بیرونی دنیا کو پاکستان اور اسلام کے بارے اپنے مائنڈ سیٹ پر نظرثانی کرنا ہوگی
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
المیہ ہے کہ شہریوں کو بلاامتیاز تعلیمی سہولت فراہم کرنے کی ریاستی آئینی ذمہ داری کسی حکومت نے پوری ہی نہیں کی بلکہ دہرے تعلیمی نظام پر مبنی مہنگی تعلیم کی فراہمی کیلئے نجی تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کی جس سے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت ناگفتہ بہ ہو گئی جبکہ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنیوالے عوام کی اکثریت اپنے بچوں کیلئے سرکاری تعلیمی اداروں کے اخراجات برداشت کرنے کی بھی سکت نہیں رکھتی چنانچہ ان طبقات کیلئے تعلیم کے علاوہ رہائش اور خوراک کی بھی مفت سہولت دینے والے دینی مدارس نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوئے اور حکومتیں بھی یہ سوچ کر مطمئن بیٹھی رہیں کہ معاشرے کے ہر فرد کو فراہمی تعلیم کی ریاستی ذمہ داری دینی مدارس ادا کررہے ہیں تو اس طرح وہ حکومت کا بوجھ بانٹ رہے ہیں۔ چنانچہ بلاروک ٹوک کام کرنیوالے دینی مدارس کو کھلی چھوٹ ملی اور انکے سرپرستوں اور معاونین کو اسکی آڑ میں دینی مدارس اور انکے طلبہ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا بھی موقع مل گیا۔ |
|
پاکستان میں قائم دینی مدارس نے فروغ تعلیم
میں نمایاں کردار ادا کیا اور معاشرے کے غریب اور بے وسیلہ طبقات کے بچوں
کیلئے مفت تعلیم‘ خوراک اور رہائش کی سہولتیں فراہم کرکے انہیں معاشرے کا
ذمہ دار شہری بنانے کا فریضہ ادا کیا تاہم ان مدارس پر کسی قسم کا چیک نہ
ہونے اور بغیر رجسٹریشن کے بھی تعلیمی مدارس قائم کرنے کے مواقع موجود ہونے
کے باعث مخصوص مفادات اور نظریات کے حامل لوگوں‘ مذہبی تنظیموں اور بعض
بیرونی ممالک تک نے اپنے اپنے نظریات کو فروغ دینے کے ایجنڈے کی تکمیل
کیلئے ان مدارس کو بھاری فنڈنگ کرکے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا چنانچہ
ہمارے معاشرے میں اسی بنیاد پر فرقہ پرستی اور شدت پسندی کو فروغ حاصل ہوا
جو بیرونی دنیا میں دین اسلام اور ہمارے ملک کے تشخص کے حوالے سے غلط تاثر
قائم کرنے پر منتج ہوا۔ 14 سال قبل امریکی نائن الیون کا واقعہ تو ہمارے
خطہ میں شدت پسندی کے خاتمہ کیلئے اقدامات اٹھانے کا محض جواز بنا جبکہ اس
سے پہلے بھی ملک میں شدت پسندی کو کنٹرول کرنے کی ضرورت موجود تھی کیونکہ
شدت پسندی کے اس رجحان سے ہی فرقہ پرستی کو بھی فروغ حاصل ہو رہا تھا جن
میں بعض غیرملکی دینی تنظیموں‘ شخصیات اور ان ممالک کی حکومتی پالیسیوں کا
بھی عمل دخل تھا۔
اصولی طور پر تو کسی چیک کے بغیر دینی مدارس قائم کرنے کی شروع دن سے ہی
اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی مگر ہمارا یہ المیہ ہے کہ شہریوں کو
بلاامتیاز تعلیمی سہولت فراہم کرنے کی ریاستی آئینی ذمہ داری کسی حکومت نے
پوری ہی نہیں کی بلکہ دہرے تعلیمی نظام پر مبنی مہنگی تعلیم کی فراہمی
کیلئے نجی تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی کی جس سے سرکاری تعلیمی اداروں کی
حالت ناگفتہ بہ ہو گئی جبکہ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنیوالے عوام کی
اکثریت اپنے بچوں کیلئے سرکاری تعلیمی اداروں کے اخراجات برداشت کرنے کی
بھی سکت نہیں رکھتی چنانچہ ان طبقات کیلئے تعلیم کے علاوہ رہائش اور خوراک
کی بھی مفت سہولت دینے والے دینی مدارس نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوئے اور
حکومتیں بھی یہ سوچ کر مطمئن بیٹھی رہیں کہ معاشرے کے ہر فرد کو فراہمی
تعلیم کی ریاستی ذمہ داری دینی مدارس ادا کررہے ہیں تو اس طرح وہ حکومت کا
بوجھ بانٹ رہے ہیں۔ چنانچہ بلاروک ٹوک کام کرنیوالے دینی مدارس کو کھلی
چھوٹ ملی اور انکے سرپرستوں اور معاونین کو اسکی آڑ میں دینی مدارس اور
انکے طلبہ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کا بھی موقع مل گیا۔ اگر حکومت
شروع دن سے ایسا انتظام کرلیتی جس سے دینی مدارس کیلئے ہونیوالی بیرونی
فنڈنگ کی سکروٹنی ہوتی رہتی‘ وہاں کی انتظامیہ اور اساتذہ کے خاندانی اور
تعلیمی پس منظر اور مذہبی نظریات کے بارے میں جامع معلومات حاصل کرلی جاتیں
اور ان مدارس میں پڑھائے جانیوالے نصاب کو دینی‘ دنیاوی اور معاشرتی تقاضوں
سے ہم آہنگ کرلیا جاتا تو کسی دینی مدرسے میں مذہبی انتہاء پسندی کو راستہ
ہی نہ ملتا۔ وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خاں نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا
کہ جب گرین بیلٹس تک پر دینی مدارس قائم ہو رہے تھے تو اس وقت کی حکومتوں
نے اسکی کیوں اجازت دیئے رکھی۔ امریکی نائن الیون کے بعد تو حکومتی
کمزوریوں کے نتیجہ میں مخصوص ایجنڈے اور مفادات کی حامل غیرملکی این جی اوز
کو بھی پاکستان میں بلاروک ٹوک اپنا نیٹ ورک پھیلانے کا نادر موقع مل گیا۔
چنانچہ آج بیرونی دنیا میں انتہاء پسندی کی بنیاد پر پاکستان کے قائم
ہونیوالے تشخص کے باعث ہر دہشت گردی کا ناطہ ہمارے ساتھ جوڑنے کی فضا ہموار
ہوئی تو اس میں ہماری حکومتی کمزوریوں کا ہی عمل دخل ہے جبکہ اپنے انتہاء
پسندانہ مذہبی نظریات کی وکالت اور انہیں جبراً معاشرے پر ٹھونسنے کا مائنڈ
سیٹ بھی ان نظریات کے فروغ کا کھلا موقع ملنے کے باعث ہی استوار ہوا جسے اب
تبدیل کرنے میں بلاشبہ وقت لگے گا تاہم یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ موجودہ
حکومت نے اس مائنڈ سیٹ کو توڑنے کے عملی اقدامات اٹھانا شروع کر دیئے ہیں
جس کیلئے پہلے اپریشن ضرب العضب اہم پیشرفت ہے۔
ملک کے مختلف علاقوں میں قائم دینی مدارس میں اس وقت بلاشبہ لاکھوں کی
تعداد میں طلبہ موجود ہیں۔ یہ ضروروی نہیں کہ ہر دینی مدرسہ ان طلبہ کے
ذہنوں کو اپنے انتہاء پسندانہ نظریات کے ذریعہ پراگندہ کررہا ہو‘ کیونکہ
بیشتر دینی مدارس میں کسی فرقے اور نظریے کے باوصف طلبہ کو دینی اور دنیاوی
تعلیم سے آراستہ کیا جارہا ہے۔ اس تناظر میں جن دینی مدارس کو انتہاء پسندی
پر مبنی مخصوص نظریات کے فروغ کیلئے استعمال کرنے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں
ان کیخلاف سخت ایکشن لینا وقت کا تقاضا ہے جو ان اداروں کی انتظامیہ کو
یکسر تبدیل کرکے اور انکے سرپرستوں کا عمل دخل روک کر بخوبی نبھایا جا سکتا
ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اس وقت بھی قانونی اور غیرقانونی طور
پر قائم دینی مدارس میں 25 ہزار طلبہ موجود ہیں تو اس سے بخوبی اندازہ
لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے دوسرے شہروں میں جہاں کوئی روک ٹوک ہی نہیں
ہوتی‘ کتنے دینی مدارس غیرقانونی طور پر کام کررہے ہونگے۔ اب بیرونی دنیا
کو بھی پاکستان اور اسلام کے بارے میں اپنے مائنڈ سیٹ پر نظرثانی کرنا ہوگی
کیونکہ مذہبی انتہاء پسندی پر مبنی دہشت گردی کے کئی ایسے واقعات میں ملوث
لوگ کسی دینی مدرسے کے نہیں بلکہ جدید دنیاوی تعلیم دینے والے اعلیٰ سطح کے
نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل ہیں۔ ابھی گزشتہ روز ہی اس
امر کی نشاندہی ہوئی ہے کہ سانحہ صفورا کراچی کا سہولت کار اعلیٰ سطح کے
ایک نجی کالج کا چیف ایگزیکٹو ہے جو خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور دینی
نظریات کے حوالے سے لوگوں کی برین واشنگ کرنیوالی اکثر خواتین بھی دینی
مدارس کے بجائے دنیاوی مدارس کی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ مگر بیرونی دنیا کی
تان دینی مدارس پر ہی آکر ٹوٹتی ہے۔ ابھی گزشتہ روز ہی امریکی کانگرس کی
خارجہ امور کمیٹی کے اجلاس میں ری پبلکنز کے علاوہ حکمران ڈیموکریٹک پارٹی
کے ارکان نے بھی پاکستان سے اس تقاضے کا اعادہ کیا ہے کہ وہ شدت پسندی
پھیلانے والے دینی مدارس بند کرے۔ ان ارکان کا یہ کہنا بھی پاکستان کے بارے
میں انکے مائنڈ سیٹ کی ہی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اسلامی انتہاء پسندوں
کیخلاف کارروائی میں ناکام رہا ہے اس لئے اسکی دو ارب ڈالر کی سالانہ امداد
فوری طور پر بند کر دی جائے۔ اس سلسلہ میں چودھری نثارعلی خاں نے گزشتہ روز
دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پاکستان کی کاوشوں کی جو تفصیلات بتائیں وہ
امریکی کانگرس کو بھی فراہم کرنا ضروری ہے۔ انکے بقول گزشتہ ڈیڑھ سال کے
دوران شدت پسندوں‘ انکے معاونین اور سہولت کاروں کیخلاف 12 ہزار اپریشن کئے
گئے ہیں جن میں اب تک سینکڑوں شدت پسند ہلاک اور انکے ٹھکانے اور گولہ
بارود کے ذخائر تباہ ہوئے ہیں تو پاکستان شدت پسندی کے خاتمہ کیلئے اور کیا
کردار ادا کر سکتا ہے جبکہ اسکے ردعمل میں آج بھی معصوم و بے گناہ شہری اور
سکیورٹی فورسز کے ارکان دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ اس تناظر میں تو
ہمیں درس دینے اور ڈومور کے تقاضے کرنے کے بجائے دہشت گردی کے مکمل خاتمہ
کیلئے ہماری ٹھوس معاونت کرنے کی ضرورت ہے۔ |
|