سینیٹر شاہی سید کے ناتواں کاندھے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی

ملک میں جمہوریت پروان چڑھ رہی ہے اور ایک دوسرے کو نوازنے کا کلچر دن بدن اپنی جڑیں مزید مضبوط کر رہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کیمیونیکشن کا چیئرپرسن ایک ایسے شخض کوبنایا گیا ہے کہ جس کو شاید کمپیوٹر کا استعمال بھی ٹھیک طور پر نہ آتا ہو۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر شاہی سید کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں اور ان کے افکار اور علمی رجحانات سے بھی کسی حد تک واقف ہوں لیکن یہ جان کر شاید ایک عام بھی حیران رہ جائے گا کہ شاہی سید کو ایک ایسے کام پر لگایا گیا ہے کہ جس سے نہ تو ان کی کوئی واقفیت ہے اور نہ ہی دلچسپی۔سینٹ کی کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انیڈ ٹیلی کیمیونیکیشن کے چیئرمین سمیت 13 ارکان ہیں جن میں سینیٹر عثمان شفیع اﷲ (پی پی پی)، سینیٹر مفتی عبدالستار(جے یو آئی ، ایف)، سینیٹر نسیم احسان (بلوچستان نیشنل پارٹی)، سینیٹرکریم احمد خواجہ( پی پی پی)، سینیٹر روبینہ خالد(پی پی پی)، سینیٹرگیان چند(پی پی پی)، سینیٹررحمن ملک (پی پی پی)، تاج محمد آفریدی(آزاد)، غوث محمد خان (ن لیگ)، نجمہ حمید(ن لیگ)، شبلی فراز( تحریک انصاف)شامل ہیں۔شاہی سید کے علاوہ جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھنے والے مفتی عبدالستار اور ایک آزاد امید وار تاج محمد آفریدی کوبھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے معاملات پر نظر رکھنے کی ذمہ داری دی گئی ہے جو بہت زیادہ حیران کن ہے۔ سینٹ میں چونکہ پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے لہذا کمیٹی میں پانچ سینیٹرز پاکستان پیپلز پارٹی کے ہیں جبکہ ن لیگ کے دو سینیٹرز کمیٹی میں شامل ہیں جبکہ باقی جماعتوں کی نمائندگی ایک ایک سینیٹر نے کی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کو اس اہم ترین کمیٹی میں کوئی نمائندگی نہیں دی گئی۔ کمیٹی کے ساخت کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پیپلز پارٹی کی نظر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسی اہم ترین وزارت کی کیا اہمیت ہے۔ کمیٹی کی ساخت کو دیکھ کر ہمیں اپنی بڑی سیاسی جماعت کی ترجیحات کا بھی اندازہ کر لینا چاہیے۔ دوسری طرف وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمن اگرچہ اپنے کام کی ماہر سمجھی جاتی ہیں اور انھوں نے اگلے روز اقوام متحدہ سے ایوارڈ بھی حاصل کیا ہے لیکن ان کے کام پر نظر رکھنے کے لئے سینٹ آف پاکستان نے ایسے سینیٹر زکا انتخاب کیا ہے کہ جو اتنی بڑی ذمہ داری اٹھانے کے لئے غیر موضوع نظر آتے ہیں اور اگر چند سنیٹرز اس کا م کے لئے قدرے بہتر بھی ہیں تو ان کی ترجیحات کا مرکز کچھ اور ہے لہذا کمیٹی کے اجلاس میں ان سنیٹرز کا ’’ان پٹ‘‘ بھی واجبی سا ہوتا ہے۔جہان تک شاہی سید، مفتی عبدالستار اور تاج محمد آفریدی کا تعلق ہے تو یہ حقیقت ہے کہ ان کی تعلیمی قابلیت انھیں قطعئی طور پر اتنی بڑی ذمہ داری اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی لیکن اس کے باوجود سیاسی جوڑ توڑ کیلئے یا شاید خانہ پری کیلئے ان شریف لوگوں کو یہ کام سونپ دیا گیاہے۔ اب اگر انوشہ رحمن کا کوئی ایسا فیصلہ کہ جس کی وجہ سے ملک میں انفامیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ ترقی پانے کے بجائے متاثر ہو تو کم سے کم انھیں سینٹ کی طرف سے تو کوئی پریشانی نہیں کیونکہ نہ تو یہاں سے کوئی اعتراض اٹھایا جائے گا اور نہ ہی کمیٹی کے زیادہ تر ارکارن کی سمجھ میں آئے گا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا چاہیے۔ دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ غلبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہی ہے اور ساری دنیا اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ ترقی کرنے کی منصوبہ بندی کر ہی ہے ۔ لیکن ہمارے ملک میں گنگا اب تک الٹی بہہ رہی ہے اور آج بھی اس اہم ترین شعبے کو سب سے کم اہمیت دی جا رہی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس بات کا اندازہ محض سینٹ میں اس وزارت کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرپرسن اور زیادہ تر اراکین کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں سائبر کرائم بل ملک میں بڑا موضوع بحث بنا رہا اور شاید اب بھی ہے لیکن اس بل کے حوالے سے کسی قسم کا منفی یا مثبت آؤٹ پٹ محترم جناب شاہی سید یا ان کی کمیٹی کے بیشتر ارکان کی طرف سے دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا۔ بات تو ٹھیک ہے کہ جب معصوم اور شریف لوگوں سے نا معقول اور ان کے حساب سے غیر مہذب کام لیا جائے گا تو ایسا تو ہو گا۔یہاں یہ بات بڑی اہم ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی سینٹ میں اکثریت رکھتی ہے اور سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی صاحب بھی پی پی پی سے ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی تاریخ کے کمزور اور نازک ترین دور سے گزر رہی ہے ۔ ایسی صورت میں اسے اپنی تمام تر پالیسوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور خاص طور پر ان معاملات پر کہ جن کا تعلق ملک و قوم کے مستقبل اور جدید دور کے تقاضوں سے ہو۔ اگر آج کے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسی اہم ترین وزارت کی کوئی اہمیت نہیں اور پھر اسے آنے والے وقت میں مزید پستی کی طرف جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
Riaz Ajiz
About the Author: Riaz Ajiz Read More Articles by Riaz Ajiz: 27 Articles with 19927 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.