ظالم کو جو نہ روکے وہ بھی ظلم میں شامل ہے

آج ہم جس معاشرے اور سماج میں زندگی گزار رہے ہیں وہ اپنے آپ کو تعلیم یافتہ (Educated) اور مہذب (Civilized) گردانتی ہے ، آج کی یہ دنیا اپنے آپ کو انسانیت نواز باورکرانے میں لگی ہوئی ہے ۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ آج کا انسان ترقی کے انتہائی اعلی مقام پر فائض ہو گیا ہے ، اس کے پاس نت نئی ایجادات ہیںِ ‘ جدید قسم کے آلات ہیں ، ٹکنالوزی اور مشینری ہیں ، نیو کلیائی اسلحے اور ایٹمی بم ہیں جس کے ذریعہ سے پوری انسانیت کو چند ثانیوں میں تباہ و برباد کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مثال آپ سب کے سامنے ہے جب امریکہ نے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر اپنے ایٹمی بم کا استعمال کیا تھا اور اس کے نتیجے میں جو ہلاکتیں اور تباہیاں ہوئی تھی وہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ امریکہ پہلا ایسا ملک تھا جس نے اپنے ہدف جاپان کے دو شہر ہیرو شیما اور ناگاساکی کے خلاف دوسری جنگ عظیم ۶ تا ۹ اگست ۱۹۴۵ ؁ء کے خاتمہ پر ہی دو ایٹمی بم گرا یا تھا، پہلا ہیروشیما پر جس کی وجہ سے 80000 شہری یکلخت لقمہء اجل بن گئے۔ اس بم کا نام امریکن فوج نے (Little Boy) ’’چھوٹابچہ‘‘ رکھا تھا ۔ دوسرایٹمی ا بم ناگاساکی پر ڈالا گیا۔ اس کی وجہ سے 80000 شہریوں کی اسی وقت موت ہوگئی تھی ۔ اس بم کا نام امریکن فوج نے (Fat Man) ’’موٹا آدمی‘‘ رکھا تھا ۔ یہ دونوں بم اتنے خطرناک اور زہر آلود تھے کہ ان کی وجہ سے اب تک لاکھوں لوگ مرتے چلے جارہے ہیں اور طرح طرح کی بیماریوں سے دوچار ہورہے ہیں اور آخر میں موت کے آغوش میں پناہ لے لیتے ہیں ۔ اگست ۲۰۱۴ ؁ء کی ایک رپوٹ کے مطابق اب تک تقریباً ان کے ہلاکت خیز اور زہر آلو د ذرات کی وجہ سے 450000افراد شکار ہو چکے ہیں۔ یہ ہے وہ امریکہ جو اپنے آپ کو مہذب اور تعلیم یافتہ باور کراتا ہے ۔

ہم دیکھتے ہیں کہ آج کی یہ دنیا اپنے آپ کو سب سے طاقتور منوانے کے لئے کیا کیا نہیں کر رہی ہے چاہے وہ اسرائیل ہو یا امریکہ ، روس ہو یا برطانیہ سب اپنی چودھراہٹ اور برتری کے لئے ایسا گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں جس کا انسانیت اور انسانی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سامراجی قوتیں اپنے استعماری مفاد کے خاطر اپنے سے کمزوروں کو مسل رہی ہیں اور کچھ آمرانہ اور جابرانہ حکومتیں ایسی ہیں جو اپنی آمریت اور جابریت کی بقا کے لئے اپنے ہی معصوم شہریوں کے خون سے اپنی ہی زمین کولالہ زار کر رہی ہیں ۔اس کی لالہ زاری میں اگر کچھ کسر رہ جاتی ہے تو اپنے جیسے دوسرے ظالموں سے اس کمی کو پورا کرواتی ہیں ۔ اس کی تازہ ترین مثال ملک شام کی ہے ۔ شام کا ظالم ، ملعون اور ڈکٹیٹر صدر بشار الاسد اپنے ہی باشندوں کی جانوں کا سودا روس سے طے کیا ہے اور وہ ’’الظالم لا ینصرہ الا الظالم‘‘ کا مکمل حق ادا کررہا ہے۔ پیرس فرانس میں اسی سال جنوری ۲۰۱۵ ؁ء میں ایک دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے اور 17 لوگ مارے جاتے ہیں پھر پیرس میں ہی ۳۱؍نومبر ۲۰۱۵ ؁ء کی شام میں دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں 130لوگوں کی جانیں جاتی ہیں اور 368 لوگ زخمی ہوجاتے ہیں ۔ بہت غلط ہوا ، معصوموں کی جان کہیں بھی جائے غلط ہے پوری دنیا نے اس کی مذمت کی اور اس کے خلاف مظاہرے کئے اور یہی ہونا بھی چائیے اور انسانیت کا ثبوت پیش کیا ۔ یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ فلسطین‘ افغانستان اورعراق میں معصوموں کی خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے لیکن تعلیم یافتہ سماج کے کان پر جوں تک نہیں ریگیں۔ لیکن روس نے تمام حدودکو تجاوز کرتے ہوئے ’’داعش‘‘ کا بہانہ بناکر بلکہ اگرکہا جائے کہ کھلم کھلا شام کے معصوموں پر بم گراتا ہے اور معصوم بچے ، نوجوان، بوڑھے سارے لوگوں کو نشانہ بتاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے فضا گرد آلود اور آسمان میں دھواں دھواں سا دیکھائی دینے لگتا ہے اور دن بھی رات کے مانند ہوجاتی ہے ایسا خوفناک منظر ہے جس کو دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ یاد رہے کہ مارچ ۲۰۱۱ ؁ء سے بشارلعین کی حکومت کے خلاف ، اس کے ظالمانہ رویہ سے عاجز آکر جب وہاں کی عوام نے احتجاج کرنا شروع کیا تو اس کرسی کے بھوکے درندہ نے کسی کی نہ سنی اور جمہوریت کا جنازہ نکالتا رہا اور اب تک شامی حقوق انسانی کے نگہبان ادارہ کے مطابق 210000 لوگوں کو مارا جاچکا ہے ، کہاں ہیں انسانیت کی دوہائی دینے والے لوگ؟ کہاں ہیں جو اپنے آپ کو تعلیم یافتہ اور مہذب باور کرانا چاہتے ہیں ؟ کہاں چلے گئے حقوق انسانیت کے ٹھیکدار؟ کیا انسانیت کے ٹھیکیدار اقوام متحدہ کے پاس ان سوالوں کے جوابات ہیں؟

ظلم اور خوف سے بچنے کے لئے کتنے شامی مہاجرین سمندر کے راستے یورپ میں پناہ لینے کے لئے اسٹریا اور جرمنی کا سفر کرتے ہیں اور کبھی کبھی یہ سفر ان کے لئے بڑا دردناک اور المیہ بن جاتا ہے جس میں ان کی اور ان کے بچوں کی جانیں بھی چلی جاتی ہیں ۔ ایلان کردی نامی معصوم کو کون بھول سکتا ہے جس نے ابھی اس دنیا میں آنکھیں کھولی ہی تھی اور ابھی اس کے زندگی کے صرف۳ سال ہی پورے ہوئے تھے جو شام کے کوبانی علاقہ سے تعلق رکھتا تھا ، والد عبد اللہ کردی ، والدہ ریحانہ کردی اور ساتھ میں اس کا ایک ۵ سال کا بڑا بھائی بھی تھا ، عبد اللہ ملک شام کی دہشت اور خوفناکی سے بیزارہوکر اپنی کناڈا میں مقیم بہن کے یہاں سب کو لے جانے کے لئے سمندر کے راستے سے نکل پڑا ، اس راستے کو عبور کرانے کے لئے عبد اللہ نے ایجنٹو ں کو 6150 یورو کی خطیر رقم دی جو انڈین 446150 روپئے کے مساوی ہے ، سفر شروع ہوا ، چھوٹی سی کشتی میں ۱۲ لوگ سوار تھے ، رات اپنی تاریکی کی چادر پھیلاچکی تھی ، منزل قریب تھی لیکن سمندر کی موجوں نے ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا اور انتھک کوشش کے باوجود عبداللہ سمندر کی طغیانی کا مقابلہ کرتے کرتے ہار گیا اور اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ سا تھ اپنی شریک حیات کو بھی کھو چکا تھا ۔ ۱ ؍ستمبر ۲۰۱۵ ؁ء کی صبح عبد اللہ کے لئے ہر دن کی صبح سے بالکل الگ تھی ، ہاں وہی عبد اللہ جو کل تک اپنے ۲ بیٹوں اور اپنی بیوی کے ساتھ ساتھ رہتا تھا اب اکیلا تھا بالکل تنہا ، اور اس کے چھوٹے بیٹے ایلان کردی کی لاش سمند ر کے کنارے منہ کے بل ملی تھی جو سارے عالم کے اخباوں اور نیوز چینلوں پر دکھائی گئی تھی ۔ یہ تصویر ساری دنیا کے تعلیم یافتہ اور مہذب لوگوں سے یہی کہہ رہی تھی کہ اب تو ہوش کے ناخون لو ، اب تو اپنے گریبان میں جھانک کردیکھو، اگر میری جگہ تمہارا بیٹاہوتا ، میرے بھائی کی جگہ تمہارا بھائی ہوتا ،میری ماں کی جگہ تمہاری ماں ڈوبی ہوتی کیا تب بھی تم خاموش تماشائی بنے رہتے ؟؟؟؟یہ کہنے کے لئے تو واقعہ ہے لیکن ذراتھوڑی دیر کے لئے سوچیں پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ اپنا گھربار چھوڑ کر آدمی کیوں جاتا ہے؟ ہجرت پر آمادہ کیسے ہوجاتا ہے ؟ جب انسان کو اپنے دیار میں کوئی راستہ نظر نہیں آتا ہے ، چارو ں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ہے ، ہر سمت خوف اور وہشت ناکی ہی دیکھائی دیتی ہے ، زندہ رہنے کے اسباب چھین لیئے جاتے ہیں تو پھر انسان اپنے دل پر پتھر رکھ کر ہجرت کا سفر کرتا ہے ۔ بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق حالیہ سال میں بحری اور بری راستوں سے یورپ کی طرف پہونچنے والے مہاجرین کی تعدادتقریبا ایک ملین سے تجاوز کرگئی ہے اور3700 مہاجرین ایسے ہیں جو لاپتہ یا پھر ہلاک ہوچکے ہیں۔ پوری دنیائے انسانیت کو خاص کر عالم اسلام کو ان مسائل پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیئے اورظلم کے خلاف متحد ہونا چاہیئے اور ظالموں کو جلد از جلد روکنا چاہیئے ،ورنہ ظلم کے خلاف جتنا تاخیرکی جائی گی اتنا ہی زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا اور’’ ظالم کو جو نہ روکے وہ بھی ظلم میں شامل ہے ‘‘۔
Shoaib Younus Khan
About the Author: Shoaib Younus Khan Read More Articles by Shoaib Younus Khan: 3 Articles with 2311 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.