ٹیڑھی ٹانگوں والا بھنگی

معاشرتی تبدیلیوں پر ایک کہانی
نام تو اس کا نہ جانے کیا تھا لیکن اکثر اوقات وہ کسی نہ کسی گٹر کو کھولنے کے لئے یا تو ا میں اترنے کی تیاری کررہا ہوتا یا کسی گٹر سے باہر نکل رہاہوتا۔ اسکا حلیہ بھی عجیب تھا، لنڈا کی جینز کا کٹا ہوا نیکر پہنے ، پیروں میں کرمچ کے جوتے، اوپر ایک گندی سے بش شرٹ جو یا تو کسی صاحب کی اترن ہوتی یا اس نے کسی کوڑے کے ڈھیر سے اٹھائی ہوتی ۔ ، ہاتھ میں بانس کی کھپچیاں پکڑے کہیں نہ کہیں نظر آ ہی جاتا تھا ۔ اسے کبھی کوئی پرائیوٹ کام کرتے نہیں دیکھا گیا ۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ صرف کے ایم سی کی تنخواہ سے ہی کام چلاتا ہے ۔ اور اپنے کام سے اس کی لگن کا یہ حال تھا کہ میں نے اسے کرسمس کے دن بھی گٹر صاف کرتے دیکھا۔ ٹیڑھی ٹانگوں والا بھنگی جب کسی بند گٹر کو کھول کر باہر نکل رہا ہوتا تھا اس کے جسم سے گٹر کا گندا پانی بہہ رہا ہوتا ، اس کے سرکے بالوں میںکالی کیچڑ بھری ہوتی ۔ اور اکثر اس کے جسم پر گٹر کے کیڑے بھی رینگتے دکھائی دیتے تھے ۔ صبح صبح رحمانیہ کارنر کے دروزے کے باہر وہ اپنا مخصوص پیالہ لے کر بیٹھ جاتا اور ہوٹل کا بلوچ ویٹر ایک کپ چائے لا کر اوپر سے اس کے پیالے میں انڈیل دیتا۔ ایک پراٹھا اور ایک کپ چائے ٹیڑھی ٹانگوں والے بھنگی کا ناشتہ ہوتا تھا۔ اس کے بعد وہ کسی نہ کسی جگہ گٹر کھولنے میں مصروف دکھائی دیتا تھا ۔ انگریز بڑا چالاک تھا، اس نے ہندوستان پر قبضے کے بعد یہاں کے نیچ طبقات کے لوگوں کو عیسائیت کی جانب راغب کیا اور انہیں بتایا کہ لوگوں کی خدمت کرنا دنیا کا سب سے عظیم کام ہے ۔ اسی جذبہ کو باور کرا کر انگریز نے ایک ایساطبقہ تیار کر لیا جس کا کام ہی لوگوں کی گندگی صاف کرنا تھا ۔ ٹیڑھی ٹانگوں والے بھنگی کو تو شائد یہ بھی معلوم نہ تھا کہ انگریز کون تھا اور کیا کرتا تھا ، اسے بس یہی مذہبی تعلیمات یاد تھیں کہ لوگوں کی خدمت کر کے انسان عظیم بن سکتا ہے ۔ اور بلا شبہ ٹیڑھی ٹانگوں والے بھنگی نے لوگوں کی خدمت کو ہی عظیم جذبہ سمجھ رکھا تھا ۔ ورنہ کے ایم سی میں اور بھی بھنگی نوکری کرتے تھے۔ لیکن بند گٹر کے اندر اتر کر سانس روکے ہوئے گٹر کی تہہ تک جانا اور اسکا بند پائپ کھولنا اکیلے ٹیڑھی ٹانگوں والے بھنگی کی ذمہ داری نہ تھی ۔ جب میں نے جوانی میں قدم رکھا تو نہ ٹیڑھی ٹانگوں والا بھنگی یاد رہا نہ کوئی اور۔ بس ایک لگن تھی کہ قوم کی خدمت کرنی ہے ۔ انہی دنوں ایک قائد سامنے آیا اور میں بھی پوری قوم کے ساتھ اس قائد کے فرمودات کو سچ سمجھنے لگا ، قائد کا کہنا تھا کہ لوگ ہماری قوم کا استحصال کر رہے ہیں، اور انہیں ان کے جائز حقوق نہیں مل رہے ۔ میں نے ان باتوں کو سچ جانا اور چل پڑا اس قائد کے پیچھے ، میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے کی عملی تفسیر میرے لئے بہت حیران کن تھی ، ہمارے قائد کا حیدر آباد میں جلسہ تھا ، میں بھی اپنے اہل محلہ اور دوستوں کے ساتھ حیدر آباد پہنچا تو عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔ پٹھان کالونی میں لوگ رکشے توڑ رہے تھے ، میں نے ایک ساتھی سے کہا کہ ہم تو محبت کی بات کرتے ہیں،اس بے چارے پٹھان کا رکشہ کیوں توڑتے ہو، مجھے بتایا گیا کہ کراچی میں سہراب گوٹھ پر ہمارے جلوس کی گاڑیوں پر پٹھانوں نے فائرنگ کر دی جس سے ہمارے چار ساتھی شہید ہو گئے ہیں، یہ پٹھان ہی مہاجروں کے اصل دشمن ہیں ا ور ان سے کراچی اور حیدر آباد کو خالی کرانا ہے ۔

پکا قلعہ میں جلسہ ہوا تو واپسی کا راستہ اختیار کیا گیا اطلاعات تھیں کہ پولیس جلوس کی کراچی واپسی پر لوگوں کو گرفتار کرے گی ۔ اس لئے کراچی واپسی کیلئے نیشنل ہائی وے کا راستہ اختیار کیا گیا ۔ گھگر پھاٹک پر قیادت کو حراست میں لے لیا گیا ۔ کراچی پہنچے تو دنیا ہی بدل چکی تھی۔ جس پٹھان کے ہوٹل پر لوگ رات دو بجے تک بیٹھے چائے پیتے تھے آج اسی ہوٹل کو علاقے کے لوگ جلا رہے تھے ، میزیں توڑی جار ہی تھیں اور سامان کو آگ لگائی جا رہی تھی۔ پٹھانوں کی ہارڈ ویئر کی دکانوں کو لوٹا اور جلایا جا رہا تھا ۔ ۔ میں حیران تھا کہ ہم تو پڑھے لکھے لوگ ہیں پھر یہ کیا ہو رہا ہے۔پھر اس کے بعد شہر میں کرفیو لگتے رہے ، وقت گزرتا تھا، ایک کے بعد ایک حکومت آئی ، سماجی تبدیلیاں رونما ہوئیں ،سیاسی جغرافئے بدل گئے۔ اب ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے ۔ نا کوئی محکمہ درست کام کر رہا ہےنا ہی معاشرے میں اخلاقیات باقی رہ گئیں۔ چھوٹوں نے بڑوں کی عزت کرنا چھوڑ دی اور تعلیم تجارت بن گئی ۔ روزگار بندہو گیا ۔ ہر طرف کلاشنکوف کلچر اور بھتا مافیا موجود ہیں۔مصلحان قوم نہ جانے کون سے کھیت کی افیم چڑھا کر سو گئے ۔جو اچھے لوگ تھے انہیں موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ہر طرف اخلاقی گندگی ہے ،دماغوں میں کچرا بھرا ہے ، گالیوں اور طعنوں کے گٹر ابل رہے ہیں اور سڑکیں نجاست سے اٹ گئی ہیں ۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ بیت گیا میں نے ٹیڑھی ٹانگوں والے بھنگی کو نہیں دیکھا ۔۔۔۔شاید مر گیا ۔
عادل ظفر خان
About the Author: عادل ظفر خان Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.