کیجروال کی آفس پر چھاپہ ماری کہیں شخصی تو نہیں

جب سے دہلی میں عام آدمی پارٹی برسراقتدار آئی ہے تب سے دہلی اور مرکز میں اختیارات کی رساکشی نہ تھمنے کا نام لے رہی ہے۔ دہلی اور بہار میں شکست فاش کے بعد بی جے پی ہر چھوٹے بڑے مسائل میں عام آدمی پارٹی کو گھیرنے سے نہیں چوکتی۔ ابھی حال ہی میں مرکز کے زیر نگیں محکمہ ریلوے کی انہدامی کاروائی میں ایک معصوم کی موت کا ذمہ عام آدمی پارٹی کے سر تھوپنا بی جے پی کی بوکھلاہٹ کو واضح کرتی ہے۔ دہلی سرکار کو ایک طرف تو جن لوک پال کو لے کر کانگریس اور دیگر جماعتوں کی مخالفتوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف دہلی میں ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے طاق وجفت کے فارمولے پر اسے بی جے پی اور اس کی ہمنوا پارٹیوں کی تنقیدوں کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے۔ اب اس جلے پر تیل چھڑکنے کا کام مرکز کے ماتحت تفتیشی ادارے سی بی آئی نے کر دکھایا ہے۔ ہوا یوں کہ15 دسمبر صبح 9 بجے کے قریب دہلی سیکریٹریٹ کے چیف سیکریٹری راجیندر کمار کی چھان بین کے بہانے دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجروال کی آفس کی فائلوں کو بھی کھنگالا گیا اور10گھنٹے کے لئے پورے فلور کو سیل بھی کر دیا گیا ۔ چیف سیکریٹری راجیند کمار1989بیچ کے آئی اے ایس آفیسر ہیں ۔ ان کے خلاف اشیش جوشی نے شکایت درج کرائی تھی۔ اشیش جوشی خود بھی دہلی ڈائیلاگ کمیشن کے رکن سیکریٹری رہے ہیں لیکن مئی میں اروند کیجریوال نے ان کو اس منصب سے بر طرف کر دیا تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود جوشی کے خلاف دہلی کے اینٹی کرپشن برانچ میں سنیل کمار لیڈیا کی طرف سے ایک شکایت درج ہے جس میں ان کے اوپر ایک مالی سال میں 12 کڑور کے ہیراپھیری کا الزام ہے ۔ یہ رقم مرکزی حکومت کی جانب سے دیہی علاقوں کی فلاح وبہبود کے لئے جاری کی گئی تھی۔ دہلی سیکریٹریت کے چیف سیکریٹری راجیند کمار پر بدعنوانی کے14 کیس درج کئے گیے ہیں۔ یہ سارے کیس مئی 2002سے فروری2015 کے درمیان کے ہیں ۔ اس وقت شیلا دکشت کی سربراہی میں کانگریس دہلی میں برسراقتدار تھی۔ راجیندر کمار 2002مئی سے فروری2004 تک ایجوکیشن کے ڈائرکٹر تھے ‘ بعد ازاں میں آئی ٹی اور صحت کے سیکریٹری نیز محکمہ ویٹ کے کمشنر بنے۔ ان پر یہ الزام ہے کہ اس دوران انھوں نے اپنے منصب کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی ایک خاص کمپنی کو بنا ٹینڈر نکالے سرکاری ٹھیکہ دیا۔ یہ بات کس حد تک درست ہے یہ تو جانچ کے بعد ہی پتا چلے گا لیکن اس ا لزام کے آڑ میں جو دہلی کے وزیر اعلی کی آفس کی فائلوں کا جائزہ لیا گیا اس سے سیاست کے میدان میں بھونچال آگیا ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں بشمول کانگریس نے اس واقعہ کی سخت مذمت کی ہے۔ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے درمیان لفظوں کی نوک جھونک جاری ہے۔ پہلے پہل تو بی جے کے سینیئر سربراہ اور ہندوستان کے وزیر مالیات ارون جیٹلی نے اس بات کا سرے سے انکار کیا کہ اروند کیجریوال کی آفس پر چھاپہ پڑا ہے۔ اروند کیجریوال نے جہاں ان کو جھوٹا کہا وہیں انتہائی سخت الفاظ میں اپنے ٹویٹر پرہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کو بزدل اور نفسیاتی مریض بھی کہہ دیا۔ بی جے پی اپنے سیاسی داو پیچ کا استعمال کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی کو گھیر نے کی کوشش کر رہی ہے اور ان پر یہ الزام عائد کر رہی ہے کہ بدعنوانی کے خلاف سب سے ذیادہ بولنے والے کیجریوال اب کیوں بدعنوانی میں ملوث بیوروکریٹ کی حمایت میں اتر آئیں ہیں جب کہ وہاں کی چھان بین کی کاروائی کورٹ سے اجازت نامہ حاصل کرنے کے بعد کی گئی ہے ۔ بی جے پی کے سربراہان اصل مدعے سے تجاہل عارفانہ برتتے ہوئے اس بات کو مدعا بنانے پر تلے ہوئے ہیں وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف نازیبا کلمات کا استعمال کیا گیا ہے اور جس کی معذرت اروند کیجریوال کو کرنی چاہیئے۔ کہیں نہ کہیں اسے شخصی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے یا یہ کہ از خود یہ شخصی ہوتا جارہا ہے۔ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال اور نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے پریس کانفرس بلا کر بی جے پی کے بے بنیاد الزاموں کا کاؤنٹر کیا۔ منیش سسودیا نے کہا کہ راجیندر کمار کو بہانہ بنا کر اروند کیجریوال کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اروند کیجریوال نے سخت تیور اپناتے ہوئے بی جے پی کی تاناشاہی پر تنقید کی اور کہا کہ اس طرح کے حربے دراصل دہلی سرکار کی کاموں میں رخنہ ڈالنے کے لئے اپنایے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں اروند کیجریوال نے جو باتیں کی ہیں اس پر اگر غور کیا جائے تو باتیں معقول نظر آتیں ہیں۔ اگر واقعی بد عنوانی کی کی تحقیق کرنی ہے اور معاملہ کی اصل نوعیت جاننی ہے تو سب سے پہلے متعلقہ اداروں سے رجوع کیا جاتا ہے۔ اگر یہاں پر معاملہ ایجوکیشن ‘ آئی ٹی اور صحت سے متعلق ہے تو وہاں کے فائلوں کی بھی جانچ پڑتال ہونی چاہیئے لیکن دہلی سیکریٹریٹ اور راجیند کمار کے گھر سمیت دہلی و یوپی کے دیگر14مقامات پر چھاپے مارے گئے لیکن چھاپہ ماری میں متعلقہ اداروں اور اس وقت کے متعلقۃ وزیروں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ سی بی آئی کے خلاف جب ہر طرف سے اس قسم کی آوازیں بلند ہونے لگیں تو شام میں آئی ٹی کے دفتر میں چھاپہ ماری کی خبر آئی۔ اروند کیجریوال کی ایک بات اور بھی چونکا دینے والی تھی۔ انھوں نے کہا کہ سی بی آئی وہاں ڈی ڈی سی اے کی فائلیں دیکھنے آئی تھی اور جس کی بنیاد پر ہندوستان کے وزیر مالیات ارون جیٹلی بھی زد میں آرہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے کچھ دستاویز میڈیا کے سامنے بھی پیش کیا جنھیں سی بی آئی نے کچھ وقتوں کے لئے ضبط کیا تھا۔ لیکن اب یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر ارون جیٹلی کے خلاف کوئی معاملہ ہے تو عام آدمی پارٹی اب تک خاموش کیوں رہی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابھی پوری طرح سے شواہد یکجا نہیں ہو سکے ہیں جیسے ہی سارے شواہد مل جاتے ہیں ویسے ہی اسے منظر عام پر لایا جائے گا۔ اس طرح سے بی جے پی بڑی مصیبت میں پھنس سکتی ہے۔ اس واقعہ کے بعد خود بی جے پی پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں کہ آخر صرف اسی معاملے میں ہی کیوں اتنی تندہی دکھائی گئی ہے جب کہ بدعنوانی کے بہت سارے معاملے زیر تحقیق ہیں اور ان پر کوئی بھی عمل در آمد نہیں کیا جارہا ہے۔ مدھیہ پردیش کا ویاپم گھوٹالے کی جانچ میں کیوں ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے جب کہ اس معاملے میں تقریبا 50 افراد کی جان جا چکی ہے ۔ اس گھوٹالے میں مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شوراج سنگھ چوہان سمیت دیگر بی جے پی کے سربراہان اور صوبے کے اعلی عہدیداران ملوث ہیں۔ چھتیس گڑھ کے چاول گھوٹالے کی تحقیق بھی ہنوز زیر غور ہے جس میں چھتیس گڑھ کے وزیر اعلی رمن سنگھ بھی ملزمان کی فہرست میں شامل ہیں۔ یہ گھوٹالہ36ہزار کڑور کا ہے۔ ان کے علاوہ راجستھان کا آئی پی ایل اور کوئلہ بلاک الاٹمنٹ گھپلوں میں بھی خاطرخواں دلچسپی نہیں دکھائی جارہی ہے جن میں راجستھان کی وزیر اعلی وسندھرا راجے سمیت بی جے پی اور کانگریس کے بڑے بڑے لیڈران شامل ہیں ۔ الغرض کی گھوٹالوں ‘ گھپلوں اور بد عنوانیوں کا ایک سلسلہ ہے جو سرد خانے میں پڑا ہوا ہے ۔ ان سب معاملات کو اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ ان کے خلاف کاروائی میں تیزی اور تندہی دکھائی جائے اور تحقیقات کو نتیجہ خیز بنایا جائے تاکہ اصل گنہ گاروں کا چہرہ سامنے آسکے۔ لے دے کر بی جے پی کی سرگرمیاں شخصی اور انتقامی ہوتی جارہی ہیں چاہے وہ کانگریس کے خلاف نیشنل ہیرالڈ کا معاملہ ہو یا عام آدمی پارٹی کے خلاف ان کے وزیر اعلی کے دفتر پر چھاپہ ماری کا واقعہ۔ اس واقعے سے سی بی آئی کی خود مختاریت پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ بی جے پی کا اگر یہی رویہ رہا تو یہ ہندوستان کی ترقی اور خود بی جے پی کی صحت کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔
Khalid Saifullah Asari
About the Author: Khalid Saifullah Asari Read More Articles by Khalid Saifullah Asari: 12 Articles with 10629 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.