صوبہ سرحد یا کے پی کے ؟

آزادی کے بعدپہلی بار عوامی نیشنل پارٹی نے صوبہ سرحد میں حکومت بنائی تو میاں نواز شریف ، آصف علی زرداری ، مولانا فضل الرحمن اور ایم کیوایم کی حمائت و معاونت سے صوبے کا نام بدل ڈالااور چودہ اگست کی بجائے پندرہ اگست منایا مگر کسی دانشور کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس پر تنقید کر ے ۔ پراپیگنڈہ یہ کیا گیا کہ صوبے کا نام عوام کی مرضی و منشا کے مطابق پختون خواہ یعنی پختون کا رکھا گیا ہے۔ پھر ساتھ خیبر بھی لگا دیا گیا یعنی خیبر پختون کا ۔غور کیا جائے تو یہ نام فاٹا کا ہونا چائیے چونکہ نہ تو خیبر صوبے کا حصہ ہے اور نہ ہی باقی علاقہ پختون یعنی پٹھان کا ہے۔ صوبے میں پختون یعنی پٹھان آبادی بھی اکثریت میں نہیں اور نہ ہی سب لوگوں کی مادری اور علاقائی زبان پشتو ہے۔ جن لوگوں کی علاقائی زبان پشتو ہے وہ قبائلی ایجنسیوں میں رہتے ہیں، صوبے کے بندوبستی علاقے میں نہیں ۔

سوائے قبائلی ایجنسیوں کے صوبے کی بڑی آبادی گجروں ،اعوانوں ، اور مقامی لوگوں پر مشتمل ہے جن کی ذاتیں اور گوتیں قدیم آریاؤں سے ملتی ہیں ۔ یہ علاقہ ہزاروں سال پہلے کشمیر اور ایران کا حصہ رہا اور بعد کے ادوار میں ناگ، کنشک اور ہند ؤ تہذیب کا مرکز رہا۔ گور کنٹھڑی، شہباز گڑھ، ٹیکسلا ، پکھلی اور شاردہ کے آثار اور ڈوگرہ دور کے آخری ایام میں گلگت سے دریافت ہونے والے بھوج پترا س بات کی واضح دلیل ہیں کہ صوبہ سرحد ہمیشہ سے قبائلی علاقوں اور افغانستان سے الگ کسی نہ کسی تمدن کا حصہ رہا ہے جہاں زمانے کے مروجہ علوم اور ثقافت کا بھی اثر تھا ۔ آثار بتلاتے ہیں کہ سنسکرت دور میں وادی پشاور بشمول دیر، چترال ، ہزارہ ، پکھلی اورچیلاس تک کے علاقے الگ الگ ریاستیں تھیں جہاں کے قدیم حکمران خاندان ، کشمیر ،بلورستان (گلگت بلتستان ) ایران ، تبت اور چین سے تعلق رکھتے تھے۔ یاد رہے کہ پشاور آر کائیو اور ضلعی گز یٹر میں شائع شدہ اکثر معلومات ادھوی اور قیاس پر مبنی ہیں جبکہ اصل تاریخ بھوج پتروں ،اشلوکوں ، کتبوں اور زمینی آثار سے ہی معلوم کی جاسکتی ہے۔ اگر تاریخ کی کڑیاں ملائی جائیں تو قبائلی ایجنسیوں پر مشتمل علاقے نئے آباد شدہ علاقے ہیں جہاں یہودی، آر مینیا ئی اور بابلی قبائل نے دشوار گزار اور آبادیوں سے دور پنا ہ گائیں تلاش کیں اور بعد کے ادوار میں آبادی پھیلنے کی وجہ سے میدانوں اور ڈھلوانوں تک پھیل گئے ۔ اگر ہم قبائل کا رشتہ افغانوں سے جوڑیں تو بھی تاریخ کی کڑیاں ٹوٹ کر کیرو کیـ" دی افغان" تک سمٹ آتی ہیں۔ اگر ہم چھوٹے یا میر کی ڈھلوان چٹی بوئی گلیشر سے چلیں تو گلگت کی جانب مسگر اور سو ختر آباد کے علاقے ہیں جہاں گجر اور ازبک آباد ہیں ۔ اسی علاقے کے دوسری جانب صرف گجر ہیں ازبک نہیں۔ چونکہ ازبک چیکا انقلاب کے بعد اس علاقے میں وارد ہوئے جبکہ گجروں کی آبادی قدیم ترین ہے جسکا کوئی تاریخی ریکارڈ موجود نہیں ۔ گلگت سے نیچے چترال ہے جسکا اپنا کلچر ، زبان اور ثقافت ہے۔ معلوم تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ کسی دور میں یہ سار ا علاقہ بدخشاں اورقندوزسے لیکر آموں در یا تک بلورستان اور دردستان کا حصہ تھا۔ آج کے افغانستان پر نظر ڈالیں تو واخان میں گوجری ، ازبکی اور شینازبان بولی جاتی ہے پشتو نہیں ۔ اس علاقہ میں کوئی پختون آباد نہیں اور نہ ہی پختون کلچر اور روایات کا یہاں وجود ہے۔ چترال میں کھوار بولی جاتی ہے مگر سامنے افغان علاقوں میں پشتور اور فارسی (دری ) زبان رائج ہے۔ چترا ل کے بعد تھوڑا سا علاقہ سابق ریاست دیر کا ہے جبکہ زیادہ تر سرحد باجوڑ ، مومند اور خیبر ایجنسی سے ملتی ہے جہاں دونوں طرف آباد علاقوں میں اور سرحد پر بسنے والے قبائل کی نہ صرف زبان مشترک ہے بلکہ ایک ہی قبیلے اور برادری کے لوگ بھی آباد ہیں ۔ سرحدتک آباد قبائل میں صافی ، مومند، شنواری جبکہ تیرہ اور اوکزئی کے علاقوں میں آفریدی اور کزائی آباد ہیں مگر دوسری جانب آفریدی اور اورکزائی آبادی انتہائی محدود ہے۔ کرم ایجنسی میں بھی دلچسپ صور ت حال ہے چونکہ کرم ایجنسی میں آباد بنگشوں ، اور کزائیوں اور دیگر قبائل جن میں خٹک بھی شامل ہیں کے دوسری جانب افغان صوبوں جن میں ننگرہار ، پکتیا اور وردک کے علاقے شامل ہیں سے زبان ، کلچر ، قبیلے اورخاندان وغیرہ کا انتہائی محدود تعلق ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ فرقہ اور مسلک ہے چونکہ کرم اور کزئی ایجنسی میں آباد سیدوں اور بنگشوں کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے جبکہ سرحد پار کے خروٹیوں ، زردانوں اور دیگر قبائل کا مسلک سنی دیوبندی ہے۔ بعض جگہوں اور علاقوں میں فرقہ ، مسلک اور مذہب بھی معاشرتی تقسیم کا باعث بنتا ہے جس کی وجہ سے زبان اور قبیلہ بے معنی ہو جاتا ہے۔ شمالی وزیرستان کے کچھ علاقوں کا پکتیا اور پکتیکا کے افغانوں سے تعلق ہے مگر بیشمار اہم قبائل کے رسم و رواج الگ ہیں ۔ وزیری ،بٹنی اور مسعود قبائل کی تعلق داریاں خوست اور ملحقہ علاقوں تک محدود ہیں چونکہ اگلے علاقوں اور آبادیوں کے قبائل کا تعلق بلوچستان کے کاکڑوں ، شیرانیوں غیبی زیوں ، بٹریچوں اورتر ینوں سے ہے۔ رقبے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ تعلق بھی دس بیس کلومیٹر سے آگے نہیں جاتا۔ افغانستان میں جاری صدیوں پرانی خانہ جنگیوں اور بیرونی حملہ آوروں کی تباہ کاریوں کی وجہ سے افغان آبادی مسلسل نقل مکانی کی کیفیت میں رہتی ہے۔ جسکا اثر پاکستانی قبائلی علاقوں کے علاوہ بلو چستان ، سرحد اور ملحقہ پنجاب پر بھی آتاہے۔ جہاں تک پشتوزبان کا تعلق ہے تو اس کے اندازو اطوار بھی دیگر زبانوں کی طرح مختلف ہیں۔ افغانستان کے ملحقہ صوبوں سے لیکر پنجاب کے ضلع میانوالی جو کبھی بنوں کا حصہ تھا کے علاوہ ڈیرہ غاز ی خان اور شمال میں اٹک ، ہزارہ اور گلگت تک پشتو زبانی بولی اور سمجھی جاتی ہے مگر لکھی اور پڑھی نہیں جاتی۔ پنجابی ، اُردو اور کسی حد تک انگریزی جو اس خطے کی زبان نہیں تعلیم یافتہ طبقے کی رابطہ زبان ہے۔ پنجابی ، پٹھان، سندھی ، بلوچی ، کشمیر ی بلتی یا پڑھا لکھا گلگتی اپنی مادری زبان بولتے ہوئے جب تک انگریزی کا تڑکہ نہ لگائے اسے نہ بولنے میں مزہ آتا ہے اور نہ ہی وہ اپنے پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ ہونے کی سند پیش کر سکتا ہے۔

سچائی اور حقیقت یہ ہے کہ ایک زبان جو صرف بولی جاتی ہے اور صوبے کی نوے فیصد آبادی نہ یہ زبان پڑھ سکتی ہے اور نہ لکھ سکتی ہے کی بنیاد پر صوبے کا نام محض تعصب کی بنیا د پر بدلنا اور قومی سیاستدانوں اور لیڈر کہلوانے والوں کو بغیر کسی تحقیق اور سوچ کے محض وقتی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی حمائت کرنا بھی حماقت ہے۔ اگر آبادی کو بنیاد بنایا جائے تو صوبے کا نام اعوانستان یاگجر ستان ہونا چاہئے اور مقامی زبانوں کو دیکھا جائے تو ہند کو سارے ہزار ہ ، ڈیرہ ، کوہاٹ ،پشاور ، نوشہرہ اور ملحقہ اٹک میں بولی جاتی ہے۔ لیڈروں کی اس محدود اور متعصب سوچ نے صوبے کے نام کی بھی توہین کی ہے۔ سرحد ایک باوقار ، بامعنی اور پختون روایات سے ہم آہنگ لفظ تھا جبکہ خیبر پختونخواہ جسے ہر کوئی اپنی آسانی کے لیے خیبر پی۔ کے یا پھرکے ۔پی۔کے لکھتا اور بولتا ہے۔ پشتو زبان و ادب کی بات کی جائے تو خٹک قبیلے کا نا م سرفہرست ہے۔ پشتو کے نامور شاعروں ، ادیبوں ، دانشوروں کا تعلق اسی قبیلے یا پھر سیدوں ، قریشیوں اور گجروں سے رہا ہے۔ خوشحال خان خٹک ، رحمان بابا، پروفیسر پریشان خٹک ، اجمل خٹک اور دیگر کے نام سے کون واقف نہیں مگر اے این پی حکومت نے خٹک قوم کے مرکز کر ک پر ایک ایسا حملہ کیا جو قابل غور ہے۔ ضلع کرک جہاں پچانو ے فیصد خٹک آبادی ہے مگر پسماندگی کے لحاظ سے شاہد دنیا میں پہلے دس نمبروں میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔ یہ صحرائی ضلع جہاں سہولتوں کا فقدان ہے مگر علم وادب کے لحاظ سے ا س قدر زرخیز ہے کہ اسکا شمار دنیا کے پہلے پانچ ملکوں میں کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان آرمی کی کوئی یونٹ ایسی نہیں جہاں کرک کا خٹک افسر ، سپاہی یا عہدیدار نہ ہو۔ سول سروسز میں دیکھا جائے تو بھی خٹکوں کی تعداد صوبائی اور مرکزی محکمہ جات میں سب سے زیادہ ہے ۔ اسی طرح تعلیم ، طب اورد وسرے شعبوں میں بھی خٹک قوم کے ہونہار سپوت ملکی اور قومی خدمت پر مامور ہیں۔ مگر عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے کرک کے عوام کی زبان کو ہی مشکوک قرار دیکر وہاں بنیادی پشتو سکھلانے کا حکم جاری کیا۔ کئی سالوں تک کرک کے سکولوں میں پشتو زبان رائج ہونے اور خٹکوں کوبنیادی پشتو پڑھانے پر ضائع ہوئے جسکی وجہ سے کرک کے بچوں کے کئی تعلیمی سال ضائع ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کرک کے لوگوں کو ہی اس ستم کا نشانہ کیوں بنایا گیااور کسی جرگہ نما پروگروام کے چادر پوش اینکر کی کمزور نظر اس کی طرف کیوں نہ گئی حالانکہ یہ مشق بنوں یا لکی مروت میں ہونی چاہئے تھی جہاں کا ڈائی لکٹ مختلف ہے۔

خٹک قبیلے کے اُساتذہ کا خیال ہے کہ انہیں یہ سزا پاکستان سے پیار ، فوجی خدمات اور پشتو زبان و ادب کی خدمت کے عوض دی گئی تاکہ ہمارے بچے دس سال پیچھے چلے جائیں اور شہیدوں اورغازیوں کی سرزمین بنجر ہو جائے ۔ وہ لوگ جو صوبائیت اور لسانیت کے دعویدار ہیں نے کئی کئی انگلش میڈیم سکول کھول رکھے جبکہ اُن کے بچے بیکن ہاؤس ، سٹی سکول اور دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں ۔وہ جن کے دلوں میں طالبان کا خوف گھر کر چکا ہے کے خاندان ہی بیرون ملک چلے گئے ہیں جہاں ملک سے لوٹی گئی دولت سے وہ لوگ عیش و عشرت کی زندگیاں جی رہے ہیں۔ صوبے کا نام بدلنے کے بعد ہزارہ اور سرائیکی صوبے کے علاوہ پوٹھوہار اور کراچی کی بات چلی تو سب کی آنکھیں کھل گئیں۔ خیبر پختون خواہ محض ایک نام کی بات نہیں اس کے پیچھے پختونستان اور گریٹربلوچستان بنانے والوں کا دماغ ہے اور کالا باغ ڈیم مخالف قوتوں کی مرضی اور دولت بھی اس میں شامل ہے۔ آنے والا وقت بتائیگا کہ نام بدلنے کی رسم میں حصہ دار بننے والے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے کیا غلطی کی اور کسطرح عوامی نیشنل پارٹی، مولانا فضل الرحمن ، محمود اچکزئی اور الطاف حسین کے چکمے میں آکر پاکستان کے خلاف ایک سازش کی بنیاد رکھی ۔ پاکستان بعض سیاسی جماعتوں کی مجبوری ہے۔ مولانا فضل الرحمن ، اسفند یار ولی ، جنا ب الطاف بھائی اور محمود اچکزائی دنیاکی کسی بھی حکومت سے شراکت داری کے لیے تیار ملینگے بشرطیکہ وہ اس حکومت کا حصہ ہوں اور من پسند وزارتوں سے ان کی پذیرائی کی جائے۔ قومی خزانے کا کچھ حصہ انہیں بطور انعام عنائت کیا جائے اور اُسے کرپشن وغیرہ تصورنہ کیا جائے۔ سیاسی اور معاشی نظریات اگرچہ میاں برادران اور زرداری صاحب کے بھی یہی ہیں مگر مرکزی حکومت پر تسلط اُن کی مجبوری ہے۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 100727 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.