بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی اور
ڈاکٹر مالک بلوچ کی جگہ نواب ثناء اﷲ زہری کا وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنا
چہروں کی تبدیلی کا وہ تسلسل ہے جسے صوبے کے عوام کئی عرصے سے دیکھتے آئے
ہیں اس لیئے اس تبدیلی کومخصوص سیاسی حلقوں کے سو ا عوامی سطح پر کوئی خاص
توجہ نہ مل سکی کیونکہ صوبے کی حالات میں نمودار ہونے والے بہتری کے آثار
تیزی سے جاری ان کارروائیوں کی نذر ہوگئے ہیں جس کے تحت سیکیورٹی فورسز کی
جانب سے آواران، تربت، خضدار، سبی، بولان ، دالبندین، خاران ، بیسیمہ،
پنجگور ، گوادر، مستونگ، قلات اور لسبیلہ کے اضلاع کی مختلف علاقوں میں
متعدد مبینہ مزاحمت کار قتل و گرفتار کیئے گئے اور انٹیلی جنس کی بنیاد پر
کی جانے والی تلاشی کے ان کارروائیوں کے دوران مکران ڈویژن کے کچھ علاقوں
میں گھروں کو بھی جلایا گیاجس کا اثر عاام لوگوں کی زندگی پر پڑتا ہے جس کی
دوسری وجہ ان کارروائیوں کے ردعمل میں علیحدگی پسند بلوچ تنظیموں کی جانب
سے شٹرڈاؤن کی دی جانے والی کالیں بھی جن کے خلاف اب سیکیورٹی فورسز کھل کر
میدان میں آگئیں اور اس سلسلے میں باقاعدہ اخبارات میں ان کی جانب سے بیان
جاری کیئے گئے جس میں علیحدگی پسندوں کے ہڑتال کی کالیں ناکام بنانے اور
عوام سے دکانیں بند نہ رکھنے کا اپیل کیا جاتا ہے۔اس صورتحال میں صوبے کے
تاجر بھی صحافیوں کی طرح سیکیورٹی اداروں اور علیحدگی پسندوں کے درمیان
سینڈوچ بن گئے کیونکہ اگر وہ ہڑتال کی کال پر دکانیں بند نہ کریں تو
علیحدگی پسند مار کھانے کو آئیں گی اور اگر دکانیں بند رکھیں تو بھی جان کے
لالے پڑ جائیں گی اس لیئے صوبے کے حالات کو عام لوگوں کے لیئے سازگار نہیں
کہا جا سکتا کیونکہ بلوچستان میں اب بھی کسی نہ کسی سطح پر سیکیورٹی
ایجنسیوں اور مسلح علیحدگی پسندوں میں کشمکش جار ی ہے۔
مئی 2013 میں الیکشن مہم کے دوران نومنتخب وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثناء
اﷲ زہری کے قافلے پر خضدار کے علاقے زہری میں ریموٹ کنٹرول بم حملے میں ان
کا بیٹا سکندر زہری، بھائی مہراﷲ زہری اور بھتیجے میر زیب زہری سمیت متعدد
افراد جان سے گئے جس کی ذمہ داری 2002 کو بننے والی بلوچستان کی علیحدگی
پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی جس کے متعلق نواب ثناء اﷲ
زہری کا ہی دعوی ہے کہ اس تنظیم کو مرحوم نواب خیر بخش مری کے لندن میں
مقیم صاحبزادے نوابزادہ حیر بیار مری چلا رہے ہیں۔ زہری واقے کے بعد نواب
ثناء اﷲ زہری نے بظاہر جذبات میں آکر بلوچستان کے نمایاں قوم پرست رہنماء
نواب خیر بخش مری و ان کے صاحبزادے حیر بیار مری، سردار عطاء اﷲ مینگل و اس
کے صاحبزادوں اختر مینگل و جا وید مینگل اور مکران میں مزاحمتی کارروائیوں
کے سرگرم علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے رہنماء ڈاکٹر اﷲ نذر
بلوچ کے خلاف مقدمہ درج کرایالیکن بحال ہی میں نواب ثناء اﷲ زہری نے یہ کہہ
کر وہ ایف آئی آر خود ہی واپس لے لی کہ ان کی جانب سے قبائلی سطح پر کی
جانے والی تحقیقات میں ایسی کوئی بات سامنے نہ آسکی۔
11 مئی 2013 کی انتخابات کے بعدجب بلوچستان کے حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آیا
توصوبائی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت پاکستان مسلم
لیگ (ن) بلوچستان کے صدر کی حیثیت سے نواب ثناء اﷲ زہری ہی وزارت اعلیٰ کے
مضبوط امیدوار تصور کیئے جانے لگے لیکن 2 جون کو سیاحتی مقام مری میں ہونے
والے معاہدے کے تحت صوبائی اسمبلی کی65 میں صرف 8 نشستیں حاصل کرنے والی
قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو ڈھائی
سال کے لیئے وزیر اعلیٰ بلوچستان منتخب کیا گیا جنہوں نیبعدازاں
پشتونخوامیپ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حمایت سے مخلوط حکومت بنائی ۔صوبے
کی اکثر سیاسی حلقوں نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے اس فیصلے کو صوبے
کی حالات سے ہم آہنگ قرار دیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ایک ایسے وقت میں
جب نواب ثناء اﷲ زہری کے دل میں انتقام کی آگ بڑھک رہی تھی اور انہوں نے
اپنے خاندان کے افراد کے قتل کی ایف آئی آر صوبے کے اہم قوم پرست رہنماؤں
کے خلاف درج کیا تھا جس سے کشیدگی کی فضاء پیدا ہوگئی اور اگر نواب ثناء اﷲ
زہری کو وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز کیا جاتا تو یہ کشیدگی خون خرابے میں
بدل سکتی تھی ۔ دوسری جانب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ بلوچستان
نامزد کرنا بھی مذکورہ کشیدہ صورتحال میں کمی کا سبب بنی کیونکہ انہوں نے
اپنے دور میں نواب ثناء اﷲ زہری کی مرضی کے خلاف بہت سے فیصلے کیئے جس کی
شکایت وہ اکثر کرتے رہے اور اس بات کو لے کر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے
اراکین اسمبلی نینہ صرف کئی دنوں تک بلوچستان اسمبلی کی کارروائیوں سے
بائیکاٹ بھی کیا بلکہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف تک یہ شکایت بھی
پہنچائی گئی کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ن لیگ کے وزراء کو نظر انداز کرکے
انھیں بے اختیار بنارہے ہیں لیکن نواز شریف کی جانب سے کوئی قابل ذکر ردعمل
سامنے نہیں آئی جس کے سبب وہ چھپ کرکے بیٹھ گئے۔
مری معاہدے کے بعد فوری طور پر تو اس کی تشہیر نہیں کی گئی لیکن رواں سال
ڈاکٹر مالک بلوچ سے نالاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکین صوبائی اسمبلی نے
کسی طرح یہ معاہدہ منظر عام پر لایا جس کے بعد اس معاہدے کی حقیقت کا پتہ
میڈیا کے ذریعے چلا جس پرصوبے کی کچھ سیاسی حلقوں نے تنقید کے تیر بھی
چلائے اور اسے اسلام آباد کی جانب سے صوبے کی قسمت کا فیصلہ قرار دے کر
بلوچستان کے سیاسی قیادت کی توہین قرار دیا گیا۔مری معاہدے کے تحت وزیر
اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ کی مدت 4 دسمبر کو ختم ہونی تھی لیکن مقررہ
وقت پرپاکستان مسلم لیگ (ن) قیادت کی جانب سے کوئی فیصلہ نہ کرنے پر ان چہ
میگوئیوں کو تقویت ملنے لگی جس کے تحت کہا گیا کہ شاید ڈاکٹر مالک بلوچ کو
توسیع ملے گی اور اس بات کی توسیق نہ صرف بی بی سی جیسے معتبر ادارے نے
اپنے تجزیاتی رپورٹ میں بھی کی بلکہ 7 دسمبر کو صوبے کی ایک موقر روزنامے
نے تو مری معاہدے کی معطلی اور میاں نواز شریف کی جانب سے ڈاکٹر مالک بلوچ
کو بطور وزیر اعلیٰ برقرار رکھنے کے فیصلے کا دعوی کرتے ہوئے اس خبر کو
اپنی سپر لیڈ اسٹوری کے طور پر شائع کیاجس میں دعوی کیا گیا تھا کہ صوبے
میں امن و مان کی صورتحال بہتر بنانے اور مفاہمت کی فضاء تشکیل دے کرجلا
وطن بلوچ رہنماؤں خان قلات اور براہمدغ بگٹی کو مذاکرات پر راضی کرنے کے
سبب فوجی اسٹیبلشمنٹ ڈاکٹر مالک بلوچ سے مطمئن ہے اس لیئے صوبے میں فعال
کردار ادا کرنے والے سابق کورکمانڈر اور موجودہ قومی سلامتی کے مشیر جنرل
(ر) ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ ڈاکٹر مالک بلوچ کو بطور وزیر اعلیٰ برقرار رکھنے
کی کوششوں میں پیش پیش ہیں جس کے لیئے ناصر جنجوعہ کے کورکمانڈر کی عہدے
ریٹائر منٹ کے وقت اس تقریر کا بھی حوالہ دیا گیا جس کے تحت دس منٹ تک وہ
صرف ڈاکٹر مالک بلوچ کے صلاحیتوں اور کاکردگی کی تعریف کرتے رہے۔لیکن غیر
متوقع طور پر دس دسمبرکووزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اسلام میں صوبے
کے متعلق ہونے والی اعلی سطحی اجلاس کے بعد مری معاہدے پر عمل کرتے ہوئے
نواب ثناء اﷲ زہری کو وزیر اعلیٰ بلوچستان نامزد کر دیا جنہوں نے 24 دسمبر
کو اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھا لیا جس سے ایک روز قبل ڈاکٹر مالک بلوچ
مستعفی ہوگئے۔دوسری جانب مری معاہدے پر عمل نہ کرنے کی صورت میں بلوچستان
میں مسلیم لیگ (ن) کے صوبائی قیادت کی جانب سے بغاوت کرنے اور ڈاکٹر مالک
بلوچ کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت اعلیٰ سے محروم کرنے کے اشارے بھی
ملنے تھے جبکہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو ان کے مشیروں اور قریبی
ساتھیوں نے یہ بھی گوش گزار کرائی تھی کہ اگر مری معاہدے پر عمل درآمد نہیں
کیا گیا تو پنجاب کے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی دوسری بڑی وجود کی حامل صوبے
بلوچستان میں پارٹی کا صفایہ ہو سکتا ہے جبکہ سندھ اور کے پی کے ویسے بھی
پی ٹی آئی اور پی پی پی لیڈ کر رہے ہیں اس لیئے میاں نواز شریف نے بلوچستان
میں وزیراعلیٰ کی تبدیل کا فیصلہ کیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں چہروں کی تبدیلی صوبے کے حالات پر
کس قدر ثر انداز ہوگی؟ بہت سے سیاسی حلقے ابھی تک اس قسم کی تبدیلیوں کو
سطحی سمجھتے ہیں جن کا خیال ہے کہ صوبے کی قسمت کا فیصلہ اب بھی اسٹیبلشمنٹ
طے کرتی ہے جس کے حق میں وہ الیکشن میں ہونے والی سلیکشن کے مبینہ تیز
رفتار عمل کی مثال بھی دیتے ہیں جس کے تحت جیت کا اعلان ہونے کے باوجود بہت
سے امیدواروں کو ہار کا راستہ دکھایا جاتا ہے اور ہارنے والوں کو جیت کا
سہرا باندھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان سے گزرنے والی حالیہ چائنا
پاکستان اکنامک کاریڈور،گوادر پراجیکٹ اور صوبے کی معدنی وسائل نے اس کی
سیاسی و اقتصادی اہمیت میں اضافہ کر دیا ہے اس لیئے اسٹیبلشمنٹ کا صوبے کے
معاملات میں عمل دخل بھی زیادہ ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں صوبے کی سیاسی
حکومتیں محض انتظامی امور تک محدود ہوکر اہم فیصلے کرنے سے محروم رہ جائیں
گی جس کی مثال ڈاکٹر مالک بلوچ کا دور بھی تھا جس میں وہ صوبے کا وزیر اعلیٰ
ہوتے ہوئے چاغی میں چینی کمپنی کے زیر انتظام چلنے والے سونے اور کاپر
پیداکرنے والے منصوبے سیندک پراجیکٹ سے صوبے کو کوئی خاص فائدہ نہ ملنے کی
شکایت کھلے عام کرتے رہے ۔ لہذا ایسے حالات میں حکومتی سطح پر ہونے والی
تبدیلی محض چہروں کی تبدیلی ثابت ہوگی جس سے صوبے کی عوام کے زندگیوں پر
کسی بھی قسم کے دیرپا اثرات کی توقع محض وقت کا ضیاع سمجھا جائے گا اور یہی
صورتحال پارلیمانی سیاست سے لوگوں کی اکثریت کا اعتماد کو ختم کرکے انھیں
ان علیحدگی پسندوں کی باتوں پر غور کرنے کے لیئے مجبورکرے گی جو پارلیمنٹ
کو ربڑ اسٹیمپ کہہ کر صوبے کے مسائل کا حل مسلح مزاحمت کو قرار دیتے ہیں۔
اس لیئے اب فیصلہ حکمران اشرافیہ کو ہی کرنا ہے کہ وہ بلوچستان کو معاشی و
سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے دیکتے رہیں گے یا سیاسی کھڑکی کھولنے کی کوشش بھی
کریں گے۔(ختم شد) |