مودی سرکار کی پالیسی ’’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘‘ والی ہے

پاکستان کے ساتھ اب تک کے بھارتی رویے‘ کشمیر پر اس کی ہٹ دھرمی کے تسلسل‘ انتہا پسندانہ ہندو سوچ اور جنگی جنون بڑھانے کی مودی سرکار کی پالیسی کو پیش نظر رکھ کر ہمیں پاکستان کے ساتھ دوستی اور تعلقات کی بحالی کے لئے بھارتی وزیراعظم کی جانب سے کی جانے والی پیش رفت پر انتہائی محتاط رہنا ہو گا اور اس امر کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر دوستی کا جوابی ہاتھ بڑھانا چاہئے کہ اس خوشگوار ماحول میں آیا مودی سرکار کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی چھوڑ کر اس دیرینہ مسئلہ کے یو این قراردادوں کی روشنی میں حل کے لئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر آمادہ ہے۔
گزشتہ روز وہ اپنے دورہ ماسکو سے واپسی پر کابل سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سیدھے لاہور آپہنچے جہاں وزیراعظم نواز شریف ان کے استقبال کے لئے موجود تھے چنانچہ وہ انہیں لاہور ائرپورٹ سے سیدھےرائے ونڈ لے آئے۔ مودی نے انتہائی خوشگوار ماحول میں جاتی امرا میں وزیراعظم نواز شریف کی 66ویں سالگرہ اور ان کی نواسی مہر النسا کی رسم حنا کی تقریب میں شرکت کی۔ وہاں موجود شریف فیملی کے ارکان اور دیگر لوگوں میں گھل مل گئے اور پاکستان کے خلاف چند گھنٹے قبل کابل میں انگارے برساتی اپنی زبان میں رس گھول دیا۔ اس طرح وہ شیریں سخنی کے باعث توجہ کا مرکز بنے رہے۔

نریندر مودی کے لاہور اور جاتی امرا کے اس دورے کو اگرچہ اچانک دورے سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری کے بقول نریندر مودی نے گزشتہ روز کی صبح ساڑھے گیارہ بجے اپنے ہم منصب وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کو فون کرکے پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر وزیراعظم نواز شریف نے انہیں لاہور میں اپنی موجودگی کی اطلاع دی اور انہیں اپنی اقامت گاہ پر آنے کی دعوت دی اس طرح نریندر مودی کی پاکستان آمد اور میاں نواز شریف سے ان کی ملاقات اچانک ہوئی ہے جس کے باعث اس ملاقات میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز‘ طارق فاطمی اور قومی سلامتی کے مشیر جنرل ناصر جنجوعہ اسلام آباد میں موجود ہونے کے باعث شریک نہ ہو ے۔ تاہم مودی کا اچانک لاہور آنا اس لئے بھی قرین قیاس نہیں کہ انہیں اور ان کے ساتھ پاکستان آنے والے ان کے وفد کے ارکان کو پاکستان کا ویزہ جاری ہونے میں تو کچھ وقت لگا ہو گا کیونکہ اب وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی نظروں سے خود کو بچا کر کوئی غیر ملکی باشندہ بغیر ویزہ لئے پاکستان میں داخل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت دنیا کو ’’سرپرائز‘‘ دینے کے لئے مودی کے اس غیر رسمی دورہ پاکستان پر ’’اچانک دورے‘‘ کا لیبل لگایا گیا نظر آتا ہے اور درحقیقت یہ دورہ پیرس میں مودی کی میاں نواز شریف سے ’’اچانک‘‘ ملاقات کے وقت پر طے ہو گیا تھا جس میں یقیناً میاں نواز شریف نے مودی کو اپنی نواسی کی شادی کی تقریبات میں شمولیت کی دعوت دی ہو گی جبکہ مودی کی لاہور آمد کے لئے 25 دسمبر کا دن اس لئے طے ہوا ہو گا کہ یہ میاں نواز شریف کی سالگرہ کا بھی دن ہے۔ اس طرح مودی کے اس دورے سے میاں نواز شریف کے لئے تہری خوشی کا اہتمام کیا گیا جنہیں اپنی سالگرہ اور اپنی نواسی کی رسم حنا میں مودی کی شرکت کا تحفہ ملا جبکہ مودی کی لاہور اور جاتی امرا آمد سے خطے میں قیام امن کی راہ ہموار ہو گی تو اس کا کریڈٹ بھی میاں نواز شریف کی حکومت کو جائے
اگر ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کی انتہا کو پہنچے ہوئے اس خطے کے دونوں ایٹمی ممالک برابری کی بنیاد پر اور پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ امن کی راہ پر چل پڑتے ہیں تو اس خطے کی اس سے زیادہ خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کیونکہ امن کی یہ راہ درحقیقت خوشحالی اور اقتصادی استحکام کی راہ ہو گی جس کی اس وقت دونوں ممالک کے عوام کو سخت ضرورت ہے جبکہ اس سے پاکستان بھارت کشیدگی کے حوالے سے اقوام عالم میں پیدا ہونے والا اضطراب بھی ختم ہو جائے گا جو ان دونوں ممالک کی کشیدگی کے عالمی ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے کے خدشہ کے باعث پیدا ہوا ہے۔ تاہم پاکستان کے ساتھ اب تک کے بھارتی رویے‘ کشمیر پر اس کی ہٹ دھرمی کے تسلسل‘ انتہا پسندانہ ہندو سوچ اور جنگی جنون بڑھانے کی مودی سرکار کی پالیسی کو پیش نظر رکھ کر ہمیں پاکستان کے ساتھ دوستی اور تعلقات کی بحالی کے لئے بھارتی وزیراعظم کی جانب سے کی جانے والی پیش رفت پر انتہائی محتاط رہنا ہو گا اور اس امر کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر دوستی کا جوابی ہاتھ بڑھانا چاہئے کہ اس خوشگوار ماحول میں آیا مودی سرکار کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی چھوڑ کر اس دیرینہ مسئلہ کے یو این قراردادوں کی روشنی میں حل کے لئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر آمادہ ہے۔ بادی النظر میں تو مودی سرکار کی جانب سے ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ کیونکہ پیرس میں نواز‘ مودی ملاقات‘ بنکاک میں پاکستان بھارت قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات اور پھر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی اسلام آباد میں خوش بیانی اور پاکستان کے ساتھ سازگار تعلقات کی خواہش کے اظہار کے باوجود مسئلہ کشمیر پر بھارتی پرنالہ وہیں کا وہیں نظر آرہا ہے۔ اور سشما سوراج نے اپنے دورہ پاکستان کے حوالے سے بھارتی لوک سبھا میں اپنے پالیسی بیان کے اگلے ہی روز یہ بیان دے کر بھارتی ہٹ دھرمی کا اعادہ کر دیا ہے کہ پاکستان سے مذاکرات مقبوضہ کشمیر پر نہیں بلکہ پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر پر ہوں گے ۔ ان کے اس بیان کے اگلے ہی روز خود نریندر مودی نے ایودھیا میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں مسمار ہونے والی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر کرنے کا باضابطہ اعلان کر دیا باوجود اس کے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے اس جگہ پر رام مندر تعمیر کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اگر کشمیر پر بھارتی ہٹ دھرمی اور مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسندانہ سوچ کو برقرار رکھ کر مودی سرکار کی جانب سے پاکستان کے لئے دوستی کا ہاتھ بڑھایا جاتا ہے جس کے لئے خود نریندر مودی سب سے زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں تو بادی النظر میں مودی سرکار کی یہ پالیسی ’’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘‘ والی ہی ہے چنانچہ اسی تناظر میں خارجہ امور کے ماہرین اور مبصرین مودی کی ’’اچانک‘‘ لاہور اور جاتی امرا آمد کو عالمی برادری کو بے وقوف بنانے سے تعبیر کر رہے ہیں۔

مودی سرکار اپنی ہندو انتہا پسندانہ پالیسیوں اور بھارتی اقلیتوں کو جبری ہندو بنانے والے اقدامات کے باعث اس وقت یقیناً عالمی دباؤ میں ہے کیونکہ عالمی قیادتوں کو مودی سرکار کی ان پالیسیوں سے علاقائی اور عالمی امن کو سخت خطرات لاحق نظر آرہے ہیں جس کے پیش نظر اقوام متحدہ اور امریکہ و یورپ کی جانب سے مودی سرکار پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر دو طرفہ مسائل حل کرنے کے لئے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ ہمیں بھارتی پیش رفت پر بلاسوچے سمجھے اس کے لئے ریشہ خطمی والی پالیسی سے بہرصورت گریز کرنا چاہئے۔ مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز آئندہ ماہ جنوری میں پاکستان بھارت خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات کا عندیہ دے چکے ہیں جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے آئندہ سال سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لئے پھر پاکستان آنا ہے اس لئے بھارتی رویے‘ لہجے اور کشمیر ایشو پر اس کے موقف کا حکومت اور دفتر خارجہ کو مسلسل جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔ یہ متحارب دو ممالک کے تعلقات کا سنجیدہ معاملہ ہے جس میں کسی خوش فہمی کی بنیاد پر پاکستان کے موقف پر کسی کمزوری کا عنصر شامل نہیں ہونے دینا چاہئے۔
Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 322460 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More