قومی بچت کی اسکیموں پر منافع میں کمی۔وزیر خزانہ کا ایک اور تحفہ
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب نے غریبوں ،تنخواہ
دار، پنشنرز، بیواؤں کو ایک اور تحفہ عنایت فرمایا ہے۔ یہ تحفہ انہوں نے
اپنے ہر دلعزیز چھیتے ادارے آئی ایم ایف کے دباؤ میں اس کی خواہشات کو پورا
کرنے کے لیے پاکستان کے غریب، تنخواہ دار اور پنشنرز، بیواؤں اور بڑھاپا
اسکیم کے سہارے اپنی زندگی کی گاڑی کو کھینچنے والوں کو دیا ہے۔ وزیر خزانہ
نے قومی بچت کے منافع میں مزید کمی کردی ہے۔ وزارت خزانہ نے اس سلسلہ میں
جو نوٹیفیکشن ملک بھر کے تمام نیشنل سیونگ سینٹرز کی برانچوں کو جاری کیا
ہے اس میں کہا گیا ہے کہ بہبود پینشنرز اور بیواؤں کے ماہانہ سیونگ اکاؤنٹ
منافع میں مزید کمی کرتے ہوئے ایک لاکھ روپے کے عوض اب 880روپے ماہانہ ادا
ہوں گے جب کہ بچت سیونگ اکاؤنٹ میں ماہانہ 565روپے اسی طرح چھ ماہ کے لیے
خریدے جانے والے ایک لاکھ روپے کے سیونگ سرٹیفکیٹس پر اب 3400کے بجائے
2880روپے ادایئے جائیں گے۔
وزیر خزانہ صاحب نے ابھی چند دن قبل قرضوں کی ادائیگی کے لیے 313درآمدی
اشیاء پرریگولیٹری ڈیوٹی بڑھا ئی تھی ۔ اس کا مقصد انہوں نے یہ بیان کیا
تھا کہ ایسا کرنے سے حکومت کا40ارب روپے ریونیو کا شارٹ فال پورا کرنے کی
شرط کی تکمیل ہوجائے گی۔ یہ درآمدی اشیاء تھیں کیا؟ فہرست پر نظر ڈالی جائے
تو عقل حیران اور پریشان ہوجاتی ہے کہ اس فہرست میں ایسی اشیاء کی کثرت تھی
جو عام بلکہ غریب عوام کے استعمال کی ہیں۔بلکہ روز مرہ ضروری استعمال میں
ان کا شمار ہوتا ہے۔ہر ایک نے چیخ چیخ کر دُوہائی دی ، داد خواھی کی کہ اس
کا بوجھ غریب اور عام آ دمی پر پڑے گا لیکن انہوں نے بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ
نہیں’ اس سے غریب آدمی متاثر نہیں ہوگا ‘اورانہوں نے کسی کا کوئی جوازنہ
سنا اور حکومت کا 40ارب روپے ریونیو کاشارٹ فال پورا کرکے ، آئی ایم ایف کو
خوش کر کے ان کے دل کو ٹھنڈک اور راحت نصیب ہوئی۔ ابھی تو اس ٹھنڈک میں کمی
بھی نہ آئی ہوگی کہ انہیں ملک کے غریب ، مظلوم طبقے کو حکومت کی جانب سے جو
سہولت فراہم ہورہی تھی اس پر ایک اور ہتھوڑا چلانے کا خیال آگیا حالانکہ
کچھ ماہ قبل ہی تو قومی بچت اسکیموں پر شرح منافع میں کمی کی گئی تھی۔
قبلہ وزیر خزانہ کے پاس اس کا کیا جواز ہے اوروہ کیا منطق پیش کرنا چاہیں
گے، بہبود سیونگ سرٹیفیکیٹ یا پینشن سیونگ اکاؤنٹ تنخواہ دار اور پنشنرز،
بیواؤں اور بڑھاپے کی اسکیمیں ہیں۔ حکومت نے یہ اسکیمیں صرف اور صرف
پینشنرزکے لیے یا ضعیف العمر افراد جن کی عمر 60برس سے زیادہ ہوگئی ہے ان
کے لیے شروع کی تھیں۔ آپ کے خیال میں آپ کے اس اقدام سے امیر آدمی متاثر
ہوا ہوگا۔ بہبود سیونگ سرٹیفیکیٹ تو جاری ہی پینشنرز کو کیا جاتا ہے۔ یہ
پینشنرز اپنی زندگی بھر کی بچت یہ سمجھ کر کہ حکومت کی اسکیم زیادہ محفوظ
ہے جمع کرادیتا ہے۔ یہ رقم اسے حکومت سے ہی تو ملی ہوئی ہوتی ہے جو اسے ایک
ہاتھ سے لے کر دوسرے ہاتھ سے حکومت کو ہی دیے دیتا ہے اور اس پر اسے جو
منافع ملتا ہے اس سے اپنا گزبسر کرتا ہے۔ آپ کو ڈیفینس سیونگ سرٹیفیکیٹ پر
منافع کم کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا؟ اس لیے کہ ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکیٹ لے
کر رکھنے والے غریب، تنخواہ دار اور پنشنرز، بیوائیں نہیں ہوتیں بلکہ یہ
سرٹیفیکیٹ وہ لوگ خریدتے ہیں جن کے پاس وافر پیشہ ہوتا ہے انہیں اس پیسے پر
فوری رقم کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ اپنی اس رقم کو دس سال کے لیے حکومت کے
خزانے میں جمع کرادیتے ہیں اوردس سال بعد اپنی اصل رقم چار گنا اضافے کے
ساتھ حاصل کر لیتے ہیں۔
حکومت تو یہ نعرہ لے کر آئی تھی کہ غریب کو مشکلات سے نجات دلائیں گے، ملک
کو قرضوں سے نجات دلائیں گے ، کشکول توڑ دیں گے، بھیک نہیں مانگے گے، اپنے
وسائل پر بھروسہ کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ ڈھائی سال کی
حکمرانی میں یہ تمام باتیں کہیں دکھائی نہیں دیں۔ کہاں گیا نون لیگ کا
منشور، کیا ہوئے عوام سے کیے ہوئے وعدے، غریب کی مشکلات کو دور کرنے کے
وعدے، کہا گیا آپ کا وعدہ کہ آپ کشکول توڑ دیں گے۔ آج سب کچھ ویسا کا ویسا
ہی ہے۔ نہ غربت ختم ہوئی، نہ غریب کی مشکلات میں کمی آئی، نہ کشکول ہاتھ سے
چھوٹا ، نہ قرض لینے کے عادت گئی، نا آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے سامنے
ہاتھ پھیلانے کی عادت گئی بلکہ اس میں تیزی آچکی ہے۔ وزیرخزانہ آئی ایم ایف
اور ورلڈ بنک سے قرض منظور کرانے میں ماہر ہوچکے ہیں، قرض لے کر حکومت کا
خسارہ پورا کرنا ہو تو قرض، قرض کی قسط واپس کرنا ہو تو قرض، قرض تو واپس
ہوتا ہی نہیں وہ تو جوں کا توں برقرار رہتا ہے اور ہر دن اس میں اضافہ ہوتا
جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں پید ا ہونے والا ہر بچہ مقروض پیدا
ہوتا ہے۔ یہ وہ تحفہ ہے جو ہم اپنی آنے والی نسل کو دے رہے ہیں۔ تاریخ بڑی
بے رحم ہوتی ہے، لمحہ موجود میں تو تاریخی حقائق کو بعض لوگ چھپا لیتے ہیں
لیکن وقت کا دھارا حقیقت کو آشکار کرہی دیتا ہے۔ جناب اسحاق ڈار صاحب یاد
رکھیے تاریخ آپ کو قرض کے حصول میں ماہر وزیر خزانہ کے طور پر یاد رکھے گی۔
تاریخ میں یہ بھی لکھا جائے گا کہ میاں نواز شریف کی حکومت میں پاکستان میں
پیدا ہونے والا ہر بچہ مقروض پیدا ہوا کرتا تھا۔یہ بات کہنے سے بات بنے گی
نہیں کہ آپ سے پہلے بھی یہی کچھ ہو رہا تھا ، اور نہ ہی یہ منطق درست ہے کہ
کیونکہ ہم سے پہلے کی حکومتوں نے بھی قرض لیے اس لیے ہم نے بھی ایسا ہی کیا،
یہ کوئی منطق نہیں، اگر کسی نے برائی کی تو آپ بھی اس پر عمل پیرا
رہیں۔جواب تو دینا ہی ہوگا آج نہیں تو کل، یہاں نہیں تو وہاں ۔ اب بھی وقت
ہے اس جانب توجہ دیجئے۔ قرض سے نجات کے لیے اقدامات کریں۔ پاکستان کی
سرزمین بڑی ذرخیز ہے، یہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اس
ٹیلنٹ کو کیسے ڈھونڈا جائے اور استعمال کیا جائے۔ قدرتی ذخائز کی اس ملک
میں کمی نہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان ذخائر کو تلاش کر کے کام میں لایا
جائے۔ اگر میاں صاحب یہ اعلان کردیں کہ آج سے میں ایک ناشتہ اور ایک کھا نا
کھاؤنگا ، قوم بھی اس پر عمل کرے، کیوں کہ ہم نے قرض نہیں لینا، یقین کریں
قوم کا ایک ایک بچہ آپ کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔ آپ کو یاد نہیں کہ آپ نے
اعلان کیا تھا کہ قرض اتارو ملک سنوارو تو اس قوم نے آپ کی کس کس طرح مدد
نہیں کی تھی۔ کیا ہوا اس قرض اتارو ملک سنوارو اسکیم کا؟
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تمام تر صلاحیتیں ، توانائیاں،
وسائل ، سرکاری مشینری، ذاتی مشینری کا پچیس فیصد صرف اس بات پر لگی ہوئی
ہے کہ حکومت کو کس طرح قائم رکھا جائے بچایا جائے ، عمران خان کا مقابلہ
کیسے کیا جائے، ایم کیوایم کو کس طرح قابو میں رکھا جائے، کیسی ترکیب کی
جائے کہ زرداری سے تعلقات خراب بھی نہ ہوں اور زرداری واپس ملک میں بھی نہ
آئے ،سندھ اور پختون خوا ہ حکومتوں سے کیسے نمٹا جائے، بلوچستان میں حکومت
بس چلتی رہے، مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو اپنے ساتھ کس طرح ملا کر رکھا
جائے، اے این پی تو اب کسی کھاتے میں ہے ہی نہیں،پچیس فیصد اس بات پر کہ
دہشت گردی سے کیسے نمٹا جائے، کس کو کس جگہ لگایا جائے، کس کو فارغ کردیا
جائے، صرف پچیس فیصد ملک کی بہتری پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ جو تھوڑی بہت
توانائی بچتی ہے وہ غیر ملکی دورہ پر خرچ کی جارہی ہے۔
آپ پاکستان کے کسی بھی قومی بچت کے مرکز چلے جائیں۔ وہاں 99فیصد افراد وہ
نظر آئیں گے جن کی عمرین 60برس سے زیادہ ہوں گی، ان میں ضعیف مرد اور
عورتیں شامل ہوتی ہیں، ان میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں اسٹک
ہوتی ہے، بعض بیساکھیوں کے سہارے چلتے ہوئے آرہے ہوتے ہیں۔ بعض ایسے مرد
اور عورتیں بھی ہوتی ہیں کہ جن کو ان کے عزیز رشتہ دار سہارا دے کر لارہے
ہوتے ہیں۔ وزیر خزانہ صاحب آپ کو ایسے لوگوں پر بھی ترس نہیں آیا، ایک
پرائمری اسکول ٹیچر ، ایک کلرک، ایک چپڑاسی جس کو پینشن کے وقت زیادہ سے
زیادہ 20لاکھ روپے مل جاتے ہوں گے ان میں سے نصف وہ اپنی ضروریات پر
لگادیتا ہے، جس میں مکان بنا نا ہے، بیٹی کی شادی کرنا ہے وغیرہ وغیرہ باقی
اگر اس نے 10لاکھ بہبود سیونگ سرٹیفیکیٹ یا پنیشنرز کاؤنٹ میں رکھ دیے تو
اسے اس رقم پر اب 9400روپے مل رہے تھے ۔ آپ نے اُس پر ظلم کیا کہ اس رقم کو
بھی کم کردیا اور اب اس کو 8800روپے ملیں گے گویا آپ نے جون کے بجٹ میں جو
10فیصد پینشن بڑھائی تھی وہ چھ ماہ بعد ہی واپس لے لی اور اب اس کو اپنی
جمع شدہ رقم ہر ماہ 600روپے کم ملیں گے۔ وزیر خزانہ صاحب یہ بظاہر بہت
معمولی سے رقم ہے اورآپ کے لیے تو یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں لیکن
اس غریب شخص کے لیے جس کے گھر میں چھ سے آٹھ افراد کھانے والے ہیں یہ رقم
اہمیت رکھتی ہے۔ ضررت تو اس بات کی تھی کہ غریب، تنخواہ دار اور پنشنرز،
بیواؤں اور بڑھاپا اسکیم پر منافع کی شرح کو بڑھایا جاتا نہ کے اِسے کم کر
کے غریب کی مشکلات میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ |
|