اس سال حضرت عیسیٰ اور رسول اکرم ﷺکی
ولادت کے دن ایک ہی ماہ میں بلکہ ایک دن کے فرق سے آرہے ہیں۔ اﷲ کے ان دو
عظیم رسولوں نے دنیا سے ظلم، ناانصافی، جبر اور انسانوں کے انسانوں پر تسلط
کو ختم کرکے انقلاب پرپا کیا۔ حضرت عیسیٰ ؑاور حضرت محمد مصطفےٰﷺ دونوں کی
دعوت اور حیات آفرین پیغام پر غریبوں اور مظلوم طبقہ نے لبیک کہا جبکہ بالا
دست سرمایہ دار اور مذہبی پیشوائیت نے زبردست مخالفت کی۔ یہ طبقات اس لیے
مخالفت کررہے تھے کہ اگر یہ دعوت انقلاب مقبولیت عام اختیار کر گئی تو
ہمارا مقام و مرتبہ ختم ہوجائے گا اور جن کا ہم استحصال کررہے ہیں وہ آزادی
حاصل کرلیں گے۔کفار مکہ رسول اکرم کی مخالفت اور آپ کے جانی دشمن بتوں کی
عبادت سے منع کرنے کی وجہ سے نہیں ہوئے تھے بلکہ انہیں اپنے استحصالی نظام
کا خاتمہ نظر آرہا تھاجسے علامہ اقبال نے نوحہ ابو جہل کے عنوان سے بیان
کیا ہے۔ انسانوں کی رہنمائی کے لیے وحی کی صورت میں جو رشد و ہدایت کا
سلسلہ دور اولین سے شروع ہوا اور حضرت نوح ؑسے ہوتا ہوا حضرت عیسیٰ ؑعلیہ
السلام تک پہنچااور رسول اکرم ؐ پر آکر ختم ہوا۔ تمام پیغمبر ایک ہی دعوت
دیتے تھے جسے قرآن حکیم نے سورہ التین کی ابتدائی آیات میں بہت خوبصورتی ہے
بیان کیا ہیکہ جو صدائیحق حضرت موسیٰ ؑنے کو طور سے بلندکی اور جسے کوہ
زیتون سے حضرت عیسیٰ ؑنے دہرایا وہی پیام حق شہر مکہ سے پیغمبر آخر الزمانؐ
نے دنیا والوں کودیا۔ حضرت عیسیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا ہے کہ میں تمھاری
ایسی تربیت کروں گاجس سے تمہارے اندر زندگی کی تازگی اور توانائی پیدا ہو
جائے گی۔ جس سے تمہیں دنیا میں بلندیاں نصیب ہو جائیں گی(3: 49)۔ میں تمہیں
ایسی نئی زندگی عطا کروں گا جس سے تم اپنی موجودہ خاک نشینی کی پستی سے
ابھر کر فضا میں اڑنے کے قابل ہو جاؤ گے۔ میں تم میں ایسی روح پھونکوں گا
جس سے تمہیں قانون خداوندی کی رو سے، بے انتہا بلندیاں نصیب ہو جائیں گی۔
اقبال کے الفاظ میں۔
اگر یک قطرہ خوں داری اگر مشت پرے داری بیا من باتو آموزم طریق شاہبازی را
حضرت عیسیٰ کا عبرانی نام یسوع جس کا معنی سردار، عیسیٰ بھی اسی سے نکلا ہے۔
یونانی نامJesus مسیح ان کا لقب ہے جس کا مطلب نجات دہندہ ہے اور یونانی
لفظ کرائسٹ اس کا مترادف ہے۔ قرآں حکیم نے عیسیٰ، مسیح اور ابن مریم کے
ناموں سے مخاطب کیا ہے۔ آپ کی زندگی کے بارے میں تفصیلات آپ کے چار حواریوں
کی کتابوں (Gospels) متی، مرقس، لوقا اور یوحنا میں ملتی ہیں۔ اْن کے بارے
میں مزید تفصیلات قدیم غیر مسیحی مورخین مثلاً یہودی مورخ Jose Phus
Flavius اور رومی مورخین فین تیسی تس، پلینی اور سوئے تونیس کی کتابوں میں
ملتی ہیں۔ آن کے مطابق آپ کی پیدائش جنوبی فلسطین میں بیت اللحم کے مقام پر
حضرت مریم کے ہاں ہوئی۔ مسیحی انہیں خدا کا بیٹا کہتے ہیں لیکن قرآن حکیم
میں ہے کہ اے اہل کتاب مبالغہ نہ کرو اور حق بات کرو۔ بے شک عیسیٰ ابن مریم
تو اﷲ کے رسول ہیں۔ حضرت مریم نے یہودی معاشرہ میں رہبانیت اور خانقاہیت کے
نظام میں انقلاب پیدا کیا۔ قرآن حکیم نے حضرت عیسیٰ ؑ اور ان کی والدہ حضرت
مریم ؑ کا اصل مقام و مرتبہ واضع کرتے ہوئے اُن کے بارے لگائے گئے تمام
الزامات کو رد کیا۔
25دسمبر کو حضرت عیسیٰ پیدائش کی مناسبت سے کرسمس منائی جاتی ہے لیکن قرآن
حکیم کی سورہ مریم اور بائیبل میں آپ کی پیدائش کے بارے میں جو بیان ہوا ہے
اْن سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت موسم گرما کے بعد ہوئی جب کھجوریں پک
کر تیار ہوجاتی ہے۔ ختم المرسلین کی ولادت باسعات موسم بہار میں ہوئی۔ تیس
سال کی عمر میں حضرت عیسیٰ پر انجیل نازل ہوئی اور وہ اپنے بارہ حواریوں (شاگردوں)
کے ساتھ فلسطین میں گھوم پھر کر یہودیوں کو دین حق کی طرف بلاتے رہے۔ کفار
مکہ نے رسول اکرم اور آپ کے صحابہ پر مظالم کے پہاڑ توڑے۔مشرکین مکہ نے
حضرت یاسر ؓ اور حضرت سمیعہ ؓ کو شہید کردیا۔جب حالات کی سنگینی شدت اختیار
کر گء تو اﷲ کے حکم سے آپ مکہ دے مدینہ ہجرت کرگئے۔ حضرت عیسیٰ کی بھی شدت
سے مخالفت کی گئی اور مذہبی پیشوائیت نے آپ پر کفر کا مقدمہ چلایا اور پھر
رومی گورنر نے سزائے موت کا حکم سنایا۔ عیسائیت کے مطابق آپ مصلوب ہوئے
لیکن بعد میں جی اٹھے جبکہ قرآن حکیم کے مطابق نہ آپ قتل کیے گئے اور نہ
سولی چڑھائے گئے۔ دشمنوں نے آپ کی مشابہت میں دھوکے کسی اور شخص کو مصلوب
کردیا۔
حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ وہ ہستیہیں جو ظہور دعائے خلیلؑ، ، تمنّائے کلیم ؑ اور
نویدِ مسیحا ؑ ہیں۔ حسن اتفاق سے دونوں رسولوں کی ولادت تقریبات ایک ہی ماہ
میں منعقد ہورہی ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ میلاد مسیح و مصطفےٰ کی اس دوہری خوشی
کو عقیدت و محبت اور اس عزم کے ساتھ منائیں کہ اپنی زندگی کو اْن کی
تعلیمات کی روشنی میں بسر کریں قرآن حکیم کی سورہ مائدہ کی آیت 114 میں ہے
حضرت عیسیٰ نے عرض کی اے ہمارے رب آسمان سے ہمارے لیے نعمت نازل فرما اور
وہ ہمارے لیے عید کا دن ہو۔ رسول اکرم ﷺ کی تشریف لانا باعث خوشی ہے جس کی
بشارت حضرت عیسیٰ ؑ نے دی ( 61/6)۔ رب کریم نے حضورؐ کی بعث کو مومنین پر
احسان قرار دیا (3/164)، حضورﷺ کوبہت بڑی نعمت قرار دیا ہے۔ نعمت ملنے پر
اس کا چرچا کرو (93/11) یہ حکم بھی دیا کہ نعمت ملنے پر شکر ادا کرنا
چاہیے(16/114)۔ سورہ یونس کی آیت 59میں فرمایا کہ قرآن ملنے پر جشن مسرت
مناؤ۔ قرآن کو صاحب قرآن سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ آپ مجسم قرآن
ہیں۔ اسی لیے عاشقان مصطفےٰ آپ کی دنیا میں تشریف آوری پر رب کا شکر بھی
ادا کرتے ہیں اور عید میلاد النبی بھی بھر اندازمیں مناتے ہیں۔ خود خالقِ
کائنات رسول اکرم ؐ کی یوں تعریف کررہاہے کہ یقینًا آپ اِنسانی اخلاق کی
اِنتہائی بلندیوں پر ہیں۔اور اِنسانیت کے بلند ترین مقام پر فائز ہیں۔
انسانیت کی معراجِ کْبرٰی اور شرفِ اعلیٰ کا یہی وہ مقام ہے جِس کے پیشِ
نظر اﷲ اور اْس کے فرشتے اْس ذاتِ گرامی پر ہزار تحسین و تبریک کے پھْول
نِچھاور کرتے ہیں اور ہمیں بھی یہ کرنے کا حکم ہے ۔ ایک روایت ہے رسول اﷲ ؐ
نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک مجھے پوری
دنیا کے انسانوں سے زیادہ محبت نہ کرے۔ عربی کا مقولہ ہے جو جس سے پیار
کرتا ہے اُس کا کثرت سے ذکر کرتا ہے۔اسی محبت کا تقاضا ہے کہ ہمیں ایسی
محافل ضرور منعقد کرنی چاہیے جہاں رسول پاک ﷺ پر درود سلام کے نذرانے پیش
کیے جائیں اور قرآن کا درس دیا جائے۔ اپنے کرادر کو رسول اﷲ ؐ کے اسوہ حسنہ
کے مطابق ڈھالیں اور قرآن کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائیں یہی درود
سلامپیش کرنے کا حقیقی انداز ہے۔ ایسے کاموں اور سرگرمیوں سے اجتناب کرنا
چاہیے جو قرآن حکیم کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ کے منافی ہوں۔میلاد البنی ؐ
مناناکسی طور پر بھی اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں، اس کی تفصیل کسی اگلے
کالم میں پیش کروں گا۔حضرت عیسیٰ ؑ اور رسول پاکﷺ ،دونوں نے توحید،
امن،انسان دوستی، عالمگیر بھائی چارہ ، حلم ، برداشت اور محبت کا درس دیا
جسے دونوں مذاہب کے پیروکاروں کو اپنا کر اپنے رسول سے محبت کا عملی ثبوت
دینا چاہیے۔ |