سعودی عرب میں اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کے لٹریچرپر پابندی !

 سعودی عربیہ نے عالم اسلام کے بعض معتبر ترین علماء علامہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ،امام حسن البنا شہیدؒ ،مفسر قرآن سید قطب شہیدؒ،جسٹس عبدالقادر عودہ شہیدؒ،شیخ مصطفیٰ السباعی ؒ،شیخ انور الجندیؒ اور ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے خون جگر سے تیار کردہ لٹریچرپر پابندی لگا کر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے ۔یہ فیصلہ عالم اسلام میں بڑھتی ہوئی ’’انتہا پسندی‘‘کے پیش نظر لیا گیا ایک عاجلانہ فیصلہ نظر آتا ہے ۔سعودی بادشاہت ملک کے اندر نوجوانوں میں بڑھتی ہو ئی بے چینی کو دیکھتے ہو ئے اس طرح کے فیصلے لے رہی ہے ۔سعودی نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد داعش سے متاثر ہو کر عراق اور شام پہنچ کران میں شامل ہو چکی ہے ۔پھر داخلی سطح پر بھی کئی ایسے گروہوں کی سرگرمیوں کا بھی پتہ چلا جو سعودی عرب میں بیٹھ کر حکومت کے خلاف محاذ کھولنے کی کوششوں میں مصروف تھے ۔صورتحال برابر گمبھیر نظر آتی ہے ۔مسائل مسلسل بڑھ رہے ہیں ۔بے چینی میں روز انہ اضافہ ہو تا جارہا ہے ۔عالمی بد معاشوں کی مخفی جنگ اب بے نقاب ہو چکی ہے۔ابتدا ء میں بہار عرب، پھر ڈکٹیٹروں کے خلاف غم و غصہ ،مشکوک اور عارضی تبدیلی ،بلا آخر اخوان المسلمون کا قتل عام اور پھر وہی پرانا راگ،گویا اصول نہیں ہاتھ اور چہرے بدلے ۔حاصل ِ جدوجہدصرف پیچیدہ اور المناک صورتحال جس میں اُمت مسلمہ کو خسارے کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں لگا ۔

سعودی عربیہ ہی نہیں ساری عرب دُنیا اضطراب اور خوف کی حالت میں جی رہی ہے ۔اس ہنگامی صورتحال نے عقلمندوں کے ہوش اڑا لئے ہیں ۔عارضی اور وقتی بچاؤ کے خام اور ناقص نسخوں پر عمل کیا جاتا ہے بلکہ بسااوقات حماقتوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے ۔سعودی عربیہ کا چند مصنفین کی کتابوں پر پابندی کافیصلہ اس ’’سلسلہ وار حماقت‘‘کی ایک کڑی ہے جو اس نے تیونس اور مصر میں اخوان المسلمون کے برسراقتدار آنے سے پہلے لے لیا تھا کہ’’اخوان کو ہر حال میں اقتدار میں آنے سے روکنا ہے اور اس کی جڑ کاٹنی ہے‘‘معاملہ الٹ گیا ، یہ فیصلہ سعودی عربیہ ہی نہیں ساری عرب دنیا کے گلے کا’’ شرمناک ہار‘‘بن گیا ۔انھوں نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ بازی الٹ جائے گی اور اس کے نتیجے میں ایسا خون خرابہ ہوگا کہ تمام گذشتہ ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے ،نہ ہی انہیں خواب میں بھی ’’داعش کا خوفناک ‘‘چہرے دیکھنے کو ملا تھا ۔ وہ بادشاہوں کے انداز میں یہ سمجھتے رہے کہ مصر میں اخوان کو ختم کرنے کے بعد دوسرے ممالک میں خوف میں مبتلا کرتے ہو ئے انھیں محدود اور منجمد کردیا جائے گا ۔اخوان المسلمون کا مسلکی اور فکری تعلق داعش سے تو نہیں ہے مگر اخوان کے خون ،عزت و عفت اور مال و جان سے کھیلنے والے عربوں پر اﷲ تعالیٰ نے داعش کو ایک عذاب کی شکل میں نازل کردیا جو انہی کے’’مسلک و فکر اورزبان و اصطلاحات ‘‘ میں بات کرتے ہو ئے اپنے خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت نہ کرنے والے مسلمانوں کوگمراہ تصور کرتی ہے ۔اور عجب یہ کہ جن حضرات نے اس کھیل کو بباطن انجام دیا ہے وہ اکثر عربی ہیں یا مغربی ؟
کتاب بلا شبہ ایسی مؤثر چیز ہوتی ہے جس سے لوگوں کے ذہنی حالات،تصورات ،افکار اور عقائد پر فرق پڑتا ہے ۔ہر اس کتاب سے مسلمان کو بچانا علماء اور حکمرانوں کا حق ہے جو عوام کو گمراہی کے راستے پر ڈال سکتی ہے مگر اس کا فیصلہ کرنے کا مجاز کون ہے ؟مسلکی اور تنظیمی تعصب میں مبتلا اشخاص یا وہ معتدل مزاج لوگ جو ہر مسئلے کی تہہ تک جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور پھر وہ کتابی مواد کے سلسلے میں یہ بھی سمجھ رکھتے ہوں کہ کس کی کون سی کتاب کس قدر غلط یا صحیح رُخ پر ڈال سکتی ہے۔وہ یہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں کہ نوجوانوں کی ذہنی تبدیلی میں لٹریچر کے سوا دوسرے محرکات اور عوامل شامل تو نہیں ؟سعودی عربیہ کا یہ تازہ فیصلہ ’’مرحوم شاہ عبداﷲ‘‘کی پالیسی کی باقیات کا حصہ نظر آتا ہے جس کے تحت اخوان کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لئے دولت پانی کی طرح بہائی گئی!پھر اخوان کے قتلِ عام میں ’’فرعونِ مصر جنرل سیسی‘‘کو سپورٹ فراہم کیا گیا !اس کے بعد اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دیکر شرمناک طریقے سے سیکولروں اور لبرلوں کو تعاون دیا گیا اور اب اس کے لٹریچر پر پابندی لگا کر اس ناسور کو مزید وسعت دیدی گئی ۔سعودی حکومت کاتازہ فیصلہ یہ ہے کہ مصر کی معیشت میں جان ڈالنے کے لئے وہ اگلے پانچ برس تک تیل فراہم کرے گااور سرمایہ کاری کا حجم بڑھا کر تیس ارب ریال کرے گا۔

عالم عرب کی ابتدا سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح ’’داعش‘‘ کو اخوان المسلمون کا ردعمل قرار دیکر اس کا صفایا کرنے کا مؤثر ہتھیار ہاتھ میں آجائے تاکہ قتل عام پر دوسرے ممالک شور شرابا برپا نہ کریں۔مگر یہ کوشش داعش کے اخوان کے خلاف فتوؤں اور تقریروں نے ناکام بنا دی اور مغرب یہ جان گیا کہ عربوں کا یہ پروپیگنڈا وہی پرانا جھوٹ کا پلندہ جو شاہ فاروق کے بعد کرنل ناصراور حسنِ مبارک نے دہائیوں تک جاری رکھتے ہو ئے اخوان کی ذہین قیادت کو پھانسیوں پر چڑھا دیا۔عالم عربی پر قابض برسرِ اقتدار طبقہ’’ غنڈوں اور بدمعاشوں کا وہ طبقہ ہے‘‘ جو اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے ۔اقتدار کے خاطر یہ حضرات کسی بھی عالم اورمفتی حتیٰ کہ بچہ ،جوان اور بوڑھے کو قتل کر سکتے ہیں ۔جہاں تک تازہ فیصلے کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں یہ اپنی ذات انتہائی افسوسناک فیصلہ ہے ۔جن علماء کی کتابوں پر پابندی لگا دی گئی ہے اخوان المسلمون کے قتلِ عام سے قبل یہی علماء سعودی علماء ،حکمرانوں اور دانشوروں کے نزدیک معتبر خیال کئے جاتے تھے ،جو اختلافات سعودی سلفی علماء کو ان حضرات کے ساتھ تھے وہ صرف علمی اور فکری نوعیت کے تھے ۔سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ہی لے لیجیے سعودی حکمرانوں اور علماء نے ہمیشہ انھیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔جب مسئلہ ختم نبوتﷺ پر سید مودودیؒ کو پاکستان کی ایک عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تواس فیصلے کی حکومتی سطح پر سب سے زیادہ مخالفت سعودی عربیہ نے کی،مولاناؒ کئی مرتبہ حرمین کی زیارت کے لئے سعودی عربیہ کاسفر بھی کر چکے ہیں اورہر موقع پر یہاں کے علماء نے ان کا والہانہ استقبال کیا ہے ۔ جب حکومت سعودی عربیہ نے’’دینی خدمات کے پسِ منظر ‘‘میں دنیا کے مختلف ممالک میں رہ رہے علماء کوشاہ فیصل ایوارڈ کے ذریعے حوصلہ افزائی کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کی پہلی نگاہ سید مودودیؒپر پڑی ۔اس وقت دشواری یہ تھی کہ یہ ایوارڈ انتہایہ غیر معروف اور غیر مقبول تھا اور اس کا بھی قوی امکان تھا کہ سید مودودیؒ قبول نہیں کریں گے تو انھیں ایوارڈ لینے کی دعوت کے وقت یہ بتا دیا گیا ’’جناب محترم گرچہ ایوارڈ بہت حقیر اور آپ کی خدماتِ جلیلہ بہت بلند ہیں مگر ہم آپ کے ذریعے ایوارڈ کو اعزاز بخشنا چاہتے ہیں ۔مولاناؒ سعودی عرب کی خدمات سے واقف تھے لہذا بلا چون چرا لینے کی حامی بھر لی ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مولانا ؒ کے حوالے سے فیصلہ وہ درست تھا یا یہ؟

اخوان المسلمون کو جب مصر میں عتاب و عذاب میں مبتلا کیا گیا تو سعودی عربیہ سمیت کئی عرب ممالک نے شاہ فاروق،کرنل ناصر کے بعد حسنِ مبارک کی جارحانہ پالیسی کی شدید مخالفت کی ۔اخوان کو پھانسیوں پر چڑھانے ،لا پتہ کرنے ،عمر قید دیکر جیلوں میں تڑپانے کی روح فرسا داستانیں جب باہر کی دنیا کو معلوم ہو گئی تو سعودی عربیہ سمیت کئی ممالک نے اس کی شدید مخالفت کرتے ہو ئے اخوان کے لئے اپنے ممالک کے دروازے کھولدیئے ۔سید قطب شہیدؒ کے بھائی پروفیسر محمد قطبؒ کو حکومت سعودیہ نے نہ صرف پناہ دیدی بلکہ ان کو کتابیں شائع کرنے کی اجازت بھی دیدی ۔پھر انھیں اپنی یونیورسٹیوں میں ملازمت بھی فراہم کیں پھر آگے بڑھکر انھیں بھی شاہ فیصل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔

دیگر عرب ممالک نے بھی سعودی عربیہ کی تقلید شروع کی جن میں قطر ،کویت ،بحرین اور متحدہ عرب امارات وغیرہ قابلِ ذکر ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچانک یہ سب کچھ کیوں ہو گیا؟

اس میں دو رائے نہیں کہ اخوان اور جماعت اسلامی کے سیاسی تصورات میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے ۔فرق بس اتنا ہے کہ جماعت اسلامی کے بانی کا لٹریچراردو میں جبکہ اخوان کا عربی میں لکھا گیا ۔اخوان کے مصنفین اور سید مودودیؒ کے ساتھ سلفی علماء کو چند ایک باتوں میں اختلاف بھی ہے مگر یہ سب 2015ء میں ہی ظاہر کیوں ہوا ۔یہ سبھی کتابیں عرب ممالک کی لاکھوں لائبریریوں میں موجود ہیں اور سارا لٹریچر انٹرنیٹ پر دستیاب ہے ۔آج تک اس لٹریچر میں انتہا پسندی نظر کیوں نہیں آتی تھی ؟اس لٹریچر نے آج تک کسی دہشت گرد کو تیار نہیں کیا؟ نہ ہی اس لٹریچر کا مطالعہ کرنے والوں نے بغاوتوں میں حصہ لیا ؟پھر پابندی کیوں ؟ان سطور کو پڑھتے ہوئے کسی کو مغالطہ نہ ہو ،دہشت گرد اور مجاہد کا فرق کو ذہن میں رکھیئے تو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ اخوانی اور جماعتی لٹریچر دہشت گردوں کے برعکس مجاہدین تیار کرتا ہے۔ بدقسمتی سے امت مسلمہ کمزور ہے وہ آج عربوں کی طرح ایک فرد کو مجاہد قرار دیتی ہے مگر ٹھیک چند برس بعد مغرب ’’من پسند ذائقہ تبدیل کرتے ہو ئے‘‘جب انہی مجاہدین کو دہشت گرد کہتا ہے تو عرب دنیا کو انھیں دہشت گرد قرار دینے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ہے ۔

جماعت اسلامی برصغیر ہندوپاک میں جبکہ اخوان المسلمون ساری عرب دنیا میں چل رہی مضبوط اور مستحکم تحریکیں ہیں ۔جماعت اسلامی ہندوستان ،پاکستان ،کشمیر اور بنگلہ دیش میں سرگرم ہے چاروں میں سے ایک بھی جگہ اس نے بغاوت نہیں کی ۔جماعت اسلامی پاکستان میں مضبوط ہے برعکس اس کے کشمیر اوربنگلہ دیش ہر دم زیر عتاب ۔بھارت میں چونکہ ساری مسلم آبادی ’’سچر کمیٹی کی رپورٹ کے آئینے میں‘‘بدترین مظلومیت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کے لٹریچر سے بغاوت کی بو سعودی عربیہ کو ہی کیوں آنے لگتی ہے ۔کشمیر میں جماعت اسلامی واحد دینی جماعت ہے جس کے کارکنان کو مسئلہ کشمیر کے پسِ منظر میں سب سے زیادہ اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا ۔1990ء سے 2002ء تک اس کے کارکنان کو چن چن کر بالکل اسی انداز میں قتل کیا گیا جس انداز میں مصر میں اخوان کا قتل عام کیا گیا فرق اتنا ضرور رہا کہ مصر میں قتلِ عام کی لہر ایک ہفتے تک جوبن پر رہی برعکس اس کے جماعت اسلامی کشمیر کے خلاف یہی لہر پورے بارہ برس تک برابر جاری رہی ۔بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے لیڈران کو جس بے دریغ انداز میں پھانسیوں پر چڑھایا جا رہا ہے سے ان کی مظلومیت کا اندازہ ہر متنفس بخوبی لگا سکتا ہے ۔کیا اسے زیادہ صبرکااظہار سیکولر اور لبرل یا قوم پرست حضرات کر سکتے ہیں تو پھر بغاوت کس چڑیا کا نام ہے جس پر جماعت اسلامی لٹریچر لوگوں کو ابھارتا ہے!؟

اب جہاں تک اخوانی لٹریچر کا سوال ہے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ 2011ء میں بہار عرب کے بعد اخوان کو تیونس اور پھر مصرمیں ’’اپنی پوری تنظیمی حیات کی عمر کے حساب سے‘‘صرف ایک برس حکومت کرنے کا موقع ملا وہ بھی پورے 87برس بعد اور عوام کے بھاری ووٹ اور سپورٹ سے ،ورنہ اسے پہلے اور بعدمیں اخوان ہر دور میں ’’مظلوم‘‘رہی تو پھر باغیانہ تصورات کے لٹریچر کا الزام کیوں؟جنرل سیسی پر کیوں نہیں جو اخوان کے برعکس یونیورسٹی لٹریچر پر پلا بڑھا؟بشارالاسد پر کیوں نہیں جس کو عوام قبول؛ کرنے پر تیار نہیں تو ضدوعداوت میں وہ انکا بے دریغ قتلِ عام کرتا ہے اور بشار بھی کوئی اخوانی نہیں ہے ۔صدام،قذافی،زین العابدین اور انہی قبیل کے دوسرے سینکڑوں حکمرانوں نے جس بے دردی کے مسلمانوں کا خون سڑکوں پر بہایا کو کس لٹریچر نے تیار کیا تھا ؟پھر اسے بھی بڑھکر یہ کہ خود سعودی عربیہ کے خلاف نہ ہی جماعت اسلامی اور نہ ہی اخوان المسلمون نے کبھی بغاوت کی تو لٹریچر پر پابندی کا کیا جواز ؟کیا سعودی عربیہ کے بعد یہی جواز دوسرے مسلم ممالک کو نہیں مل رہا ہے ؟کیا’’ بنگلہ دیش کی مجنونہ حاکمہ ‘‘کو جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر مظالم ڈھانے کا جواز نہیں مل رہا ؟کیااس کو بنیاد بنا کر بھارت کی ’’ہندتوا علمبردار مودی حکومت‘‘ جماعت اسلامی پر کشمیر اور بھارت میں پابندی نہیں لگا سکتی ہے ؟ عالمی سطح پر مغرب کواس لٹریچر پر پابندی لگانے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا ۔کیا ان سبھی اشکالات پر غور کر کے سعودی عربیہ نے لٹریچر پر پابندی لگائی ہے؟ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ معاملہ اخوان کے برعکس ’’داعش‘‘کی بڑھتی ہوئی قوت سے ہے تو ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ داعش کس لٹریچر سے تیار ہوئی جماعت اسلامی ،اخوان ،دیوبند،بریلوی ،صوفی یا سلفی لٹریچر سے ؟ہم پوچھناچاہتے ہیں کہ ان مقامات کی نشاندہی کی جائے جہاں جہاں اخوان ، جماعت اسلامی اور دیگرمسلم مفکرین نے مسلمان کو ’’مسلکی اختلافات‘‘کی بنیاد پر قتل کرنے کا فتویٰ دیا ہو؟ ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہمیں بتا دیا جائے کہ کس لٹریچر میں مزارات کو بلڈوزروں اور دھماکوں سے اڑانے کی کھلی یا چھپی حمایت کی گئی ہو؟بے نقاب کیا جائے ان ’’مجرم علماء ‘‘کو چاہیے وہ جو بھی ہوں جن کی کتابوں میں مسلمان عورتوں کو لونڈیاں بنانے کی اجازت ہو؟ہمیں بتا دیا جائے کہ کس لٹریچر میں یہ شرمناک فتوے موجود ہیں کہ جہاں مسلمان کا مال و جان حلال ہوتا ہو ؟

اصل میں مجرم ہم ہیں جنہوں نے خاموشی اختیار کی ’’اتحاد ملت ‘‘کے ڈھکوسلوں کی آڑ میں ! اصل میں غلط ہم ہیں جنہوں نے ’’اتحاد اُمت‘‘ کے حسین نعروں میں اپنے ضمیر کو خاموش رکھا! اصل مجرم ہم ہیں جنہوں نے وقت وقت پر دوسروں کی تنقید پر انھیں ’’رُخنہ اندازملزم‘‘بنا کر پیش کردیا ! گناہگار ہم ہیں جنہوں نے ناقدین کی زبانیں کاٹ ڈالیں !کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ سعودی عربیہ کا اندرونی معاملہ ہے اور یہ ان کی سیاسی رائے ،جیسا کہ ہر ظلم کے موقع پر چند زر خرید حضرات ظالم کو کوسنے کے برعکس مظلومین کو ہی کوسنے لگتے ہیں تو ہم عرض گزار ہیں کہ یہ سعودی عربیہ بنگلہ دیش یا مصر نہیں بلکہ یہ عالم اسلام کا دینی اور مذہبی مرکز ہے ۔دنیا کے مسلمانوں کا ان سے متاثر ہونا ایک فطری امر ہے ۔یہاں کا ہر اچھا یا غلط قدم عالم اسلام ہی نہیں بلکہ ساری دنیا پر اپنا اثر چھوڑتا ہے ۔ سعودی عربیہ کوکسی خاص مسلک یا فرقے کے برعکس سارے مسلمانوں کا ترجمان ہونا چاہیے ۔اﷲ تعالیٰ نے اس مبارک سرزمین کو جس نعمت عظمیٰ سے نوازا ہے کا خیال کرتے ہو ئے انھیں تنگ نظری کے برعکس وسعت قلبی کا مظاہرا کرنا چاہیے تھا مگر المیہ یہ کہ وہ ’’مسلک نہیں دین‘‘کے ظاہری نعروں کے باوصف ایک مخصوص فکر اور مسلک کی ہی آبیاری کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔پھر اخوان اور جماعت اسلامی کے لٹریچر پر پابندی کے ساتھ ساتھ انھیں اپنے حضرات کی کتابوں پر بھی ایک نگاہ ڈالنی چاہیے تھی اس لئے کہ داعش اخوانی یا جماعت نہیں ہیں بلکہ وہ جن کتابوں ،مراجعوں اور مآخذ کا حوالہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں مسلسل دیتے آرہے ہیں وہ سبھی آپ کے اپنے ہیں ۔کیا کبھی آپ ایسے ’’درست اور متناسب حوصلے‘‘سے کام لیکر ان کتابوں پر بھی پابندی لگا دیں گے جنہوں نے داعش میں ایسی شدت اوروحشت پیدا کر دی ہے ؟یا صرف اپنے فکری اور مسلکی مخالفین کو ہی اس مہم کی آڑ میں بھی نشانہ بناتے رہیں گے جن کا داعش کی فکری اور ذہنی ساخت میں ایک فیصد بھی حصہ نہیں ہے ۔
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 84157 views writer
journalist
political analyst
.. View More