سپیکر اِن ایکشن!

 سردار ایاز صادق کے بارے میں ایک تاثریہی پایا جاتا ہے کہ وہ بہت متوازن اور اعتدال پسند شخصیت کے مالک ہیں، ان کے اقدامات اور خیالات سے ان کی عادات وغیرہ کے بارے میں ان کی شخصیت میں مزید نکھار پیدا ہوتا ہے۔ این اے 122لاہور میں ہونے والے الیکشن میں بھی اپنے پرائے سب اس بات کے معترف تھے کہ شخصیت کے اعتبار سے سردار صاحب کی پوزیشن بہتر ہے، کہ وہ مسلسل کامیاب بھی ہوتے رہے ہیں اور ان کا رویہ بھی بہت اچھا ہے، ان پر کرپشن وغیرہ کو کوئی الزام بھی عائد نہیں ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ سپیکر بننے کے بعد وہ اپنے حلقے کے عوام کو مناسب وقت نہ دے سکے ہوں۔ بحیثیت سپیکر قومی اسمبلی بھی ان کے کردار پر کسی نے زیادہ اعتراض یا پریشانی وغیرہ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ایسا ہونا بھی نہیں چاہیے تھا کیونکہ سپیکر قومی اسمبلی کا نگران اور سرپرست ہوتا ہے، اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ خود خواہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو، تمام ممبران کے ساتھ برابرکا سلوک کرے، کسی کو شکایت کا موقع نہ دے، کسی کو جانبداری کے الزام کی بات کرنے کی نوبت نہ آئے۔ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ایاز صادق نے دوسال تک ایک اچھے سپیکر کی طرح اسمبلی کو چلایا، اپنوں پرائیوں کو اپنے ہی جانا۔ یوں بہت سی نیک نامی ان کے حصے میں آئی۔

سپیکر ایاز صادق کے حلقے کے بارے میں تحریک انصاف کو تحفظات تھے کہ یہاں دھاندلی ہوئی، دلچسپ بات یہ ہے کہ جن چار حلقوں میں پی ٹی آئی کے اہم لوگ ناکام ہوئے تھے، پارٹی نے انہی حلقوں کے کھولنے کی بات کی تھی، ان میں ایک حلقہ یہ بھی تھا، اسلام آباد کے تاریخی دھرنے کے بعد عدالت نے اس حلقے میں الیکشن کروانے کا حکم دیا تھا، اگرچہ ایک عام خیال پایا جاتا تھا کہ یہاں سے سردار ایاز ہی کامیاب ہونگے، مگر حلقے نے میڈیا میں بہت ہنگامہ برپا کر رکھا تھا، نتیجے سے ثابت ہوا کہ مقابلہ واقعی بہت سخت تھا، اور حکومتی پارٹی بڑی مشکلوں سے رن آؤٹ ہوتے ہوتے بچی، اس میں بیٹسمین اوندھے منہ گر بھی گیا، مگر اس کا بلّا لائن کو ٹچ کرگیا تھا۔ مگر اس الیکشن کا نقصان یہ ہوا کہ سردارایاز صادق کا موڈ پہلے والا نہ رہا، ان کے مزاج میں جہاں کچھ غرور درآیا، وہاں غصے کے آثار بھی نمایاں دکھائی دینے لگے، انہوں نے اپنے اعتدال پسند رویے میں تبدیلیاں کرلیں، یا یوں کہیے کہ تبدیلیاں پیدا ہوگئیں۔ اب وہ قومی اسمبلی میں سب سے اونچی سیٹ پر بیٹھ کر لوگوں سے ناراض بھی ہوتے ہیں، انہیں جھاڑ بھی پلاتے ہیں، اور وہ سطحی تبصرے بھی کر جاتے ہیں، جو اُن کے منصب کے معیار کے مطابق نہیں ہوتے۔ اب وہ قدرے غصے میں رہنے لگے ہیں۔

گزشتہ دنوں انہوں نے اپنا غصہ الیکشن کمیشن پر بھی نکالا، انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن سادگی کی عام زبان نہیں سمجھتا، بلکہ اسے سختی کی زبان سے سمجھ آتی ہے۔ الیکشن کمیشن کی بدقسمتی ملاحظہ فرمائی جائے، کہ یہ پی ٹی آئی کے چیئرمین کے بھی زیر عتاب ہے، پچھلی دفعہ کوئی صاحب الیکشن کمیشن کا چیئرمین بننے کے لئے آمادہ نہیں ہورہا تھا، اس کی وجہ یہ تھی سب کو معلوم تھا کہ عمران خان دھاندلی دھاندلی کا ایسا شور مچائیں گے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے گی۔ کیونکہ اس سے قبل عمران خان نے الیکشن کمیشن کے تمام اہم عہدیداران کے مستعفی ہونے کا مسلسل مطالبہ کیا تھا۔ صرف عمران خان ہی نہیں بلکہ اکا دکا دیگر جماعتوں نے بھی دھاندلی کی شکایت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے فارغ کئے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔ بہرحال موجودہ الیکشن کمیشن پر مسلسل دباؤ تھا، مگر دھاندلی کے بارے میں جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ اور چیئرمین الیکشن کمیشن سردار رضا کی مضبوط قوت ارادی کی وجہ سے کمیشن ہر دباؤ کو مسترد کرتا چلا گیا، حتیٰ کہ سپیکر کے دباؤ کو بھی کمیشن نے مسترد کر دیا۔ عمران خان انڈیا گئے تو سپیکر نے فرط جذبات میں آکر کہا کہ عمران خان انڈیا ہی رہیں۔ اور اب جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ ضلع مظفر گڑھ کے ایم این اے جمشید دستی کی باتوں سے ناراض ہو کر سپیکر نے کہا کہ بات ختم کریں ورنہ میں آپ کو اٹھوا کر باہر پھینکوا دوں گا۔ جمشید دستی کے کردار اور باتوں سے قطع نظر، یہ خیال ہونا چاہیے کہ اسمبلی میں وہ واحد ممبر ہے، جس نے ایک پسماندہ علاقہ سے جاگیر داروں اور وڈیروں کو سیاست سے تقریباً آؤٹ کردیا ہے۔ یہ غلام مصطفٰے کھر اور دستیوں کی سیٹیں تھیں، جن پر جمشید دستی نے قبضہ کرلیا ہے۔ بہرحال دستی ہو یا کوئی اور سپیکر کو قانونی طریقے اور مناسب الفاظ استعمال کرنے چاہییں، ایک سپیکر کا مولا جٹ بننا کوئی خوبی والی بات نہیں، برداشت کا جذبہ پیدا کرنااور غیر جانبداری کو قائم رکھنا وقت کی ضرورت ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473628 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.