور یقین کرتا ہے کہ مسلمان کی دولت
کی قیمت و افادیت یہی ہے کہ وہ اسلام کے کام آئے نہیں تووہ قارون کا خزانہ
اور دنیا میں رسوائی اور آخرت میں مؤاخذہ کا سامان ہے ۔اگر اپنی زندگی میں
اس طرح کا کوئی کام کر لیا تواﷲ رب العزت سے بے خوف کہہ سکیں کے’ اے میرے
معبود! میں اورتو کچھہ نہیں کر سکا لیکن ایک غریب لڑکی کی شادی کرا دی اور
اس کا گھر بسوا دیا‘‘۔ کیا تعجب حقوق العباد کی اس ذمہ داری کو نبھانے پر
ہم بخش دیے جائیں۔
ہم سے یہ سوال نہیں پوچھا جائے گا کہ جشن ولادت کے موقعہ پرکتنی ڈیگیں
پکوائی تھیں؟روشنی کے لیے کتنے ہیلوجن لگوائے تھے، جلوس کے استقبال کے لیے
کتنے گیٹ بنوائے تھے،آواز کے لیے کتنے لاؤڈ اسپیکر لگوائے تھے۔لیکن حقوق
العباد کے تحت یہ سوال ضرور ہو گا کہ تمہارے محلہ کا فلاں لڑکا گلّی ڈنڈ
کھیل کر آوارہ نکل گیا ، اس کی تعلیم کے لیے کیا انتظامات کیے اور تم اپنے
گھر والوں اور اپنے اعزااقربا کی تعلیم کے لیے کس حد تک بیدار رہے و میرے
پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ غیر حسی طور پر ہماری
اسلامی ثقافت کو بگاڑا جا رہا ہے، بڑی ہوشیاری کے ساتھ غیرشرعی چیزوں کو
نورانی بنا کرشریعت کا درجہ دیا جا رہا ہے۔
بدعت:
حضور اقدسؐ کا ارشاد ہے کہ ’’ جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات پیدا کی وہ
(اﷲ کے یہاں) مردود ہے (بخاری و مسلم)‘‘۔یہ ایک مستند حدیث ہے جسے ہم سب نے
بارہا سنا ہوگا اور پڑھا بھی ہوگا لیکن ہم اپنی ناسمجھی میں یا ضد میں بدعت
کو ہی شریعت کا درجہ دے رکھا ہے جو ہماری تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔کچھ لوگ
بڑی معصومیت سے کہہ دیتے ہیں کہ ’’ہم وہ کر رہے ہیں جو ہمارے باپ دادا کرتے
رہے ہیں‘‘۔ہمارے مرحوم باپ دادا ہمارے لیے بہت ہی محترم ہیں، اسی لیے ہمیں
ان کی مغفرت کی دعا کرتے رہنا چاہئے۔یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ شریعت
ہمارے باپ دادا کی کرنی اور کتھنی نہیں ہے۔شریعت ،اﷲ تعالی اور رسولؐ کے
احکامات کو کہتے ہیں۔ہم جو کر رہے ہیں اُسے شریعت کے روسے پرکھنا پڑے
گا۔اُسے اﷲ کے احکامات اور رسول ؐ کی سنّت کے مطابق کرنا پڑے گا۔اگرہم شک و
شبہات میں مبتلا ہیں تو ہمیں کسی مستند عالم سے رجوع کرکے اپنی اصلاح اور
توبہ کر لینی چاہئے ۔بہت سے لوگ جو عالم کی طرح نظر آتے ہیں، ان کو پہچانیں
اور ان سے بچیں۔یہ کاروباری لوگ اپنی دوکانوں کے لیے آپ جیسے معصوم لوگوں
کو اپنا گہک بناتے ہیں۔اسی طرح کی عالموں کے لیے کہا گیا ہے کہ دوزخ انہیں
کے کندوں سے دہکائی جائے گی۔
اسلام کی شان:
مسلم ہیں ہم تو خلق کریمانہ چاہئے
اسلام ترا سب کو نظر آنا چاہئے
(مقصدؔ الٰہ آبادی)
اﷲ کے فضل و کرم سے ہم مسلمان ہیں توہم اس کو اپنے تک ہی محدود نہ
رکھیں۔ہمیں اپنے رکھ رکھاؤ سے، اپنے برتاؤ سے،اپنے معاملات سے، اپنی نشست و
برخاست سے،اپنی بول چال سے اسلام کی پبلی سٹی کرتے رہناچاہئے ۔کچھ متعصب
لوگوں کو چھوڑ دیں تو ہمارے ہندو بھائی بڑے نرم مزاج کے ہوتے ہیں، بڑی محبت
والے ہوتے ہیں، ہم انہیں لوگوں کے بیچ میں رہتے ہیں،ہم اسلام کی تبلیغ کر
سکتے ہیں وہ اس طرح کہ ہم مسلمان ہیں اس لیے ہم جھوٹ نہیں بولتے،ہم
دوکانداری کرتے ہیں لیکن کم نہیں تولتے،ہمارا تیل اور دودھ کا کاروبار ہے،
ہم ملاوٹ نہیں کرتے، ہم کسی سے وعدہ کرتے ہیں تو اُس پر قائم رہتے ہیں۔ ہم
پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرتے ہیں،ہم حسب استطاعت ضرورتمند،
مسکین اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں، غریبی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہیں
کرتے، زنا کاری اور بیحیائی برا راستہ ہے، اس سے بچتے ہیں، کسی کی دل آذاری
نہیں کرتے ، کسی جان کو قتل نہیں کرتے، یتیم کے مال کے قریب نہیں جاتے۔ اس
طرح سے ہم اﷲ اور اُس کے رسولؐ دونوں کو خوش رکھ سکتے ہیں۔ جلوس محمدیؐ
جسکی شریعت میں کوئی جگہ نہی ہے، وہ ایک بدعت ہے اس میں چل کر اپنے جسم کو
تھکانا گناہ بے لذّت ہے، فرض نمازوں کی ادائیگی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے اور
اکثر جماعتیں چھوٹ بھی جاتی ہیں جو شعار اسلام کے خلاف ہے۔
ہر مسلمان کو وہ واقعہ ضرور یاد ہوگا کہ جب رسولؐ پر ایک بڑھیا کوڑا پھینکا
کرتی تھی، اور آپ ؐ روز اُ سی راستے سے نکلتے تھے۔ ایک دن جب اس نے کوڑا
نہیں پھینکا ، معلوم ہوا وہ بیمار ہے، تو آپؐ اس کی عیادت کو گئے۔اس طرح کی
حدیثیں صرف بیان کرنے کے لائق نہیں ہیں بلکہ اس طرح کا ہمیں اپنا اخلاق
بنانا پڑے گا۔ہمیں نمائش کی دنیا سے نکلنا پڑے گا،ہمیں اسلام میں رائج
بدعات کی نشاندہی کرنی پڑے گی اور پھر ان سے چھٹکارا حاصل کرنا پڑے گا۔رائج
بدعتیں اسلام کی شان کے خلاف ہیں انکی ادائیگی سے ثواب کا تو سوال نہیں،
گناہ کا طوق الگ سے۔ایسے کام کیوں نہ کیے جائیں جن سے ہمارے ایمان کو تقویت
ملے ساتھ ہی ساتھ اسلام کی بھی شان بڑھے۔
عید میلادالنبی کی شان:
عید میلادالنبی کا جشن بڑی شان سے منایا جاتاہے۔خوب چندہ جمع کیا جاتا ہے
اور بڑی سیاست سے وصولا جا تا ہے۔چندہ دینے والے نئے لوگ تلاش کیے جاتے ہیں
اور ان سے زیادہ سے زیادہ تعاون کی درخواست کی جاتی ہے۔پرانے چندہ دہندگان
سے کہا جاتا ہے کہ’’پچھلے سال آپ نے اتنا دیا تھا، اس بار آپ سے میں دوگنے
سے کم نہیں لوں گا۔بہر حال بے حساب چندہ وصول ہوتا اور خوب جم کر خرچ بھی
کیا جاتا ہے۔ہر سال گزشتہ سال کی بنسبت سجاوٹ کا رقبہ بڑھتا ہی رہتا ہے۔
تقریباً ہر شہر میں بالخصوص لکھنؤ میں مرکزی سیرۃ النبی کا جلسہ۱۲؍ربیع
الاوّل کو ہوتا ہے ۔ اس کے بعد پورا مہینہ جشن ولادت محلوں میں منایا جاتا
ہے۔رات کو نمازِ عشاء کے بعدجلسے ہوتے ہیں جودن سے ہی سڑکوں کو گھیر کر،آمد
رفت روک کر جلسہ گاہ کو برقی قمقموں ، رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجانا شروع کر
دیا جاتا ہے ۔ہار پھولوں سے سجا ہوا اسٹیج بنایا جاتاہے جس پر علماء حضرات
تشریف فرما ہوتے ہیں۔قرآن کی تلاوت سے جلسہ کا آغاز ہوتا ہے، علماء کرام
تقریر فرماتے ہیں،نعتیں پڑھی جاتی ہیں اور پھرآخر میں دعا ،سلام کے ساتھا
جلسہ کا اختتام ہوجاتا ہے۔دوسرے دن دس ،گیارہ بجے ٹِنٹ ہاؤس والے ، بجلی
والے اور سجاوٹ والے آکر اپنا اپناسامان لے جاتے ہیں۔ اس طرح سے تقریباً
چوبیس ،پچیس گھنٹہ سڑک پرقبضہ رہتا ہے او ر ساراوقت بجلی جلتی رہتی ہے۔
حرام و حلال کی پہچان:
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے ایک بڑے خلیفہ تھے جنھیں آپ نے خلافت عطا
فرمائی تھی۔ ایک مرتبہ وہ ایک سفر سے واپس آئے تو ان کے ساتھ ایک بچہ بھی
تھا۔اور بچہ کے ساتھ ہی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے کچھ
سوالات کیے۔ کہا ں سے آرہے ہیں؟ جواب:’’ فلاں جگہ سے‘‘، کاہے سے آئے ہیں
؟جواب: ’’ٹرین سے‘‘۔ بچے کی عمر کیا ہے؟جواب: ’’تیرہ سال‘‘۔ ٹکٹ آدھا لیا
یا پورا؟، جواب:’’چونکہ یہ دیکھنے میں بارہ سال کا لگتا ہے اس لیے آدھا ٹکٹ
ہی لیا تھا‘‘۔
حضرت والا کو سخت رنج ہوا اور ان سے خلافت واپس لے لی اور فرمایا کہ، مجھ
سے غلطی ہوئی ، تم اس لائق نہیں ہو کہ تمہیں خلافت دی جائے کیونکہ تمہیں
’حلال‘و ’حرام‘ کی فکر نہیں۔ جب بچے کی عمر بارہ سال سے زیادہ ہو گئی بھلے
ایک دن ہی کیوں نہ ہو، تو تم پر پورا ٹکٹ لینا واجب ہو جاتا ہے۔تم نے آدھا
ٹکٹ لیکر جو پیسے بچائے وہ حرام کے ہوئے۔جسے حرام سے بچنے کی فکر نہ ہو، وہ
خلیفہ بننے کے لائق نہیں۔
کاش آج کوئی بھی اس طرح کے جلسہ گاہوں میں، منتظمین جلسہ سے ایسا سوال
کرسکے:
۱۔ بجلی کی پرچی کٹوائی ہے؟
۲۔ سڑک گھیرنے کی اجازت نگر نگم سے لی ہے؟ |
|