دنیا کا اصل مسئلہ فلسطین کا مسئلہ ہے

گذشتہ دنوں لبنان کی راجدھانی بیروت میں فلسطین کے سوال پر تیسری عالمی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا ۔اس کانفرنس کا اصل موضوع فلسطینوں کا ان کے ملک میں حق واپسی تھا ۔ کانفرنس میں 60ممالک کے 300مندوبین نے شرکت کی اس کے آخری اجلاس سے حماس کے معروف لیڈر اسماعیل ہانیہ اور حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل شیخ نعیمی نے خطاب کیا ۔کانفرنس میں دیگر تجاویز کے علاوہ تیسرے انتفاضہ کی حمایت کا بھر پور اعلان کیا گیا۔اس موضوع پر لگاتار یہ تیسری کانفرنس اس امر کا اعادہ تھی کہ فلسطینی کاز کو ساری دنیا میں ایک بار پھر زور شور سے اٹھایا جائے۔ پچھلی ایک دہائی سے یہ محسوس کیا جار ہا ہے کہ مغربی ایشاءاور دیگر ممالک میں جاری مستقبل جنگی اور بحرانی کیفیت نے فلسطین کے مسئلے کو پش پست ڈال دیا ہے نیز دہشت گردانہ واقعات میںبے تحاشہ اضافے نے فلسطینی کازکی حمایت میں کمی کی ہے حالانکہ صورت واقعہ آج بھی یہ ہی ہے کہ دنیا بھر میں عوامی سطح پر فلسطین کے حق آزادی اور فلسطینیوں کے اپنے ملک میں حق مراجعت کو تسلیم کیا جاتاہے لیکن حکومتوں کی سطح پر فلسطین کی پالیسی میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہی ہیں۔ مثلاً ہندوستان میں ہی سرکاری سطح پر فلسطین کی حمایت میں کمی اور اسرائیل کی حمایت میں اضافہ واضح طورپر محسوس کیا جاسکتاہے۔ اسی طرح امریکہ ،برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک اپنے عوام کے خواہشات کے برعکس اسرائیل کی حمایت کرتے رہے ہیں اور اسرائیل کے ظالمانہ، جابرانہ، انسانیت کش جنگی جرائم کی حمایت کرتے رہے ہیں ۔ اس دوران فلسطینی کاز کی حمایت میں کچھ اہم پیش رفت بھی ہوئی ہے مثلاً اقوام متحدہ میں اسرائیل اورامریکہ کے مخالفت کے باوجود فلسطین کو مبصر کا درجہ دے دیا گیا اور ان کا جھنڈا یو این او پر لگانے کی اجازت دے دی گئی۔ لیکن اس سب کے باوجود اندرو ن فلسطین حالات روز بروز دیگر گوں ہوتے چلے جارہے ہیں اور اب اسرائیل کی نظر مسجد اقصیٰ کی شہادت پر مرکوز ہے جہاں ایک طرف فلسطین کے اندر شہریوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے وہیں دوسری جانب مغربی ایشیاءاور افریقی ممالک میں جاری جنگی کارروائیوں کو بھی اسرائیل عظمیٰ کے قیام کا پیش خیمہ سمجھا جارہا ہے ۔ اسرائیلی تحریک کے آغاز سے ہی یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اسرائیل کا مطلب حضرت داﺅ د کے زمانے کی مملکت ہے اس مملکت میں نہریں سوئیزسے لیکر نہر فرات کے درمیان کا سارا علاقہ شامل ہے۔دونوں نہروں کے درمیانی خطوں میں شام ،لبنان، اردن، مصر ،سعودی عرب،عراق اورترکی کا ایک حصہ شامل ہے۔ 1906میں صیہونیت کے پہلے نظریہ ساز تھیوڈر ہرزل نے کہہ دیا تھا کہ خطہ ارض پر ایک ایسی یہودی ریاست کے قیام کی ضرورت ہے جس کی سرحدیں سویس اور فرات کے درمیان ہوں اسی طرح مشہور یہودی ربی فش مین نے بھی کہا کہ فرات اور سویس کے درمیان کا خطہ اسرائیل کیلئے ارض موعیدکی حیثیت رکھتاہے۔ انہیں بیانات کی بنا پر ینون منصوبہ بھی بنایا گیا ہے جسے در اصل اسرائیل عظمیٰ کی قیام کا منصوبہ کہا جاتاہے۔ ان بیانات کے پس منظر میں دیکھیں تو باتیں واضح ہو جاتی ہے ایک بات تو یہ کہ اسرائیل اور فلسطین کی جنگ در اصل ایک مذہبی جنگ ہے۔ جو یہودی سر زمین کے قیام اور اس کی توسیع کے خاطر لڑی جا رہی ہے۔ دوسری بات یہ بھی واضح ہوتی ہے کہ حالیہ ایام میں جاری شام،عراق، یمن،لیبیااور شمالی افریقہ کے مختلف ممالک میں ہونے والی جنگ دراصل اسی اسرائیل عظمیٰ کے قیام کی جدو جہد کا ایک مرحلہ ہے۔ہرچند کہ اس جنگ کو اس نقطہ نظر نہیں دیکھا جارہا ہے لیکن عالمی مبصرین اس بات پر اتفاق کا اظہار کرتے ہیں۔ حال ہی میں گلوبل ریسرچ نامی ایک جریدے نے اپنے ادارتی نوٹ میں لکھا ہے کہ 2006میں ہونے والی اسرائیل لبنان جنگ، 2011میں لیبیا کی خانہ جنگی اور مغربی ایشیاءکے مختلف ممالک کے مابین جنگی کارروائیاں نیز مصر میں جمہوری سرکار کا تختہ پلٹ کر فوجی سرکار کا قیام اسی اسرائیلی حکمت عملی کا نتیجہ ہے ۔ جس کا مقصد خطہ عرب کو بے حد کمزور کرکے وہاں مذہبی اور مسلکی بنیادو ں پر چھوٹے چھوٹے ریاستوں کا قیام کرکے اسرائیل کے سامنے بے اثر کرنا مقصود ہے ۔ 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی بہار عرب بھی اسی حکمت عملی کا نتیجہ ثابت ہوئی۔ جمہوریت کے مطالبے کو لے کر یکے بعد دیگرے ۷۱ افریقی و عربی مسلم ملکوں میں پھیلنے والی یہی تحریک دراصل موجودہ مغربی ایشیائی تنازعات کا نقطہءآغاز ثابت ہوئی۔ تیونس کے علاوہ جمہوریت تو کہیں نہیں آئی البتہ جنگ نے پورے خطے کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ ا یسا محسوس ہوتاہے کہ حالیہ جنگ ترکی ،ایران،عرب اور افریقہ کی بے تحاشہ تقسیم پر ہی ختم ہوگی جس طرح اس سے قبل 1937میں پہلی جنگ عظیم کے کچھ عرصے بعد بر طانیہ اور فرانس نے ملکر عرب ممالک کی نئی حد بندی کی تھی اسی طرح ایک بارپھر اس پورے خطہ اسلام کو کمزور کرنے کے خاطر یہ جنگ جاری ہے ۔ اور اس غرض سے داعش، بوکو حرام ، الشباب اور القاعدہ جیسی اسلامی ناموں والی دہشت گرد تنظیمیں سامنے لا کر کھڑی کر دی گئی ہیں تاکہ مسلمان بس ان سے اپنی برات کا اظہار کرتے رہیں اور نفس مسئلہ پر غور ہی نہ کر سکیں۔ مغربی ایشیاءکی بارود سے دہلتی ہوئی سرزمین کے پیچھے اسرائیل کااصل منصوبہ نظروں سے اوجھل ہو جاتاہے حالانکہ یہ سچ ہے کہ دنیا کے ہر تباہ کن واقعہ کے پیچھے اسرائیل عظمی کے قیام کا مقصد کار فرما ہو تا ہے ۔ علاقائی مسائل کی اہمیت وشدت فلسطینی مسئلے کو پس پشت ڈال دیتی ہے ۔

واضح رہے کہ اسرائیل عظمیٰ میں مکہ اور مدینہ جیسے متبرک مقاما ت بھی شامل ہے ۔ 1400سال قبل اسلام کی تکمیل اور فتح مکہ کے بعد ایک قرآنی حکم کے بموجب یہودیوں کو مدینہ بدر کر دیا گیا تھا ۔(سورہ التین ) اور دونوں شہروں کو شہر امن قرار دے کر یہودیوں سمیت تمام غیر مسلمین کو یہ دونوں شہر چھوڑ دینے کا حکم دے دیا گیا تھا تب سے آج تک ان دونوں شہر وں میں تمام غیر مسلمین کے داخلے پر پابندی ہے ۔یہودیوں کے پیش نظر اس در بدری کا انتقام بھی ہے۔ اسی لیے قبلہ اوّل کے بعد حرمین شریفین پر قبضے کا منصوبہ زیر عمل ہے اور اسی منصوبے کے تحت مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا رہی ہے شہر کے شہر نیست و نابود کئے جارہے ہیں مہذب آبادیوں کو کیمپوں میں منتقل کیا جارہا ہے چنی ہوئی سرکاروں کو بے دخل کیا جارہا ہے اور دنیا کی غاصب حکومتیںاسلام کے خلاف اپنی مخالفتوں کے پس پشت ڈال کر صف آرا ءہو رہی ہیں۔

یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں رہنی چاہیے کہ دنیا کا اصل مسئلہ فلسطین کا مسئلہ ہے۔ ابھی تک اس مسئلے سے فلسطینی تنہا نبرد آزما ہیں۔ لیکن اب یکم اکتوبر 2015ّ ´سے شروع ہو نے والے تیسرے انتفاضہ میں دنیا بھر کے مسلمانوں کو کسی نہ کسی حیثیت سے شرکت کرنی پڑے گی کیونکہ یہ انتفاضہ قدس انتقاضہ کے نام سے شروع کیا گیا ہے ۔ جس کا مقصد مسجد اقصیٰ کو صہیونیوں کے جابرانہ شکنجہ سے بچانا ہے ۔ اس سے قبل دو انتفاضہ عمل میں آچکے ہیں۔ انتفاضہ ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی جھٹک کر پھینک دینا ہے۔ پہلا انتفاضہ 1987میں شروع ہو کر 1993تک جار ی رہا ، یہ ایک عوامی تحریک تھی جس میں پر امن احتجاج، سول نافرمانی، اسرائیل سے برات کا اظہار، اسرائیلی منصوعات کا بائی کاٹ اور اسرائیل کو ٹیکس ادا نہ کرنے کی تحریک شامل تھی ۔اسی تحریک کے نتیجہ میں اوسلو معاہد ہ ہوا تھا یہ وہ پہلی تحریک تھی جس میں اسرائیلی فوج کے اسلحہ، بھاری گولہ بارود اور ٹینکوں کے مقابلے میں فلسطینی عوام نے پتھروں کا استعمال کیاتھا۔ اس تحریک کے دوران 1500کے قریب فلسطینی شہید ہوئے تھے 6سالہ اس تحریک کے دوران تقریباً ڈیڑھ لا کھ فلسطینیوں کو گرفتار کیاگیا تھا ۔ دوسری تحریک انتفاضہ 29ستمبر 2000میں شروع ہوئی اور 2005تک جاری رہی یہ تحریک اس وقت شروع ہوئی جب فلسطینی اتھارٹی کے چیئرمین یاسر عرفات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے دوران امریکی شرائط کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور جس دن اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے بیت المقدس کے دورے کا اعلان کیا تھا۔ وہ جمعہ کے دن تھا اور فلسطینیوں نے بڑی تعداد میں مسجد اقصیٰ میں اکٹھا ہو کر ایریل شیرون کو مسجد اقصیٰ میں داخلے سے روکنے کی کوشش کی تھی ۔ اسی مناسبت سے اس انتفاضہ کو اقصیٰ انتفاضہ کہا جاتاہے ۔ ان انتفاضہ میں غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینی عوام کا سمندر نکل پڑا تھا ۔ یہ انتفاضہ یاسر عرفات کے وفات کے بعد حماس اور الفتح کے مابین شدید اختلافات کے نتیجہ میں ختم ہوا تھا اس انتفاضہ میں جہاں 5000ہزار فلسطینی شہید ہوئے وہیں 1200اسرائیلوں کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔اگلے ہی سال 2006میں حماس کو انتخابات میں واضح برتری حاصل ہوئی جس نے اس اسلامی مزاحمتی تحریک کے حوصلے بلند کر دیئے اور امریکہ و یوروپی یونین کو شدید دھکا لگا یااور جھنجھلاہٹ میں حماس کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا تاکہ اس بہانے سے فلسطین کو ملنے والی مالی امداد بند کی جاسکے۔ وہیں دوسری طرف 2007میں اسرائیل نے بھی غزہ کا محاصرہ کرکے تقریباً 18لاکھ فلسطینیوں کا عرصہ حیات تنگ کرکے انہیں ایک کھلی جیل میں زندگی گزارنے پر مجبور کردیا اتنا ہی نہیں 2012اور 2014میں شدید ترین جنگوں کے ذریعے ہزاروں فلسطینیوں کا خون بہایا گیا اور بمباری کے ذریعے ان کی شہری آبادیوں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ۔اب تیسرے انتفاضہ کی وجہ مسجد اقصیٰ پر صہیونیوں کا حملہ بنی ہے۔ فلسطین کے غیور نوجوانوں نے قبلہ اوّل کی حفاظت کی خاطراپنی بے سروسامانی کے باوجود مردانہ وار مقابلہ کیا ہے اس انتفاضہ میں اب تک 100سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور تقریبا7000زخمی ہو چکے ہیں ۔ اس انتفاضہ میں بھی محض پتھروں ،خنجروں اور اسکریو ڈرائیوروں کے ذریعے اسرائیلیوں کے جدید ترین ہتھیاروں کا سامنا کیا جارہا ہے ۔ پہلے مرحلے میں مغربی کنارے کے لوگوںنے پرامن احتجاج کے ذریعے اپنی تحریک کو آگے بڑھایالیکن جب اسرائیلی فوج نے مظالم کی حد کردی توفلسطینیوں نے بھی ہاتھوںمیں پتھر اٹھا لیے ۔ اس وقت غزہ اور دیگر فلسطینی علاقے بھی اس تحریک میں شامل ہو چکے ہیں اور دنیا بھر کی انصاف پسند و حریت پسند تنظیموں، اداروں و جماعتوں نے اس انتفاضہ کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

کہا یہ جارہا ہے کہ اس انتفاضہ کا کوئی قائد نہیں ہے یہ اپنے آپ میں اٹھی ایک عوامی تحریک ہے اور عوام ہی کے ذریعے چلا ئی جا رہی ہے مذکورہ کانفرنس کے دوران فلسطین سے آئے ہوئے مندوبین کی گفتگو سے اندازہ ہوتاہے کہ فلسطین کے لوگ اپنی موجودہ قیادتوں سے بھی مایوس نظر آرہے ہیں ایک طرف الفتح کا رویہ جو اسرائیلی صہیونیوں کے ساتھ مفاہمت کے لیے نرم گوشہ رکھتاہے اور مغربی کنارے پر اپنے کنٹرول کے خاطر کسی بھی حد تک جانے کو بے تاب محسوس ہو تاہے ۔ وہیں دوسری طرف غزہ میں حماس کے زیر حکومت آٹھ سال سے مستقل اسرائیلی محاصرے نے عوام کو عاجز کر دیا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حماس کو درکنار کرنے کے غرض سے محاصرے کا اسرائیلی حربہ کوئی نتیجہ بپا کرنا چاہتاہے ۔ یہ امید کی جارہی ہے کہ تیسرے انتفاضہ کے دوران ہی الفتح اور حماس سے الگ کوئی تیسری قیادت بھی فلسطین میں ابھر سکتی ہے جسے بظاہر عوامی قیادت کا نام تو دے دیا جائے گا لیکن وہ کوئی مفاہمت پسند سیکولر جمہوری قیادت بن کر اسرائیل کی حلیف بنے گی یا مزاحمت کاروں کے مابین کسی خلفشا رکو فروغ دے کر تحریک فلسطین کو مزید کمزور کرے گی یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ خطے میں روس کی موجودگی ۔ شام کے علاوہ مصر سے بھی روس کے ایک بار پھر تعلقات کی استواری ، خود عرب ممالک کی امریکہ کے تئیں تشکیک اور عالم اسلام کی امریکہ و اسرائیل سے بڑھتی بے زاری دنیا کو ایک بار پھر دو قطبی حیثیت دے رہی ہے۔ جو ایک طرف امریکی مفادات کے حصول کے مشکل بنا رہی ہی ہے وہیں دوسری جانب اسلامی تحریکات کی لئے بھی فال نیک نہیںہے۔ لیکن سر دست مغربی ایشیاءکے موجود ہ حالات یہ صاف بتا رہے ہیں کہ اسرائیل اپنے ناپاک عزائم کو حاصل کرنے کے قریب پہنچتا چلا جارہا ہے ۔ ایسے میں اگر عالم اسلام عوامی سطح پر فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہو جائے تو صورت حال میں تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے۔
 
Dr Tasleem Ahmed Rehmani
About the Author: Dr Tasleem Ahmed Rehmani Read More Articles by Dr Tasleem Ahmed Rehmani: 41 Articles with 24455 views I m Chief Editor of Mission Urdu Weekly New Delhi, President Muslim Political Council of India lives in Delhi a political strategist and profound writ.. View More