نیا اسلامی فوجی اتحاد کیوں بنایا گیا؟

30 سالہ محمد بن سلمان سعودی فرمانرواشاہ سلمان کے چھٹےبیٹے ہیں۔قانون میں گریجوایٹ ہیں۔بلا کے ذہین اوربے پناہ صلاحیتوں سے مالامال ہیں،جوانی ہی میں اپنے والد کی معیت میں عوامی خدمات سرانجام دینے لگے۔سیاست کا باقاعدہ آغاز15دسمبر 2009سے کیا،جب 46 سال سے سعودی دارالخلافہ ریاض کی گورنری کرنے والے جہاندیدہ باپ نے انہیں اپنا خصوصی مشیربنایا۔جون2011میں سعودی نائب بادشاہ محمدبن نائف کی وفات کے بعدریاض کے گورنرسلمان بن عبدالعزیز سعودی عرب کے نائب بادشاہ اور وزیردفاع بنے تو انہوں نے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کواپناخصوصی ایڈوائزربرقراررکھا۔23جنوری 2015کو سعودی فرمانرواشاہ عبداللہ کی وفات کے بعد ملک سلمان نے اپنے ہونہار بیٹے محمد بن سلمان کو وزیردفاع اور اپنے نائب بادشاہ کا نائب بنادیا۔شاہ سلمان کے اقتدار سنبھالنے کے وقت سعودی عرب پر خوف کے بادل منڈھ لارہے تھے،ایک طرف ایران کی ایماء پر یمنی حوثی باغی حرمین شریفین پر حملے کے لیے پرتول رہے تھے تو دوسری طرف شاہ عبداللہ کے کان بھرنے والے بعض مشیر شاہ سلمان کا راستہ روکنے کے لیے کوششیں کررہے تھے۔ان حالات میں شاہ سلمان نے بروقت جراتمندانہ فیصلے کیے،سابقہ کابینہ میں ردوبدل کرکے اندرونی حالات درست کیے،بعدازاں یمنی حوثی باغیوں یادوسرے لفظوں میں ایران کی شرانگیزیوں کوروکنے کے لیے اپنے بیٹے محمدبن سلمان کو عاصفةالحزم کے نام سے بھرپورآپریشن کرنے کا حکم دیا،چنانچہ محمد بن سلمان کی قیادت میں یہ آپریشن کامیابی سے مکمل ہورہاہے۔

حقیقت یہ کہ نائن الیون کے بعدزبردستی عالم اسلام کوخوفناک خانہ جنگی میں مبتلاکیاگیا،جس سے دنیا میں انتہاپسندی کو فروغ ملا۔افغانستان اور عراق میں امریکہ اور نیٹو کی مکارانہ دخل اندازی کا نتیجہ ہے کہ آج تک یہاں امن قائم ہوسکا،نہ انتہاءپسندی اور خانہ جنگی کی چنگاریاں بجھ سکیں،بلکہ عراق میں داعش کے نام سے نیافتنہ کھڑاکرنے کا موقع فراہم کیاگیا۔دسمبر2010ء میں عرب ملکوں میں خانہ جنگی کی نئی لہر شروع کی گئی،جس میں حکومت مخالف دھڑوں اور شرپسندوں کی پس پشت حمایت سے تیونس،لیبیا،مصر اور شام کو تہس نہس کیا گیا۔شام کے بعداگلاہدف یمن،سعودی عرب سمیت دیگرخلیجی ریاستوں اور ترکی تھا،جن کو یکے بعد دیگرے خانہ جنگی میں مبتلاکرکے کمزورکرنا اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنا تھا۔اللہ بھلا کرے شاہ سلمان اور محمد بن سلمان کاجنہوں نے فراست اور ہمت سے حوثی باغیوں کے فتنے کے لیے بروقت اقدام کرکے عالمی ٹھیکیداروں کی خفیہ سازشوں کو آگے بڑھنے سے روکا۔

مشرق وسطی اس وقت تیسری عالمی جنگ کا منظر پیش کررہاہے،جہاں بظاہر عراق،یمن اورشام خانہ جنگی میں مبتلانظرآتے ہیں،لیکن درحقیقت اس وقت یہ دو سپرطاقتوں روس اور امریکا کی چومکھی لڑائی ہے،جس میں ایران اور سعودی عرب کو آمنے سامنے کردیاگیا ہے۔اس سب کا مقصد صرف اور صرف ان مادی وسائل پر قبضہ ہے،جن سے مشرق وسطی کے یہ ممالک مالامال ہیں۔شام میں جاری خانہ جنگی کی طوالت اس بات کی دلیل ہے کہ امریکا اور یورپ سمیت ایران اور روس کا مقصد داعش کے فتنے کوروکنا ہے،نہ بشار الاسد کی حکومت بچانا،بلکہ اصل مقصد اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے مشرق وسطی پر تسلط جمانااوران کے وسائل پر قابض ہوناہے۔شاہ سلمان اور ان کے بیٹے محمد بن سلمان کی فراست کو داد دینا پڑتی ہے جنہوں نے سعودی عرب کی قیادت میں 34 اسلامی ملکوں کا نیافوجی اتحادقائم کرکے فتنہ انگیزوں کے خفیہ عزائم کے آگے بندھ باندھنے کی کوشش کی۔بظاہر امریکہ سمیت برطانیہ نے بھی اس نئے اسلامی فوجی اتحاد کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے عین امریکی حکمت عملی کے مطابق قراردیا ہے،جس سے یار لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ اتحاد بس امریکی جنگ لڑنے کے لیے بنایاگیاہے۔حالاں کہ شاہ سلمان اور محمد بن سلمان دونوں باپ بیٹا اس وقت زبردست گیم کھیل رہے ہیں،ایک طرف وہ عالمی برداری کے ساتھ ڈائیلاگ اور میز پر بیٹھ کرکے شام،عراق،یمن اور فلسطین کے مسئلے پر بات چیت کررہے ہیں،دوسری طرف اسلامی فوجی اتحاد کے ذریعے مشرق وسطی کے دیگر اسلامی ملکوں پر خانہ جنگی مسلط کرنے والوں کو متنبہ کررہے ہیں۔شام کے مسئلے پر بلائی جانے والی حالیہ ریاض کانفرنس،عراق میں 25 سال بعد سعودی سفارتخانے کا آغاز،ترکی کی مصر اورسعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ قرابتیں،ایران اور روس کے خلاف سعودی اور ترکی کا"ترکی بہ ترکی"جواب ایسے حقائق ہیں جو شاہ سلمان اور محمد بن سلمان کی عالم اسلام بالخصوص مشرق وسطی کی امن وسلامتی کے لیے فکر مندی پر روشنی ڈالتے ہیں۔

آج کے دورمیں"جنگ"انتہاءپسندی،دہشت گردی اوربغاوت کا حل ہے،نہ ظالموں سے چھٹکارے کا راستہ،بلکہ اس سے انتہاءپسندی اور ظلم وبربریت میں مزید اضافہ ہوتاہے۔اس لیے بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے پرامن راستے کی حتی الممکن تلاش یقیناعقلمندی کی علامت ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ شاہ سلمان جیسے جہاندیدہ اور محمد بن سلمان جیسے جراتمند ودوراندیش لوگ کس طرح 34 ملکوں کے نئے اسلامی فوجی اتحاد کو ہینڈل کرتے ہیں اور نائن الیون کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکائی جانے والی نفرت کی آگ اور خانہ جنگی کو ختم کرانے کے لیے اس اسلامی اتحاد سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
 
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 43 Articles with 32234 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.