مسلم ممالک کے اتحاد کو متنازعہ بنانے کی کوششیں

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

سعودی عرب کی قیادت میں 34مسلم ملکوں کے اتحاد کا اعلان کئے جانے کے بعد سے دہشت گردی ختم کرنے کیلئے حکومتوں کی سطح پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور آئندہ کیلئے متفقہ لائحہ عمل ترتیب دینے کیلئے ہوم ورک کیا جارہا ہے لیکن دوسری جانب مسلم ملکوں کو متحد ہوتا دیکھ کر بعض قوتیں مسلسل اسے متنازعہ بنانے اور فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششیں کر رہی ہیں ۔پاکستان میں بھی ایک مخصوص لابی یہی کام کر رہی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف مسلم ممالک کے اتحاد کی سب سے زیادہ مخالفت کرتی دکھائی دیتی ہے۔ عمران خاں کا کہنا ہے کہ اس مسئلہ کو پارلیمنٹ میں اٹھانا چاہیے۔ اسی طرح بعض دیگر شخصیات بھی یہی راگ الا پ رہی ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکومت کے ہر عمل کی مخالفت کرنا فرض سمجھتی ہیں چاہے وہ ملک و قوم کے کتنے ہی فائدہ میں کیوں نہ ہو؟جب تک یہ اتحاد نہیں بنا تھا تو اس وقت تک سب کی زبانوں پر یہی تھا کہ مسلم ملکوں کو اپناتحاد بنانا چاہیے اور مسلم امہ کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اغیار کے رحم و کرم پر نہیں رہنا چاہیے لیکن جب پاکستان، سعودی عرب، ترکی اور دوسرے مسلمان ملکوں کی مشترکہ کاوشوں سے ایک اتحاد بن گیا تو اب محض اس لئے اس کی مخالفت کی جارہی ہے کہ اس کا کریڈٹ حکمران جماعتوں کو جائے گاوگرنہ اس مخالفت کی کوئی ٹھوس وجہ نظر نہیں آتی۔ سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا جارہا ہے کہ پاکستان اس مسئلہ کو پارلیمنٹ میں لے کر جائے۔ جو لوگ یہ مطالبہ کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح یمن میں حوثیوں کی بغاوت سے سعودی سرحدوں کو درپیش خطرات کے مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا تھا‘ اسی طرح مسلم ممالک کے اتحاد کے معاملہ کو بھی یونہی الجھا دیا جائے۔یمن میں بغاوت کے مسئلہ پر بھی سیاسی و عسکری قیادت حرمین الشریفین کے تحفظ کیلئے سعودی عرب سے بھرپور تعاون کیلئے تیار تھی لیکن محض ذاتی و سیاسی مفادات کی خاطربعض سیاستدانوں کی جانب سے اس مسئلہ کی اتنی مخالفت کی گئی کہ حکومت اس معاملہ کو پارلیمنٹ میں لیجانے پر مجبور ہو گئی اور پھر کئی دن تک جاری رہنے والے اس اجلا س میں برادر اسلامی ملک کا میڈیا ٹرائل کرتے ہوئے بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی رہیں جس کا بہت زیادہ نقصان ہوا اور ہم نے اپنے اس محسن ملک کو ناراض کر لیاجس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کا حق اد ا کیا اور اس سلسلہ میں کبھی کسی بیرونی دباؤ کی بھی پرواہ نہیں کی۔بہرحال سعودی عرب سے تعاون کے حوالہ سے زیر اعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ جو پہلے ہی دباؤ میں آکر غلط فیصلہ کر چکی تھی سنبھل نہ سکی اور پارلیمنٹ اجلاس کے بعد بھی کوئی واضح فیصلہ نہ آسکاتاہم اس دوران پارلیمنٹ میں سعودی عرب کے خلاف جو بیان بازی کی جاتی رہی اس کا دکھ اور غم سعودی حکمران و عوام آج بھی اپنے سینوں میں محسوس کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کی جانب سے یہ پروپیگنڈا بھی کیا جارہا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اوراس اتحاد میں یونہی اس کا نام شامل کر دیا گیا ہے۔ یہ انتہائی بھونڈا پروپیگنڈا ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے طویل عرصہ سے کوششیں کر رہے ہیں اور دونوں ممالک کی سیاسی و عسکری قیادتوں کے درمیان مسلم امہ کو درپیش اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ خاص طور پر زیر بحث رہا ہے۔ پاکستان کی سعودی عرب اور پھر ترکی کی افواج کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کی جانے والی مشترکہ مشقیں اسی مقصد کے تحت کی جاتی رہی ہیں کہ سب مل کر مسلمہ امہ کو نقصانات سے دوچار کرنے والے دہشت گردی کے عفریت سے کس طرح نمٹ سکتے ہیں؟رواں سال اکتوبر میں ہی پاکستانی فوج کی جانب سے انسداد دہشت گردی کیلئے بنائی گئی سعودی اسپیشل فورسز کو ٹریننگ دینے کا آغاز کر کے دوطرفہ دفاعی تعلقات کے نئے دور کی شروعات کی گئی ہیں۔چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے پاک سعودی افواج کی مشترکہ مشقوں کے بعد سعودی عرب کا دورہ کیا تو اس وقت بھی انسداد دہشت گردی کی کوششوں پرخاص طور پر بات چیت کی گئی تھی۔ پاکستان نائن الیون کے بعد چونکہ دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار رہا ہے۔ آئے دن بم دھماکوں اور خودکش حملوں سے پاکستانی افواج اور دیگر دفاعی اداروں کو بہت زیادہ نقصانات اٹھانا پڑے تاہم اﷲ کا شکر ہے کہ افواج پاکستان نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعہ ملک میں پھیلے ہوئے بیرونی قوتوں کی تخریب کاری و دہشت گردی کے پھیلائے گئے تمام نیٹ ورک بکھیر کر رکھ دیے اور دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ساری دنیا پاکستان کی افواج اور اداروں کی کامیابیوں کا کھلے عام اعتراف کرتی نظر آتی ہے۔ سعودی عرب، ترکی اور دیگر مسلم ممالک پاکستان کے اس اتحاد میں شامل ہونے پر بہت خوش ہیں کہ اس سے ان کی افواج کو بھی دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے پاک فوج کے تجربات سے استفادہ حاصل کرنے کا بھرپور انداز میں موقع ملے گا۔ مسلمان ملکوں کے اتحاد کی خبریں میڈیا کے ذ ریعے منظر عام پر آنے کے فوری بعد اگرچہ پاکستانی سیکرٹری خارجہ کی جانب سے یہ غلطی کی گئی کہ انہوں نے یہ بیان داغ دیا کہ پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا حالانکہ انہیں چاہیے تھا کہ وہ پہلے مرکزی قیادت سے اس سلسلہ میں مکمل معلومات حاصل کر لیتے اور پھر کوئی بات کرتے ۔ سیکرٹری خارجہ کے اس بیان سے ابتدائی طور پر تو ابہام پیدا ہوا تاہم بعد ازاں یہ کہ نا صرف سیکرٹری خارجہ سے اس بیان کی وضاحت طلب کی گئی بلکہ پاکستانی دفتر خارجہ نے واضح طور پر پاکستان کی اس اتحاد میں شمولیت کی تصدیق کی اور کہا کہ ہم ریاض کی جانب سے آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالہ سے مزید تفصیلات ملنے پر پاکستانی دائرہ کار سے آگاہ کریں گے۔ بعض تجزیہ نگاروں کی جانب سے یہ بھی کہاجارہا ہے کہ پاکستان کے مسلم ملکوں کے اتحاد میں شامل ہونے کی بات حکومت نے خود ابھی ظاہر نہیں کی تھی اور دفتر خارجہ کو بھی اس سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا اس لئے سیکرٹری خارجہ غلطی میں بیان دے بیٹھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دیکھا جائے تو یہی بات حقیقت کے قریب دکھائی دیتی ہے۔دفترخارجہ کے بعد میں جاری ہونے والے بیان سے بھی یہی بات ظاہر ہوتی ہے ۔مسلم ممالک کے اس اتحاد کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی سازش کرتے ہوئے یہ باتیں بھی کی جارہی ہیں کہ جب تک اس میں ایران، عراق اور شام شامل نہیں ہوں گے اس اتحا د کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ اعتراض بھی درست نہیں ہے۔ عراق جہاں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کرکے امریکیوں نے اپنی مرضی کے لوگوں کو اقتدار میں بٹھا دیاوہ اس اتحاد میں کیونکر شامل ہوگا اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟ ایران جس پر یمن میں بغاوت کرنے والے حوثی باغیوں جو آئے دن سعودی سرحدوں پر میزائل داغتے ہیں ‘کی مددوحمایت کا الزام ہے؟ کیا وہ اس اتحاد میں شامل ہونے کیلئے تیار ہوگا؟۔ اسی طرح شام جہاں بشار الاسد کی حکومت ہے اور جس نے اپنا اقتدار بچانے کیلئے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کروادیا ۔ کیا اسے اتحاد میں شامل کیا جاسکتاہے؟ میں سمجھتاہوں کہ ایسی باتیں صرف سعودی عرب کی زیر قیادت اتحاد کو متنازعہ بنانے کی کوششوں کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔اب تو چین نے بھی واضح طور پر مسلم ملکوں کے اتحاد کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے جو کہ بہت بڑی پیش رفت ہے۔ چین کا موقف سامنے آنے کے بعد سعودی دارا لحکومت ریاض میں خادم الحرمین الشریفین کی زیر صدارت ایک اجلاس ہواہے جس میں دہشت گردی کے خلاف عسکری محاذ وں کے ساتھ ساتھ ابلاغی اور فکری محاذوں پر بھی پوری قوت سے جنگ لڑنے کا اعلان کیا گیا ہے جو کہ بہت ضروری اور خوش آئند امر ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ بہت دیر کے بعد مسلم ممالک کے اتحاد کی شکل میں امت مسلمہ کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔ ہمیں مایوسیاں پھیلانے کی بجائے اس اتحاد کی کامیابی کیلئے دعائیں کرنی چاہئیں اور اسے متنازعہ بنانے کی کوششیں کر کے اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے سے باز رہنا چاہیے۔
Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 141286 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.