ابو الاثرحفیظ جا لندھری 1900-1982

.از۔ محمد طاہر تبسم درانی
14 اگست 1947ء کو دنیاکی تاریخ میں ایک اسلامی سلطنت کا قیام ہوتا ہے اور ریڈیو پاکستان لاہورسے ایک اعلان ہوتا ہے کہ کلمہ کی بنیاد پر ایک نئے اسلامی ملک کا قیا م مبارک ہو آج سے ہم ایک آزاد قوم کے طور پر دنیا پر نمودار ہوئے ہیں اور ایک ریاستِ خدا د ملکِ پاکستان نے جنم لیا ہے۔ جسکو سننے کے بعد لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اوراس خوشی کی خبر کے پیچھے لاکھوں قربانیوں کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ماؤں بہنوں نے اپنی عصمتوں کی قربانی دی بھائیوں نے اپنی جانوں کو اس آزادی پر نچھاور کیا اور بزرگوں نے اپنی جوان بیٹوں کی لاشوں کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر حا صل کی۔

تحریک پاکستان میں بے شمار ایسے لوگ شامل تھے جو قائداعظم کے شانہ بشانہ کام کرتے رہے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن جو خاموش سپاہی کا کردار ادا کرتے رہے اس تحریک میں نوجوانوں نے قائداعظم کے شانہ بشانہ بہت کردار ادا کیا ان نوجوانوں میں ایک نام حفیظ جالندھری کا بھی آتا ہے ۔

حفیظ جالندھری حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900ء جالندھر کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوے آپ کے والد کا نام شمس الدین تھا جو ایک محنتی شخص تھے اور جافظِ قرآن تھے اس لیئے آپ کی ابتدئی تعلیم اپنے گھرانے سے ہوئی اور آپ نے مسجد سکول میں اپنی بنیادی تعلم حا صل کی اس کے بعد آپ نے ساتویں تک وہاں کے ایک مدرسے سے تعیلم حا صل کی۔حفیظ جالندھری بچپن سے ہی اپنے دوستوں میں ایک الگ مقام رکھتے تھے۔ مشن ہائی سکول جالندھر میں زمانہ طالبعلمی کے دوران میرٹھ، دہلی اور بمبئی کے سیر سپاٹے کرتے رہے اور یوں تعلیم پر پوری توجہ نہ دے سکے ۔اسی زمانے میں آپ کو اردو ادب سے دلچسپی پیدا ہوگئی اور باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز کیا۔

1917ء میں جب آپ کی عمر سترہ سال کی ہوئی تو والدین نے شادی کے بندھن میں باندھ دیا اور یوں آپ نے سترہ سال کی عمر میں اپنی کزن زینت بیگم سے شادی کی جس سے اُن کے ہاں سات بچوں کی پیدائش ہوئی اور اس طرح آپ کو اللہ تعالیٰ نے سات بیٹیوں کی رحمت سے نوازہ۔ اس کے بعد آ پ نے انتالیس سال کی عمر میں دوسرے شادی ایک انگریز لڑکی سے کے جو زیادہ دیر نہ رہ سکی اور طلاق کے بعد علحد گی ہو گئی، آپ کی پہلی بیگم 1954ء میں انتقال کر گئیں اور یوں ایک سال بعد آپ نے خورشید بیگم سے شادی کی جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائی تو جالندھری صاحب کی ذاتی زندگی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی مگر آپ کے دل میں مسلمانوں کے لیئے بہت جگہ اور محبت بھری ہوئی تھی زندگی کے اتار چڑھاؤ کے باوجود وہ اردو ادب کے لیئے کام کرتے رہے 1917ء میں پہلی جنگِ عظیم کے موقع پر انہوں نے جنگ کے موضوع پرایک نظم لکھی جو بہت پسند کی گئی اور آپ کو اس موقع پر انعام سے نوازہ گیا۔

1918ء میں مولاناگرامی سے فارسی درس لینا شروع کر دیا اور تین سال بعد جالندھر سے ایک رسالہ نکالنا شروع کیا جس کا نام اعجاز رکھا لیکن جالندھر ی صاحب کے حالا ت ناسازگار تھے اور مالی نقصان اٹھانا پڑا جس کی وجہ سے بعد میں اس رسالے کو بند کرنا پڑا۔آپ اپنی زندگی کے نشیب و فرازکو بالا طاق رکھتے رہے اور اپنی کوشش جاری رکھی اور کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی جستجو میں لگے رہے کوئی نہیں جانتا تھا کہ اُن کے اس نام کو صدیوں یاد رکھا جائے گا، پھر قسمت کی دیوی اُن پر مہربان ہوئی اور 1922 سے 1929ء تک وہ چند ماہانہ میگزین کے ایڈیٹر متخب ہوئے اور آپ کی زیر سایہ بہت سے رسالے جن میں نونہال، ہزار دستان، تہذیب نسواں اور مخزن جیسے رسالے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے آپ نے بچوں کے بہت کام کیا آپ نے اپنی مشہور نظمَ۔۔ مجھے ایک ننھا سا بچہ نہ سمجھو۔۔ میں قوم کے معماروں کے لیئے ایک ایک ایسا سبق دیا کہ اگر اس پر عمل پیرا ہو جایں تو آج کے نوجوان کو اس کی منز ل مل جائے ۔

1935ء میں اُنکی نظموں پر مشتمل مکمل گلدستہ جس کا نام۔۔۔ نغمہ زار۔۔۔ تھا وہ پبلش ہوئی اور یوں ان کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی اور لوگوں میں مقبولیت کا مقام حاصل کیا جالندھری صاحب کو اپنے ملک سے بے پنا ہ محبت اور عقیدت تھی وہ کہتے تھے کوئی ہمیں یاد کرے یا نہ کرے لیکن ہم اپنے ملک کی بقاء کے وہ سب کچھ کریں گے جس کی ہم میں اسطاعت ہے وہ اپنے شعروں میں بھی اپنی عقیدت کو بیا ن کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ نے کہا !
کوئی پرسان نہیں پیرِمغاں کا
فقط میر ی وفا ہے اور میں ہوں۔

حفیظ شعرا کے اس دبستان سے تعلق رکھتے تھے جس نے ہند ی بحروں کو اردو میں رائج کرنے اور شعر میں الفاظ بششت اور ترکیبوں سے حسن اور ترنم پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ان کی نظموں میں خیا ل کی رعنائی جزبات کی فراوانی اور ترنم ریزی نے نئی نسل کو بے حدمتاثر کیا ان میں پرتاثیرنغمگی پائی جاتی ہے ہلکے پھلکے گیت لکھنا نظم کی نئی نئی شکلیں پیدا کرنا اور رومانی نظمیں لکھنا جالندھر ی صاحب کا خاص آرٹ ہے ان کے کلام میں شگفتگی اثر آفرینی اورروانی ہے ۔

کچھ عرصہ جالندھر ی صاحب ریاست خیر پور سندھ کے دربار سے وابستہ ہو گئے کچھ عرصہ بعد میر ریاست کے سامنے اپنی نظم ۔۔رقاصہ۔۔ پڑھی تو آپ حکمران کے غضب کا شکار ہوئے اور ریا ست بدر کر دیئے گئے حفیظ جالندھر ی مختلف رسائل کے مدیر بھی رہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے ۔حفیظ ج لندھری نے دوسرے جنگ عظیم میں گورنمنٹ ملازمت اخیتار کر لی اور سانگ ایند پبلیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ڈائریکٹرجنرل مقر ر ہوئے ان کی شب و روز کی محنت اور لگن کے صلہ میں انگریرحکمرانوں نے ان کو ۔۔خان بہادر ۔۔کاخطاب دیا۔اور بعد میں اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔

حفیظ جالندھری کا شمارملک کے عظیم شعراء میں ہوتا ہے قیامِ پاکستان کے بعد 1952ء میں ملک پاکستان کا مشہور قومی ترانہ لکھنے کی سعادت بھی جنا ب حفیظ جالندھر ی صا حب کو حاصل ہے اس کے علاوہ انہیں برصغیرمیں ۔۔شاہنامہ اسلام ۔۔ لکھ کر جو شہرت اور پذیرائی ملی وہ انہیں کا حصہ ہے۔انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے تاریخ ہند بھی مرتب کی جو آج بھی بھارت کی سکولوں میں پڑھائی جاتی ہے ۔قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی چند برس قومی ترانہ نہیں لکھا گیا تھاپھر 1952ء ایک ترانہ کمیٹی تشکیل پائی جس میں سات سو پچاس شعراء کرام نے شرکت کی اور اپنے اپنے ترانے پیش کیئے، جس میں سب سے زیا دو حفیظ جالندھری کے ترانے کو پسند کیا گیا،اس طرح کمیٹی میں پیش کیے گئے سب ترانوں میں سے ان کے ترانے کو منظور کیا،اس ترانے کی دلچسپ با ت یہ ہے کہ اس ترانے کی دھن ایم اے چھاگلہ نے پہلے ہی بنا لی تھی ۔حفیظ جالندھری ہمارے قومی شاعر تھے جنہوں نے اپنی شاعری سے اپنے مقصد جذبات کی پور ی تشریح کی ۔

حفیظ جالندھر ی کی خواہش تھی کہ جب ان کا انتقال ہو تو ان کو شاہی مسجد کے زیرسایہ دفن کیا جائے 21دسمبر 1982 ء کو ہم سے یہ عظیم شاعر ہمیشہ کے لیئے جدا ہو گیا ، اپنی خالقِ حقیقی سے جا ملا، اُ ن کی خواہش کو پورا تو نہ کیا جاسکاکیونکہ انتظامیہ نے اس کے اجازت نہ دی جس کے بعد اس عظیم شاعر کی تدفین اقبال پارک کے گراؤنڈمیں کی گئی۔ اقبال پارک (منٹوپارک)جہاں مشہور قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اسی جگہ مینارِ پاکستان قائم ہے اسی شاندار گراؤنڈ کے ایک حصے میں یہ عظیم شاعر مدفون ہیں ، زندہ قومیں اپنے مشاہیر اور ہیروز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں ان کی یاد میں تقاریب کا اہتمام کرتی ہے ہیں مگر افسوس ہم ان ہیروز کی یاد میں تو تقاریب منعقد کرتے ہیں جنہوں اس ملک کو صرف لوُٹا ہو یا اداکاروں ، فنکاروں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ہمارے پاس وقت بھی ہے اور ہم اس کا باقاعدہ اہتمام بھی کرتے ہیں مگر حقیقی معنوں میں حفیظ جالندھری جیسے عظیم لوگوں کو بُھلائے بیٹھے ہیں ہم میں سے کئی ایسے افراد آج بھی ہیں جن کوحفیظ جالندھری اور ایسے کئی ہیروز ہیں جن کی نہ پیدائش کا پتہ اور نہ اُن کے وفات پانے کا علم اگر آج ہم نے اپنی نئی نسل کو ان عظیم لوگوں کے بارے نہ بتایا تو کل ہم بھی تاریخ کا حصہ بن جایں گے اور بقول حفیظ جالندھری!
ہم ہی میں نہ تھی کوئی بات یاد نہ تم کو آسکے
تم نے ہمیں بھُلا دیاہم نہ تمہیں بھُلا سکے ۔
M Tahir Tabassum Durrani
About the Author: M Tahir Tabassum Durrani Read More Articles by M Tahir Tabassum Durrani: 53 Articles with 49109 views Freelance Column Writer
Columnist, Author of وعدوں سے تکمیل تک
Spokes Person .All Pakistan Writer Welfare Association (APWWA)
Editor @ http://paigh
.. View More