کون ہے؟ افسانہ

موسم ابر آلود اور کالی گھٹا ہر سو چھائی ہوئی تھی۔ ایسے عالم میں وہ ایک تاریک کمرے میں بیٹھا اپنے ماضی کو یاد کر رہا تھا۔ اس کا بچپن، اس کا لڑکپن اور اس کی جوانی، اور ہر دور سے وابستہ حالات و واقعات۔ بادل کی گرج سے اس کے خیالوں کا تسلسل ٹوٹا۔ دل گھبرایا اور اس نے اٹھ کر کھڑکی کھولی۔ موسم ایک عجیب نظارہ پیش کر رہا تھا۔ سورج کی روشنی نے اپنا دم توڑ دیا تھا۔ سورج جیسے کالے بادلوں کے سامنے بے بس ہو چکا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اس تاریکی کو توڑ دینے کے لئے پورا زور لگا رہا ہو مگر ابر تھا کہ غصے میں دھاڑ رہا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایک شعلہ اگلا جو اس کے غصے کی انتہا تھی۔

اس نے سوچا، موسم کا یہ نظارہ تو بارہا اس کی زندگی میں رونما ہوا ہے مگر یہ منظر پہلے کبھی ایسے نہ تھا۔ خوف، اندھیرا، گرج اور چمک، ایسا لگ رہا تھا کہ آسمان زمین پر اپنا غصہ نکال رہا ہو۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اپنے دماغ کو کسی اور سوچ میں الجھانے کی کوشش کرنے لگا کہ بادل کی ایک اور دھاڑ سے اس کی آنکھیں خودبخود کھل گئیں۔ اب اسے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ بادل اسی پر گرج رہا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس پوری دنیا میں وہ اکیلا ہے اور تبھی بادل کو اس کے ہونے پر غصہ ہے اور وہ دھاڑ رہا ہے۔ سوچوں کی اسی کشمکش میں اس نے اپنے دل کو ٹٹولا تو اسے محسوس ہوا کہ وہ اکیلا نہ تھا۔ کوئی اس کی تنہائیوں میں بھی اس کے پاس تھا۔ اس کی ہمت بندھی اور پھر خلا میں تکنے لگا۔ نجانے آج کیا بات تھی کہ وہ بہت بے چین تھا۔ عجیب کشمکش تھی، وہ اوپر دیکھتا تو خوف سے کانپ جاتا اور اسے اپنا آپ تنہا اور بے بس لگتا۔ مگر جب وہ اپنے اندر جھانکتا تو اسے تنہائی کا احساس کم ہونے لگتا۔ آخر بادل ایک ماں کی طرح گرج کر، دھاڑ اور چیخ کر برسنے لگا۔ شائد اسے رحم آ گیا تھا کہ اس نے بہت غصہ کر لیا ہے اور زمین اب سہم گئی ہے۔ بارش ٹوٹ کر برسنے لگی۔ ایسے میں اس کا جی چاہا کہ وہ بھی رو دے، مگر اسے لگا کہ اس کی آنکھوں میں تو آنسو ہی نہیں تھے۔ اس احساس نے اسے تڑپا دیا۔ وہ سوچنے لگا کہ بادل تو دھاڑ کر آخر برس گیا مگر وہ آج کیسا بے بس ہے کہ دھاڑ بھی نہیں سکتا، گرج بھی نہیں سکتا اور آج تو برسا بھی نہیں جا رہا۔ ایسے عالم میں ایک دفعہ پھر اس نے اپنے دل کو ٹٹولا تو اسے پھر کسی کے ساتھ کا احساس ہوا۔ اس نے چاہا کہ اسے محسوس کرے کہ وہ کون ہے جو اس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ کیا اس کا باپ؟ نہیں یہ باپ کی شفقت نہیں تھی۔ پھر اس کی ماں؟ لیکن نہیں، یہ ماں کی محبت نھی نہیں تھی۔ اس کا بھائی؟ مگر یہ بھائی کی ہمدردی بھی نہیں تھی۔ اس کی بہن؟ مگر یہاں کوئی لاڈ نہیں تھا۔ اس کی بیوی؟ مگر یہان کوئی خدمت نہیں تھی۔ پھر اس کے بچے؟ مگر یہاں تو کوئی اطاعت بھی نہیں تھی۔ پھر وہ کون تھا؟ کون ہے؟ کون ہے؟ وہ چیخا اور اسے اپنی آواز بھی اجنبی لگی۔ وہ کون ہے، اس بیقراری نے اسے یوں تڑپایا کہ جیسے بن پانی کے مچھلی۔ اسے آرزو تھی کہ وہ اس کے بارے میں جانے جو اس کے ساتھ تھا۔ اس سے بات کرے۔ مگر اس ویران کمرے میں، اس وحشت میں اور اس خوف میں وہ صرف اسے محسوس کر رہا تھا۔ نہ دیکھ سکتا، نہ چھو سکتا، نہ اس سے بول سکتا، نہ اس کی سن سکتا۔ اس کی بیقراری اتنی بڑھی کہ وہ زمین پر گر کر تڑپنے لگا۔ ایک دفعہ پھر چیخنے کی کوشش کی مگر آواز حلق میں ہی پھنسی رہی۔ وہ اس سورج کی مانند بے بس ہو گیا جو کالے بادلوں کی اوٹ سے باہر نکلنے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا مگر بادل تھا کہ دھاڑ کر اسے روک رہا تھا۔ اب اسے نظر آنا بھی بند ہو گیا۔ اس نے پوری طرح اسے اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ وہ گرج رہا تھا، دھاڑ رہا تھا اور اپنا غصہ پوری طرح نکال رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ اسے اس سے کوئی انتقام لینا ہے۔ اس نے کوئی بڑا ظلم کیا ہے اس پر، اسے دبا کر رکھا ہوا تھا جو آج پہلی دفعہ سامنے آ رہا تھا۔ مگر وہ کون تھا؟ یہی جاننے کی بیقراری تھی اسے۔ وہ اسے پکارنا چاہتا تھا، مگر کس نام سے پکارتا۔ پھر اس نے سوچا کہ اس نے کس کے ساتھ ایسا ظلم کیا ہے کہ وہ اس کے ساتھ چمٹ گیا، چپک گیا اور اب اسے اکیلا دیکھ کر اپنا انتقام لے رہا ہے۔ اسے اس کے بڑھاپے پر بھی رحم نہیں آ رہا تھا۔ کس قدر بے بس اور بیقرار کر دیا تھا اسے۔ وہ مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا، مگر وہ تھا کہ جو صرف گرج رہا تھا انتہائی غصے کی حالت میں۔ یہاں تک کہ وہ نزع کے عالم میں پہنچ گیا، اور تب اسے آواز آئی:

“یہ میں ہوں، تیری آواز! یہ میں ہوں تیری سوچ! یہ میں ہوں تیری حقیقت! یہ میں ہوں تیری روح! تو نے مجھ پر بہت ظلم کیا۔ دیکھ بادل کیوں گرج رہا ہے۔ جانتا ہے تو؟“

“نہیں! میں نہیں جانتا“

“میں بتاتا ہوں، اسے غصہ ہے سمندر پر، جس کے اندر وہ رہتا تھا، مگر اس نے اسے اپنے اندر سے نکال کر بے رحم ہواؤں کے کندھوں پر سوار کر دیا جو اسے کہیں سے کہیں لئے جا رہی ہیں۔ اسے خوف ہے کہ ہوا اسے سنگلاخ چٹانوں یا بے جان زمین پر دے مارے گی، جہاں وہ اپنا وجود کھو دے گا۔ تبھی وہ دھاڑ رہا ہے سمندر پر کہ تو نے مجھ پر یہ ظلم کیوں کیا۔ اور اس ظلم میں سورج نے بھی اس کا ساتھ دیا تھا تبھی تو اس نے سورج کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ وہ واپس اسی سمندر میں جانا چاہ رہا تھا لیکن یہ ممکن نہیں۔

تو اے بد بخت! میں بھی تیرے اندر تھا جب تو پیدا ہوا بلکہ مجھ سے ہی تیرا وجود تھا۔ میں بھی تیرے ساتھ پل کر جوان ہونا چاہتا تھا مگر تو نے میری پرواہ نہیں کی۔ مجھے کوئی اہمیت نہیں دی۔ تو نے اس دنیا کی خاطر مجھے یعنی اپنے وجود کو اپنے اندر سے نکال باہر پھینکا۔ مجھے بھی بادل کی طرح بے رحم اور آوارہ ہواؤں کے کندھے پر بٹھا دیا اور خود تو کس طرح پلتا رہا، بڑھتا رہا، اور مجھ پر کیا کیا ظلم ہوا تجھے اندازہ نہیں۔ اب دیکھ ہوا مجھے اپنے کندھے سے اتار رہی ہے۔ اب یہ مجھے بادل کی طرح کسی چٹان پر دے مارے گی۔ میں اپنا وجود کھو دونگا، مگر اس سب کا قصوروار تو ہے۔ تو نے ہی یہ سب ظلم مجھ پہ کئے۔ اب میں اپنا غصہ تجھ پر نکال رہا ہوں۔ دیکھ میں بہت نرم مزاج تھا مگر تو نے مجھ پر جو ظلم کیا میں تیرے لئے آتشیں شعلہ بنوں گا کیا تجھے نہیں پتا تھا کہ میرے اندر صرف ٹھنڈک ہی نہیں آگ بھی ہے؟ تو نے ساری زندگی مجھ پر ظلم کیا اب میری باری ہے اپنا انتقام لینے کی۔ میں اب تجھ پر بجلی بن کر ٹوٹوں گا۔ تجھے اپنے شعلوں سے جلا دوں گا۔ میں خود اپنا وجود کھونے سے پہلے تجھے سزا دوں گا“۔

وہ سکتے کے عالم میں آ گیا۔ اس کی گویائی ختم ہو چکی تھی۔ ساری قوت جمع کر کے فقط اتنا کہہ سکا، “کیا تو مجھے معاف نہیں کر سکتا؟“

“تو نے مجھے معاف کیا تھا کیا؟ جب کہ میرا کوئی قصور بھی نہیں تھا۔ تو نے تو میری چیخوں کو بھی نہیں سنا، اپنے کان بند کر لئے تھے، میری تڑپ بھی نہیں دیکھی اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ اب مجھ سے معافی مانگتا ہے تو کیوں نہ میں بھی اپنے کان اور آنکھیں بند کر لوں۔ نہ تیری آواز سنوں نہ تیری تڑپ دیکھوں۔ “

سن! میں نے جتنا دھاڑنا تھا دھاڑ لیا، جتنا گرجنا تھا گرج لیا، اب میں برسوں گا لیکن بارش کی طرح نہیں بلکہ برف کی طرح اور ایسے برسوں گا کہ تجھے اپنی سفید چادر میں ڈھانپ کر نگل جاؤنگا۔ تجھے اپنے اندر پناہ دونگا اور پھر سے تجھے نکال باہر پھینکوں گا، ایسے ہی جیسے تو نے مجھے پھینکا تھا تاکہ تجھے اس کرب کا اندازہ ہو جو مجھ پر بیتا۔“

آواز بند ہو گئی، گرج چمک ختم ہو گئی اور وہ ہچکیاں لیتا ہوا بے جان ہو گیا کیونکہ اس نے اسے نگل لیا تھا اسے پھر سے باہر پھینکنے کے لئے۔
Nisar Zulfi
About the Author: Nisar Zulfi Read More Articles by Nisar Zulfi: 5 Articles with 5848 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.