یوں تو ہر روز دنیا میں کئی لوگ آتے اور
جاتے ہیں یہی نظام قدرت صدیوں سے جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گا مگر کچھ
لوگ دنیا میں ایسے بھی آئے جنہوں نے تاریخ کا دھارا ہی نہیں بدلا بلکہ
ہمیشہ کیلئے ایسی تاریخ رقم کی جوفراموش نہ کی جاسکے۔ انہی عظیم ہستیوں میں
سے ایک بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ بھی ہیں۔ کراچی کی وزیر
Mension میں پونجا جناح کے ہاں 25 دسمبر 1876ء کو جنم لینے والا نو نہال
محمد علی جناح اپنی محنت مسلسل جدوجہد اعتدال پسندی اور نتھک کوشش کے نتیجے
میں جب 72 سال بعد دنیا سے رخصت ہوا تو دنیا میں اُس کے اپنے تو کیا غیر
بھی اُسے قائد اعظم محمد علی جناح بلانے پرمجبور تھے۔ قائد اعظم کے حالات
زندگی جدوجہد اور اُن کی زندگی کے اوراق نصاب کی کتابوں میں موجود ہیں اس
لیے یہاں انہیں زیر بحث لانا موضوع نہ ہوگا۔ہمیں تو 2015ء کے آئینے میں آج
کے قائد اور قائد اعظم جن کا اتفاقاً یوم پیدائش ایک ہے میں تقابل جاننے کی
کوشش کرنی ہے۔ قائد اعظمؒ یقیناً ایک معتدل شخصیت تھے لیکن اُن کی اﷲ تعالیٰ
اور اپنے نبیؐ سے وابستگی پر کاری ضرب لگانے والے روشن خیال مافیا نے اُن ر
لیبرل ہونے کا جو گھنونا الزام لگایا اس کے ثبوت کی فراہمی میں وہ ہمیشہ
ناکام رہی اور رہے گی لیکن آج کے قائد تو اعلان کر چکے ہیں کہ وہ پاکستان
کو لیبرل ریاست بنا کر رہیں گے یہی موصوف آج سے 18 سال پہلے قرآن و سنت کو
ملک کا سپریم لاء بنانے کے چکر میں آئین میں چودھویں اور پندرھویں ترمیم کر
چکے ہیں امیر المومنین بننے کی خواہش میں انہیں جیل اور جلا وطنی برداشت
کرنا پڑی اور پھر دوست ملک کی ذہن ساز فیکٹری نے انہیں لیبرل بنا کر
پاکستان واپس بھیجا اور ملک میں دشمن کی ثقافتی یلغار حرام اشیاء کی
درآمدات میں اضافہ، مساجد کے سپیکرز کی بندش اور تھیٹر کے ورگل ڈراموں کو
آزادی یقیناً ثابت کرتی ہیں کہ انہی کے ہاتھ سے ایک لیبرل پاکستان بنے گا
جو جنرل ضیاء کی قبر پر اس کا مشن پورا کرنے کا اعلانیہ عہد کرتے رہے ہیں
اسلام کے آنے اور مکمل ہونے کے بعد لیبرل سوشلسٹ ، کمیونسٹ غرض کسی اور
نظام کا کوئی مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتا،لیکن ہمیں اپنے مذہب کو کتابوں
میں بند کر کے الماریوں میں سجانا تو آتا ہے مگر اس پر عمل کرنا اسے نافذ
کرنا نہیں ۔ قائد اعظمؒ جن کا آج ہم یوم پیدائش انتہائی عقیدت اور احترام
سے منارہے ہیں کہ تصور پاکستان میں کہیں بھی یہ شامل نہیں تھا کہ ہمارے
حکمران وزیر مشیر جہاں سے گز ریں گے وہاں گھنٹوں پہلے عام آدمی تو کیا مریض
تک کو گزرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ حکمران موت کے خوف میں مبتلا ہو کر گاڑیوں
کی لمبی قطاروں میں گزرتے ہوئے غریب عوام کو کیڑے مکوڑوں کی طرح روند کر
نکل جائیں گے۔ قائد کا تصور پاکستان یہ نہ تھا کہ بجلی، گیس کے بل آئیں گے
مگر بجلی، گیس نہیں۔ MNAاور MPA کے بل اُن کے بجائے غریب عوام سے لئے جائیں
گے۔یہاں روشن خیالی کے نام پر قلع اسلام کی مسجدیں ویران ہوں گی رمضان میں
چور بازاری عام ہوگی۔غریب کوڑے کے ڈھیر پر پڑے ٹکڑوں سے افطاریاں کریں گے۔
سود کو خدا کے خلاف جنگ سمجھنے کے بجائے سربراہ مملکت علماء سے اسے جائز
قرار دینے کی اپیل کرے گا۔ شراب کو مشروب جوئے کا کاروبار لغویب اور فحاشی
کو انسنای آزادی دعوت و تبلیغ کو جرم بھیک کو ضرورت ڈاکٹر عافیہ جیسی
بیٹیوں کو بیچنا مصلحت، ریمنڈ ڈیوس جیسے غنڈوں کو چھوڑنا قومی مفاد، غریب
مجرم کو لٹکانا انصاف کا بول بالا طاقتوروں کو چھوڑ دینا سیاسی مصلحت
ہوگی۔قائد کا تصور پاکستان تو یہ بھی نہ تھا کہ اُن کے یوم ولادت اور برسی
پر اُنہی کے ملک کا میڈیا انہیں گاندھی کے ملک کے اداکاروں سے بھی کم کوریج
دے گا۔ بچے اُن کے نام پر منائی جانیوالی چھٹی پر سارا دن کارٹون، فلمیں
دیکھیں گے اور تاش کھیلیں گے۔ قائد کے تصور پاکستان کو ہم نے نہ جانے مل جل
کر یہاں دفن کیا کہ آپ کے تصورات کا مزار تک باقی نہیں۔ زیارت میں آپ کے
گھر کو جلانے والے دشمنوں نے تو صرف ایک Residancy جلائی تھی ہم نے اپنی
جھوٹ کی دکانوں میں قائد کے نظریات ، خیالات افکارات غرض سب کچھ جلا دیا۔
قائد کی عظیم تصویر والے نوٹوں کو ہم بطور رشوت استعمال کر کے اُن کی روح
کو تڑپاتے ہیں اس سے بڑھ کر اور بد قسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ پاکستان کی
خالق جماعت مسلم لیگ آج ایسے ہاتھوں میں جہاں یہ بظاہر تو مسلم لیگ کہلاتی
ہے لیکن اس لیگ میں مسلم والی ایک بات بھی شامل نہیں۔ قائد کے پاکستان کا
یہ حال ہے کہ چور چوکیدار ظالم مظلوموں کے داد رس مفلسی کو عام کرنے والے
بھوکوں کے نگہبان ہیں جس سبز ہلالی پرچم نے پوری اُمت کو قیادت کرنی تھ ی
وہ ملک اپنے حکمرانوں پر کئے گئے کچھ عرب بادشاہوں کے احسان اُتارنے کے چکر
میں ایران جیسے دوست کو ناراض کر چکا ہے جس نے اس سب سے پہلے تسلیم کیا تھا
قائد کے پاکستان میں اقبال ڈے پر روشن خیال دانش ور اُس کی قدرو منزلت کا
تمسخر اُڑاتے ہیں قائدکے پاکستان میں قائد کا وہ کلائنڈ جس کے قدر دان قائد
خود تھے غازی علم دین شہید وہ نصاب میں شامل نہیں کیونکہ قائد کے پاکستان
میں بچوں کے ذہن چند ڈالرز کے عوض فروخت کر کے انہیں اپنے مشاہید کے بجائے
پرتھوی، چرچل اور چیپس پڑھائے جاتے ہیں ۔ قائد کے پاکستان میں کبھی جمہویت
کے دعویدار عوام کا خون نچوڑتے ہیں تو کبھی آمریت کے سائے میں ڈھاکہ ڈبویا
جاتا ہے۔ قائد کے پاکستان میں ان پڑھ بلدیاتی نمائندوں سے انگریزی میں حلف
لے کر مولوی عبد الحق کی روح کو تڑپایا اور انگزیر آقاؤں کو اپنے وفادار
ہونے کا ثبوت دلوایا جاتا ہے۔ قائد کے پاکستان میں قائد اعظم پر لکھی گھی
کتابیں تو بے حساب ہیں مگر قارئین نہ ہونے کے برابر۔ اﷲ رب العزت کے
پاکستانیوں پر کئے گئے ان گنت احسانات میں سے ایک بڑا احسان قائد اعظم محمد
علی جناح کا اس قوم کا قائد ہونا بھی ہے۔ پاکستانیوں کو اپنی صحیح سمت کے
تعین کیلئے قرآن سنت نظریہ اقبال اور اقوال قائد اعظم کی صورت ایسے رہنما
اصول میسر ہیں کہ صرف اگر انہیں ہی اپنا لیا جائے تو ہم ایک فلاحی ریاست بن
سکتے ہیں۔یوم قائد کی مناسبت سے 25 دسمبر کی خوشیوں میں پاکستان کی اقلیت
مگر پاکستان کا قیمتی اثاثہ یعنی مسیحی برادری کو شامل کرنا بھی ضروری ہے
جو کہ کرسمس اور یوم قائد منا رہی ہے اس دن کو منانے کے تقاضے ایک الگ
موضوع ہے۔ تاہم موجودہ دور میں قائد اعظمؒ سے منسلک ہر یاد کو بھر پور
انداز سے منانا وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے اور پاکستان کی بہکی ہوئی نئی
نسل کے گرم لہو میں قائد کی محبت کو پیوست کرنے کیلئے پاک دھرتی کے محبین
کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں باہمی اعتدال برداشت اور ایک دوسرے
کیلئے گنجائش تو پیدا کرنے کی ضرورت ہے لیکن قائداعظم کی جدوجہد نظریات اور
فکرکو مسخ کر کے پیش کرنے والے گاندھی پرست دانش وروں کی چلنے والی جھوٹ کی
دکانیں اور اُن میں لگے منافقت کے بیرونی کنکشن کاٹنے ہوں گے۔ یہ کوئی ایک
دن یا ایک تقریب یا کسی حکمران کے پرانے پیغام پر نئے دستخط کا کھیل نہیں
یوم قائد دراصل اُس عظیم بے مثل جدو جہد کو سلام کرنے کا دن ہے جو قائد
اعظم نے کی۔ دنیا کا کوئی سیاسی رہنما اتنا مدلل نہ تھا نہ ہے جس قدر کہ آپ
قائد اعظم تھے اور قائد اعظم کی کامیاب جدو جہد اور تا قیامت تاریخ میں
زندہ رہنے کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے آپ کا نہ صرف عاشق رسول
ہونا بلکہ آپ کا اﷲ کی رسی کو تھام کر اﷲ نبیؐ سے ایسی محبت کرنا کہ اُن کے
ہر قول پر حکم کو ناٖذ کرنے کیلئے ایک علیحدہ ریاست قائم کرنا یوم قائد پر
پیغام حق صرف یہی ہے جسے ہمیں عام کرنا ہے پاکستان اسلام کے نام پر بنا یہ
قلع اسلام ہے ۔ دو قومی نظریہ زندہ ہے۔ قائد لیبرل رہنما نہیں سچھے مسلمان
تھے اور آج جب ہمارے قزیر اعظم اپنی سالگرہ کے کیک پر چھری پھیرنے لگیں تو
ایک لمحے کیلئے سوچ لیں کہ قائد کے لیبرل ہونے کا سرٹیفکیٹ کسی سابق نگراں
وزیراعلیٰ پنجاب کے پاس نہیں قائد اعظم تو داعی اسلام تھے اُنہی کی تاریخ
پیدائش پانے والا وہ رنما جو خود کو ثانی قائد سمجھتا ہو وہ کس طرح سے قائد
کے نظریات سے بھٹک کر روشن خیالوں کے چنگل میں پھنس سکتا ہے۔ آج کے تو بچے
بھی نادان نہیں پھر 64 سالہ با شعور رہنما لیبرلزم کی نادانی میں کس طرح
پھنس سکتا ہے آپ کو سالگرہ تو مبارک ہو لیکن یہ تو بتائیے آپ اپنے پچھلے
دور میں تو امیرالمومنین بننے کے قریب تر تھے اب کیا ہوا کہ آپ رضیہ ہی بن
گئے جو غنڈوں میں پھنسی ہے؟ |