کفن پہ لکھ دینا

دو کمروں کا پرانا خستہ حال مکان جس کی اینٹوں سے پلستر اتر چکا تھا ۔ آگے چھوٹا سا دلان جسے وہ کچھ باورچی خانے کے طور پر استعمال کرتے اور کچھ آئے گئے کے بیٹھنے کے لئے، اس سے آگے چھوٹا سا صحن تھا جسکی ایک سائیڈ پر پرانی سائکل کھڑی رہتی تھی جو اسکے اور بچوں کے لئے سواری کا کام دیتی تھی۔ وہ صبح سویرے اٹھتا نماز اور قرآن پاک کی تلاوت کے بعد محلے کے کنوئیں سے پانی بھر کر لاتا گھر میں سرکاری نل لگوانے کا اس نے بہت دفعہ سوچا تھا مگر جیب اجازت نہیں دیتی تھی۔ پانی بھرنے کے بعد وہ اپنی شیو بناتا اور سائکل صاف کرتا دریں اثناﺀ اسکی بیوی بھوجن تیار کرتی اور وہ زہر مار کر کے دفتر چلا جاتا۔ اس نے لنڈے سے دو پنٹیں اور دو شرٹیں دو سال پہلے خریدی تھیں اور ابھی تک دفتر جانے کے لئے اس کی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے تھیں۔ پینٹ کی سلائیوں میں دھاگا سفید ہو چکا تھا اور شرٹوں کا رنگ گھس گھس کر اتنا بد رنگ ہوچکا تھا کہ اب یہ طے کرنا محال تھا کہ انکا اصلی رنگ کیا تھا۔

ٓآج جب وہ دفتر پہنچا تو سارا ماحول بدلا ہوا تھا مٹھائی بانٹی جا رہی تھی مبارکیں دی جا رہی تھیں وہ اس دفتر میں پچھلے ۲۰ سال سے کام کر رہا تھا مالک کا کاروبار تو ان سالوں میں بہت پھیل چکا تھا اور وہ کروڑوں گنتا تھا مگر اس کی تنخواہ گننے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی تھی مگر اس نے اس پر کبھی زیادہ سوچا نہیں تھا شائد اسکے پاس سوچنے کا وقت ہی نہ تھا تانگے کے آگے جتے ہوئے گھوڑے نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ اس کو کتنی مسافت طے کرنا ہے اور منزل پر پہنچ کر اس کو کیا انعام ملے گا وہ تو کوچوان کے اشاروں پر ناچتا ہے جب اشارہ ملا رک پڑے، چل پڑے دوڑ پڑے۔ دفتر کے باہر مالک کی تین چار بڑی بڑی گاڑیاں کھڑی ہوتیں اور ان گاڑیوں کے پہلو میں ایک پرانی سائیکل شائد نظر بٹو کا کام دیتی تھی۔ آج مالک بہت خوش تھا اللہ نے اسے پوتے سے نوازہ تھا مالک نے اسے بھی بلایا اور مٹھائی پیش کی اور پھر اسے نیلے رنگ کا ایک نوٹ نکال کر دیا کہ جاؤ نئے کپڑے بنوا لینا وہ بہت خوش ہوا ہزار روپے کا یہ نوٹ اسکی توقع سے زیادہ تھا مگر دقت پیسوں کی تقسیم میں پیش آئی وہ ان پیسوں سے بہت سی چیزیں خریدنا چاہتا تھا مثلاً اپنے بیوی اور بیٹے کے کپڑے، پھل اور اسکے علاوہ وہ بیوی کو کچھ پیسے نقد بھی دینا چاہتا تھا اور جب سارا کچھ ان پیسوں میں ممکن نہ ہوا تو پھر وہ سوچنے لگا کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے وہ اسی کشمکش میں گھر کے قریب پہنچ گیا۔ اسکی بیوی کو برفی بہت پسند تھی بس اس نے ایک دوکان سے کچھ برفی خریدی اور گھر چلا آیا۔ گھر میں شرجیل کو دیکھ کر وہ اور خوش ہوا جس کے بارے میں اسکی بیوی اکثر کہتی تھی کہ بیٹا بالکل آپ پر گیا ہے اس نے بیٹے کو پیار کیا اور پڑھائی کے بارے میں پوچھا کہ کیسا چل رہا ہے تمہارا :ایم بی اے: بیٹے نے کہا بس بابا آخری سمسٹر ہے وہ بہت خوش ہوا اور دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرنے لگا کہ اس نے اسے ہمت دی اور وہ گاڑی کو کھینچ کر یہاں تک لے آیا۔ جب شام کو بیٹے نے کچھ پیسوں کا مطالبہ کیا تو بوڑھا باپ قدرے پریشان سا نظر آنے لگا پھر اس نے دل میں سوچا کہ اچھا ہی ہوا کہ اس نے نیلے نوٹ کو تقسیم نہیں کیا تھا ورنہ بیٹے کی ضرورت کیسے پوری کرتا۔

کچھ دنوں سے اسکی بیوی مرجھا سی گئی تھی اور کبھی کبھی تو رات کو اس کا سانس بھی رکتا تھا اس سے جو بن پایا اس نے دوا دارو کیا لیکن بات بنتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی تھی شائد گھوڑا یہ چڑھائی اتنی سواریوں کے ساتھ چھڑنے سے قاصر تھا ضروری تھا کہ کچھ بوجھ کم کیا جائے۔ پھر ایک دن اچانک اسے دفتر سے سیدھا ہسپتال جانا پڑا بیوی آخری سانسیں لے رہی تھی اس نے اسے پچھلے ۲۲ سال سے دو وقت کی روٹی اور پرانے کپڑوں کے سوا کچھ نہیں دیا تھا اور اب شائد کفن بھی ڈھنگ کا نہ دے سکے۔ کسی کے چلے جانے سے زندگی رکتی تھوڑا ہی ہے۔ گاڑی تو کھینچنی پڑتی ہے ایک سواری کے اتر جانے سے گھوڑے کو کچھ فرق نہیں پڑتا جب تک کہ ساری سواریاں منزل مقصود پر نہ پہنچ جائیں۔ اب اسکے کام میں اور بھی اضافہ ہو گیا تھا، گھر کے کام کاج سے لیکر روٹی ھانڈی تک خود ہی کرنی پڑتی اور شرجیل جو امتحان کے بعد رزلٹ کا انتظار کر رہا تھا اس کا بھی خیال رکھنا پڑتا۔ آخر کار شرجیل کا رزلٹ آیا اور اسے کسی مالیاتی ادارے میں نوکری بھی اچھی مل گئی تھی وہ بہت خوش تھا مگر خوشی تو عارضی ہوتی ہے ساون کی بارش کی طرح کچھ دنوں سے اسکی آنکھوں میں دھند سی چھائی رہتی تھی اور لکھنا پڑھنا مشکل ہورہا تھا وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح وہ بیٹے کی شادی دیکھ لے اور پھر نوکری سے پنشن لے کر حج کی سعادت حاصل کر لے اب تو نیا گھوڑا تانگے میں جوت دیا گیا تھا اور اس بڈھے گھوڑے کی چھٹی کا وقت آ گیا تھا۔ وہ بیٹے کی شادی کا سوچنے لگا ایک دو اچھے گھر کے رشتے اسکی نظر میں تھے مگر عشق کا تاب خود سر وہ بلا ہے کہ جس تن لاگے وہ تن کھائے، بیٹا ایک خوبرو کے حسن بے مثال میں ایسا اسیر ہوا کہ باپ بے چارے کو بہو گھر لانی ہی پڑی مگر ہر خوشی کے پہلو میں ایک غم ہوتا ہے بے چارہ باپ نوکری اور بینائی سے ہاتھ دھو بیٹھا بیٹا ڈاکٹر کے پاس لے کر پہنچا تو اس نے کہا بہت دیر کر دی آنکھوں کے پچھلے پردے ختم ہو چکے ہیں بہتر یہی ہے کہ بابا جی کا خود خیال رکھیں بصورت دیگر اگر کوئی ڈونر مل جائے تو بیرون ملک پردہ ٹرانسپلانٹ کروانے کے لئے جانا ہوگا۔ بابے نے کہا چلو پتر گھر چلیں میری آنکھیں تو تم ہو مجھے کیا ضرورت ہے آنکھوں کی بس بیٹا ایک دکھ رہے گا کہ قرآن کی تلاوت جاتی رہی کوئی بات نہیں میں سن تو سکتا ہوں ریڈیو سے سن لوں گا۔ بابے کی بہو بھی ملازمت کرتی تھی دونوں میاں بیوی بابے کو گھر میں بند کر کے چلے جاتے بابا دیواروں سے ٹکریں کھاتا پھرتا غسل خانے تک جاتا اور کبھی گلاس اور پانی کی طلب میں کچن میں گرتا پھرتا، برتن ٹوٹتے اور کئی بار تو بابا زخمی بھی ہوتا۔ بہو سے یہ بات برداشت نہ ہوئی اور میاں بیوی میں بابا باعث نزع بن گیا۔ بہو نے یہ بات اپنی ماں کو بتائی تو وہ آگ بگولا ہو گئی اور کہنے لگی کہ ہم نے تمہیں وہاں اندھوں کی خدمت کے لئے نہیں بھیجا میاں سے کہہ دو اپنے باپ کا انتظام کہیں اور کرے۔

وہ رات بہت بھیانک تھی بیٹے کی ساس گھر میں آئی ہوئی تھی اور خوب بحث ہو رہی تھی جب قدرے خاموشی ہوئی تو بابے نے سوچا وضو بنا کر مسجد نماز کے لئے جاتا ہوں جونہی بابے نے باتھ کا دروازہ کھولا ایک چیخ بلند ہوئی اور کسی نے بابے کو دھکا دے کر دروازے سے باہر گرا دیا پھر تو گھر میں کہرام مچ گیا پر بابے کی کون سنتا تھا بیٹے کی ساس حاوی تھی اسکے یہ فقرے بابے کے کان میں گولی کی طرح گونج رہے تھے کہ بس بیٹا میرے منہ سے نہ سنو کہ کیا ہوا میں تو کہتی ہوں اپنے باپ کی شادی کر کے اسے کسی دوسرے گھر میں شفٹ کردو اسی میں تمہاری بہتری ہے۔ آج بیٹا باپ پر برس رہا تھا اسے اندھی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو، کانپتے ہوئے ہاتھ اور لرزتے ہوئے ہونٹوں سے نکلتے ہوئے الفاظ سنائی نہیں دے رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہ پتر نہ، میں نے کچھ نہیں کیا پتر بابا مرجائے گا ۔۔۔او میرے سوہنے لعل نا کر ایسا پر بیٹا تو غصے میں ایک ہی بات کہہ رہا تھا کہ نکل جاؤ میرے گھر سے میں آپکی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔ ساس آگے بڑھی اور بیٹے کو سمجھایا کہ اس رات میں کہاں جائے گا بیچارہ صبح دیکھی جائے گی۔

میں پاکستان سے نیوزی لینڈ جا رہا تھا اور چیک ان ۱۰ بجے شروع ہونا تھا اور ابھی تو ۸ ہی بجے تھے میں نے سوچا عشاﺀ کی نماز پڑھ کر ایئر پورٹ چلتے ہیں اس لئے ٹیکسی سے قریبی مسجد میں اتر گیا میرے ہاتھ میں صرف ایک بیگ تھا میں فٹا فٹ مسجد کی سیڑھیاں چڑھ کر وضو کرنے بیٹھ گیا۔ میرے ساتھ ایک نابینا وضو کی چوکی پر بیٹھا مسلسل رو رہا تھا جب جماعت کھڑی ہوئی تو میں اسے سہارا دیکر صفوں کی طرف لے گیا۔ نماز کے بعد بڑی دیر تک وہ بیٹھا دعا مانگتا رہا اور اسکے آہ و گریہ کے شور سے پورا ہال گونج رہا تھا لوگوں نے اسے تسلی دلاسہ دیا اور از راہ عنایت کچھ پیسے بھی دیے جو آگے قالین پر پڑے تھے مگر بابے کے ہاتھ ابھی تک دعا میں مصروف تھے آخر مجھ سے نہ رہا گیا میں نے بابے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا بابا جی مجھے بھی اپنی دعا میں شامل کر لیجئے، میں نے بابے کو پانی لا کر دیا کچھ دیر بعد اسکی طبعیت ذرا سنبھلی تو بولا تمہیں پتہ ہے میں نے کیا دعا مانگی ہے میں نے کہا نہیں تو بابا بڑے گرجدار لہجے میں بولا موت میں نے کہا مگر وہ تو وقت سے پہلے نہیں آتی بابا بولا پھر میرا وقت آ گیا ہے پتر، میں نے ساری زندگی اس سے کچھ نہیں مانگا بس اسکی خدمت کی ہے، اطاعت کی ہے آج اسے میری ماننی پڑے گی وہ جانتا ہے خود کشی حرام ہے اسی لئے تو اس سے موت مانگی ہے۔ تم میرے شرجیل کو فون کرو اور اسے کہنا کہ میں نے اسے معاف کر دیا بابا میرے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی ڈائری دے کر پھر سجدے میں گر گیا میں مسجد کے صحن کی طرف آیا تاکہ فون کر سکوں اور ڈائری کے صفحوں سے فون نمبر تلاش کرنے لگا اس ڈائری میں تو پوری کہانی لکھی ہوئی تھی، اتنی دیر میں مسجد کی انتظامیہ کا ایک آدمی میرے پا س آیا اور کہنے لگا کہ اگر آپ نے نماز پڑھ لی ہو تو مسجد خالی کردیں تاکہ تالا لگایا جا سکے۔ جب ہم دونوں بابے کے پاس پہنچے تو بابا حالت سجدہ میں دم دے چکا تھا۔ بابے کی ڈائری سے مجھے ایک شعر ملا شائد وہ بابے نے خود لکھا تھا۔

ہم مریں تو کفن پہ لکھ دینا
عذاب سارے تو سہ گیا کوئی
Sadeed Masood
About the Author: Sadeed Masood Read More Articles by Sadeed Masood: 18 Articles with 23240 views Im broken heart man searching the true sprit of Islam.. View More