جب قائد اعظم نے تاریخی کوہالہ پل عبور کیا؟

میں جانتا ہوں مری کا پتہ پتہ مسلم لیگی ہے جبکہ ہمیں ہندو کانگریس اور انگریز سامراج کا سامنا ہے،،چکی کے یہ دو پاٹ ہمیں پس دینے پر تلے ہوئے ہیں،آپ دونوں کے درمیان لوہے کے چنے بن جائیے تاکہ پس نہ جائیںِ َ ، قائد اعظم کا مری میں خطاب
راجہ کالا خان نے مری میں نہ صرف قائد اعظم کی میزبانی کی بلکہ انہیں قبائل کوہسار کی طرف سے مسلم لیگ کے فنڈ میں ایک لاکھ روپے کا چیک بھی پیش کیا

یوں تو کوہسار پر گکھڑوں کے یکطرفہ اقتدار کے خلاف معرکہ آرائی اور رنجیت سنگھ کے دربار لاہور اور پھر جموں کے تہزیب و تمدن کے دشمن گلاب سنگھ کی بدکردار اور لٹیری حکومت کے خاتمہ کے بعد ہند بھر کے مسلمانوں کی طرح اہلیان کوہسار کے ہاتھ کچھ بھی تو نہ آ سکا، پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے نتیجے میں برطانوی استعمار نے جب برصغیر سے اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کیا تو سوال پیدا ہوا کہ انگریزوں کے اس خلا کو کون پر کریگا، یہاں تو ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے حکومت کی تھی، جس کی وجہ سے تمدن خور ہندوستانی تہذیب کو نئی اقدار حکومت و سماج سے آشنا ہوئی اور اس بتکدے میں ہکتا و تنہا رب الارباب کی صدائیں بلند ہوئیں..........یہی وہ دوقومی نظریہ کی اساس تھی جس نے ہندو، ہندی اور ہندوستان کا نعرہ مسترد کرتے ہوئے مسلم، اردو اور پاکستان کا فلک شگاف نعرہ لگا دیا اور قائد اعظم کی سرفروشانہ قیادت میں جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام کا قلعہ یعنی پاکستان قائم کر دیا، جہاں آج ہم آزادی کے سانس لے رہے ہیں۔

برصغیر کے پہلے انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی اور کوہسار میں ہندونواز کانگریس سمیت دیگر جماعتوں کے عوامی استرداد کے بعد یہ بات الم نشرخ ہو چکی تھی کہ ہادی دوعالم ﷺ کے پروانے مسلم لیگ، قائد اعظم اور پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے آپشن کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں اور گکھڑوں کے آٹھ سو سالہ اقتدار کے خاتمہ، رنجیت سنگھی اور گلاب سنگھی راجواڑوں نے اہلیان کوہسار کی تہذیب و ثقافت کو لوٹنے کیلئے کتھریوں کی ایک بڑی تعداد کو یہاں لا بسایا تھا انہیں بھی معلوم ہو گیا تھا کہ اب یہاں ان کی کو ئی گنجائش نہیں رہی اور اب انہیں اس پاک سرزمین سے انخلا کرنا ہی پڑے گا۔ چنانچہ ایبٹ آباد شہر سے باہر کانگریس اور سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان سمیت دیگر مسلم لیگ مخالف جماعتوں کا کوئی اثرو رسوخ نہ ہونے کے برابر تھا، 23 مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور جو بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی کی منظوری کے بعد سرکل بکوٹ کی سیاست میں تبدیلی رونما ہوئی اور سرکل بکوٹ کے کانگریس نواز جاگیردار سردار حسن خان لے بھی چولا بدلا اور مسلم لیگ جوائن کر لی اور اہلیان کوہسار نے انگریزی اقتدار کے آخری 1945ء کے الیکشن میں سرداری کی پگ اسی کے نام کر دی۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔ آزادی کے بعد 1952ء کے پہلے الیکشن میں اسے ہمیشہ کیلئے مسترد کر دیا۔ سردار حسن علی خان کی اسی یونین کونسل بوئی کے رہائشی کشمیری نژاد سید غلام حسین کاظمی نے بر صغیر کی تاریخ صحافت میں پہلی بار1936 میں ایبٹ آباد سے ہفت روزہ پاکستان کے نام سے اخبار نکال کر پاکستان کا پیغام عام مسلمانوں تک پہنچانے کی کوشش کی، چوہدری رحمت علی تو اس وقت تھرد ائر کے سٹوڈنٹ تھے۔ ان کا یہ دعویٰ بلکل درست نہیں کہ وہ لفظ پاکستان کے خالق ہیں بلکہ پاکستان کا نام تو سرکل بکوٹ کے ایک پسماندہ دیہاتی علاقے بوئی کے سید غلام حسین کاظمی کے ذہن کی اختراع ہے، جدید علمی تحقیقات نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے۔(تفصیلات کیلئے دیکھئے Pakistan Chomical از عقیل عباس جعفری بحوالہ روزنامہ جنگ راولپنڈی، 16اگست2012ء)

قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد قیام پاکستان کی منزل جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کو چند قدم کے فاصلے پر نظر آنے لگی لیکن ابھی حصول منزل کیلئے کافی جد و جہد کی ضرورت تھی، سحر پیدا کرنے کیلئے ابھی ہزاروں ستاروں اور سیاروں کی قربانی پیش کی جانی تھی۔

شمالی پنجاب میں مسلم لیگ کی مقبولیت اور کانگریس و حکمران یونینسٹ پارٹی کے زوال کے آثار نمایاں تر ہوتے جا رہے تھے، جوہر لال نہرو اس صورتحال سے پریشان تھے۔ اس سلسلے میں وہ کشمیر کے راستے کوہسار آنے کیلئے کوہالہ پل پر پہنچے ، مگر کوہسار کے مسلمانوں نے محارہ کے طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر تھپڑ رسید کر کے نہرو کو غربی کوہالہ میں قدم بھی رکھنے نہیں رکھنے دیا اور اسے وہاں سے ہی واپس دہلی جانا پڑا، یہ تھپڑ بھی قیام پاکستان کی نا گزییریت کی ایک اینٹ تھی، قائد اعظم محمد علی جناح نے اس خطہ کے لوگوں اور اپنے جانثاروں سے براہ راست رابطے کیلئے یہاں آنے کا پروگرام بنایا، آپ جولائی 1944ء میں کشمیر کے راستے کوہالہ کے قریب برسالہ کے مقام پر پہمچے، قائد کی جھلک دیکھنے کیلئے غربی کشمیر، سرکل بکوٹ اور مری کے کوہساروں کے چپہ چپہ سے لوگوں کا سمندر امڈ آیا تھا، قائد اعظم کی کار کو کوہسار کے پھولوں سے لاد دیا گیا تھا، قائد نے یہاں چائے نوش جاں کی اور پھر آدھے گھنٹے بعد کوہالہ پل پر پہمچے تو اہلیان کہسار ان کے ہاتھ چومنے کیلئے آگے بڑھنے لگے، کوہالہ کا یہ تاریخی پل پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجھنے لگا، آپ نے ہاتھ ہلا ہلاکر پاکستان کے متوالوں کے سچے اور سُچے جذبات کو سراہا، سرکل بکوٹ کے ہزاروں افراد کا قافلہ ان کے ساتھ دیول تک ساتھ آیا۔نور الٰہی عباسی اپنی کتاب تاریخ مری (نیا ایڈیشن) کے صفحہ نمبر 185پر لکھتے ہیں۔

اس موقع پر لوئر دیول کے بزرگ رہنما امیر احمد خان صفوں کو چیرتے ہوئے آگے نکل کر قائد اعظم کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، انہوں نے بصد خلوص احترام پھولوں کا گلدستہ پیش کرتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا کہ برگ سبز است، تحفہ درویش است، (ایک بزرگ کی طرف سے سبز پتوں کا تحفہ قبول کر لیجئے) یہ کہتے ہوئے بابا امیر خان کی نظریں بابائے قوم کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں ۔۔۔۔۔ قائد اعظم نے بابا جی سے پوچھا۔

بابا جی بتائیں میں کون ہوں اور میرا مشن کیا ہے؟
جی آپ مسلمانوں کے عظیم رہنما اور قائد اعظم محمد علی جناح ہیں اور برصغیر کے مسلمانوں کے لئے آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ بابا احمد خان نے بڑی متانت سے جواب دیا۔

قائد اعظم نے مری پہنچ کر جو تقریر کی وہ اگرچہ انگریزی زبان میں تھی اور اس کا مری کے ممتاز مسلم لیگی رہنما خواجہ محمود احمد منٹو ساتھ ساتھ اردو میں ترجمہ بھی کر رہے تھے (یہ تقریر پاکستان نیشنل آرکائیوز اسلام آبادکے ریکارڈ میں موجود نہیں) نور الہی عباسی ہی اس کے راوی ہیں، اپنی کتاب تاریخ مری میں لکھتے ہیں۔
۔۔۔۔ میں جانتا ہوں مری کا پتہ پتہ مسلم لیگی ہے جبکہ ہمیں ہندو کانگریس اور انگریز سامراج کا سامنا ہے،،چکی کے یہ دو پاٹ ہمیں پس دینے پر تلے ہوئے ہیں،آپ دونوں کے درمیان لوہے کے چنے بن جائیے تاکہ پس نہ جائیں۔ (، اس موقع پر راجہ کالا خان نے نہ صرف قائد اعظم کی میزبانی کی بلکہ انہیں قبائل کوہسار کی طرف سے مسلم لیگ کے فنڈ میں ایک لاکھ روپے کا چیک بھی پیش کیا )۔

قائد کا کوہسار سرکل بکوٹ اور مری کا یہ پہلا اور آخری دورہ تھا، آپ کے اس دورے کا اثر یہ ہوا کہ یہاں مقیم کانگریسیوں کے حوصلے پست ہو گئے، علاقے میں ایک نیاجوش و ولولہ دوڑ گیا اور واقعی کوہسار کا پتہ پتہ مسلم لیگی ہو گیا، اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کی عید آزادی کی صبح نمودار ہو گئی۔۔۔۔لیکن آج 70 سال بعد وہ خواب جسے اقبال اور قائد اعظم نے دیکھا تھا اس کی تعبیر معکوس نے قوم کو مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔۔۔۔ کیا خلد بریں میں موجودہ پاکستانی حالات پر قائد اور اقبال کی روح تڑپتی نہ ہو گی؟
Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 64758 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More