دہشتگردی کا جوابدہ پاکستان ہی کیوں؟

بوستان سعدی میں شرف الدین سعدی شیرازی ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص کریمانہ اورسخاوت طبیعت رکھنے کے باوجود کنگال تھا۔ ایک قیدی نے اس کی طرف پیغام بھیجا کہ اے نیک بخت! میری مدد کر، میں قید خانے میں ہوں۔ خالی ہاتھ سخی نے قید کرنے والوں کو کہا! اس کو میری ضمانت پر رہا کردو۔انہوں نے بات مان لی اور قیدی کو کھول دیا، تو وہ ایسے بھاگا جیسے پرندہ پنجرے کا دروازہ کھلا دیکھ کر بھاگتا ہے اور ایسی دوڑ لگائی کہ اس کی گرد ِراہ کا ہوا بھی مقابلہ نہ کر سکی۔ انہوں نے اسی وقت اس ضمانتی کو پکڑ لیا اور کہا کہ یا پیسے نکالو یا بندہ دو۔ بے چارہ بے قصور جیل میں ڈال دیا گیا ۔اس دوران نہ کسی کو رقعہ لکھا نہ پیغام بھیجا۔ عرصے بعد کسی دوست کا اس طرف سے گزر ہوا تو اس نے پوچھا! اے نیک بخت ! میرا نہیں خیال کہ تو نے چوری کی ہو یا کسی کا مال کھایا ہو، پھر جیل میں کیوں ہے؟ اس نے کہا بات تو ایسے ہی ہے مگر میں نے اس جیل میں ایک قیدی کو پریشان حال دیکھا تو اپنے آپ کو قیدی بنا لینے کے علاوہ مجھے اس کی رہائی نظر نہ آئی۔ آخر کار بے چارہ جیل میں ہی مر گیا مگر نیک نامی لے گیا۔ یہ واقعہ پڑھتے مجھے خیال آیا کہ امریکہ کی مدد کرتے کرتے پاکستان کا حال بھی خالی ہاتھ سخی جیسا ہو گیا ہے۔ ان مشکل حالات میں جتنی نیک نامی ملنی چاہیے تھی اس سے چار گناہ بدنامی اور رسوائی اس کا مقدر بنی ہے۔ یہ ساری نوازشات ہمیں امریکہ کے ساتھ افغانستان میں بھلائی کر کے حاصل ہوئی ہیں۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ امریکہ کی خوشنودی کے لیے ہمیں یہ قید کاٹنا پڑے گی۔ پاکستان نائن الیون کے بعد سے مسلسل دہشت گردی کا شکار بنا ہوا ہے۔ دشمن عناصر کو پاکستان کا پُرامن ماحول ایک آنکھ نہیں بہاتا۔ امریکہ، بھارت، اسرائیل، افغانستان، برطانیہ اور روس پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں کو کارِخیر سمجھ کر اور اپنے اپنے مفاد کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔ جبکہ پاکستان میں بدامنی کی فضاء قائم کرنے اور اس کی معیشت کو زوال پذیر کرنے کے لیے امریکہ کی بدنام زمانہ پرائیویٹ آرمی ”بلیک واٹرXE“ سر گرم عمل ہے۔ جس کے واضع ثبوت موجود ہونے کے باوجود حکومت وقت پردہ پوشی میں مصروف ہے۔

جہاں ہمارا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے وہاں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع ہونے کے باوجود بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ کچھ مغربی دانشور بشمول حکومت امریکہ و برطانیہ بھارتی سرکار، بھارتی الیکٹرونک، پرنٹ اور سائبر میڈیا تسلسل کے ساتھ اسلام اور بالخصوص پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔ مثال کے طور پر نیویارک ٹائمز کے ایک قلم کار لکھتے ہیں کہ ”مہلک جراثیمی ہتھیاروں اور دہشت گردی کے تمام راستے پاکستان سے ہو کے گزرتے ہیں“۔امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان مخلص نہیں اور وہ دہشت گردوں سے روابط رکھے ہوئے ہے۔ اسی طرح بھارتی حکام کو جب میڈیا کے ذریعے ممبئی پر 26 نومبر کے حملوں کا پتا چلا، نئی دہلی نے وقت ضائع کیے بغیر پاکستان پر بلا ثبوت الزام تراشیاں شروع کردیں۔ افغانستان میں ناکامی کی طرف بڑھتے ہوئے قدم ہوں یا ناکام ممبئی ڈرامہ قصور وار پاکستان کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ دہشت گردی کا جوابدہ پاکستان ہی کیوں؟ آخر اس میں کتنی حقیقت ہے؟امریکہ اور بھارت جب بھی دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں یا دہشت گرد ان کی جنگی پالیسیوں کو کامیاب نہیں ہونے دیتے، وہ اپنے جاسوس اداروں اور سیکیورٹی فورسز کی ناکامی کو الزام دینے کی بجائے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ”یہ سارا قصور پاکستان کا ہے“۔اور جب پاکستان کسی دہشت گردی کا شکار ہوتا ہے تو اس کے ساتھ بجائے ہمدردی کے پھر یہی کہتے دکھائی دیتے ہیں”یہ سارا قصور پاکستان کا ہے“۔ دنیا میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہو یا ملوث افراد کو گرفتار کر لیا جائے فوراً خبریں گردش کرنا شروع ہو جاتی ہیں کہ”دہشت گرد عناصر کا تعلق پاکستان سے ہے“۔ جیسے زور شور سے کوششیں ہو رہی ہیں کہ ہیڈلے کے روابط پاکستان اور لشکر طیبہ سے ملائے جائیں اور یہ ثابت کیا جائے کہ پاکستان ہی ہر مسئلے کی جڑ ہے۔ یہ کمال طریقہ فن وہنر ہے کیونکہ اگر وہ دہشت گردی کے ان واقعات کا الزام پاکستان پر دھرتے ہیں تو تب ہی وہ اپنے ملک کے اندر موجود دہشت گرد، انتہا پسند، بغاوتی تحریکوں اورملک میں ہونے والی نا انصافیوں، اقلیتوں پر مظالم اور ناروا سلوک پر پردہ ڈال سکتے ہیں اگرچہ اندرونی عناصر بھی تو اس طرح کی کاروائیاں کرنے کے اہل ہو سکتے ہیں۔

کئی سالوں سے پاکستان کا مجاہدین کے لیے نرم گوشہ ہے جو کشمیر حاصل کرنے کے لیے اپنے ایجنڈے پر کاربند ہیں کیا یہ غلط ہے؟حالانکہ دنیا کی تمام ہی اقوام نے ایسا کیا اور ابھی تک اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ جیسے بھارت افغانستان میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے زور لگا رہا ہے۔ وہ اپنی ایمبیسی اور کونسلیٹ کو افغانستان میں بطور ٹھکانہ، بلوچ علیحدگی پسندوں کو ٹریننگ اور فنڈنگ کرنا، جو بلوچستان میں انارکی پھیلانے میں آگے آگے ہیں، افغانستان میں پاکستان کے اثرو رسوخ کو کم کرنے کی کوشش سمیت پاکستان میں دہشت گرد عناصر کے ساتھ تعاون میں پیش پیش ہے۔ جبکہ امریکہ کا اسرائیل کے ساتھ تعاون مسلسل جاری ہے اور افغانستان میں کل کے ہیرو اور آج کے دہشت گردوں کی لمبے عرصہ پرورش کی حتیٰ کہ روس کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔

امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اور کوئی نہیں مگر مسلم سوسائٹی بری طرح متاثر ہوئی۔ فلسطین، عراق، افغانستان اور کشمیر ایسے علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کو اذیتیں پہنچائیں جا رہی ہیں، محکوموں پر جبرو تشدد اور غیر ملکی قبضہ ہے۔ ان تمام واقعات سے مسلمانوں کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں دنیا رہنے کے لیے خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔ کیونکہ ہر عمل کا ردِ عمل ضرورت ہوتا ہے۔ یہ امریکہ کی مسلمان مخالف پالیسیاں ہی ہیں جس سے دنیا کے امن کو خطرات لاحق ہیں۔ یہ سچ ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک میں مسلمانوں کی مشکلات نائین الیون کے بعد سے بے اطمینانی کا باعث ہیں۔ بہت ساری امریکی ریاستوں میں ٹی وی اور ریڈیو پر زہریلی زبان کا استعمال ناصرف مسلمانوں بلکہ اسلام کے خلاف ہے۔ یورپی ممالک میں وقفے وقفے سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت سے پوری مسلم دنیا کے جذبات و احساسات اور دلوں کو زخمی کرتے ہیں۔

ہم دہشت گردی کے خلاف ہیں اور پاکستان کسی بھی قسم کی دہشت گردی کو جائز قرار نہیں دیتا اور نہ ہی ان کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ اور ہم نہیں سمجھتے کہ ممبئی حملوں میں کوئی پاکستانی(اجمل قصاب)ملوث تھا۔ جیسا کہ اجمل قصاب ممبئی کی عدالت میں اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات اور لشکر طیبہ کے ساتھ روابط سے انکار کر چکا ہے۔ ہم یہ نہیں سمجھ پائے کہ بھارت اگر پاکستان کے ساتھ امن چاہتا ہے تو وہ کشمیر کا مسئلہ کیوں نہیں حل کرتا؟ اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق وہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنی کی اجازت کیوں نہیں دیتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اور کیا یہ بددیانتی نہیں ہوئی کہ تقسیم ہند کے وقت تمام مسلم علاقے پاکستان میں شامل کیے جاتے؟

کیا امریکہ دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے؟اگر ہاں تو اسرائیل کو معصوم فلسطینی عوام کا خون بہانے سے کیوں نہیں روکتا؟اسے بھارت میں انتہا پسندی اور غنڈہ گردی کیوں دکھائی نہیں دیتی؟امریکہ کو صرف مسلمان ہی دہشت گرد کیوں دکھائی دیتے ہیں؟ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ امریکی مفادات کی بجاآوری، پاک فوج اور عوام کی دہشت گردی میں اتنی قربانیوں کے بعد ہمیں کیا ملا؟ ہم شاید بھول چکے ہیں کہ 71ء کی جنگ میں امریکہ نے ہمارے ساتھ کتنا بڑا دھوکہ کیا تھا۔ ہر پاکستانی بخوبی آگاہ ہے کہ امریکہ ہم سے کتنا مخلص ہے۔

پاکستان یقیناً اس وقت دہشت گردی کے مسائل سے دوچار ہے۔ اور یہی اصل وقت ہے جب بلخصوص امریکہ اور بھارت پاکستان سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے لیے اس کے ساتھ کھڑے ہوں اور بالعموم پوری دنیا ابتری سے نکالنے کے لیے اس کو مدد دے۔ پاکستان کا ہر عام و خاص شہری باقی دنیا کی طرح امن و آتشی سے رہنا چاہتا ہے۔
Hafiz Mansoor Jagiot
About the Author: Hafiz Mansoor Jagiot Read More Articles by Hafiz Mansoor Jagiot: 22 Articles with 18568 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.