نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک کے چاروں صوبوں میں آپریشن
شروع ہوئی۔ جس میں دھشتگرد وں، ٹارگیٹ کلروں، اغوا براء توان، چائنہ کٹنگ،
کرپٹ افسران و دیگر جرائم پیشا عناصر کے پکڑ شروع ہوگئی۔ اور آپریشن کے بعد
کراچی کی رونقیں لوٹ آنا شروع ہوئی۔ کراچی کے لوگ بہت خوشی محسوس کر رہے
تھے۔ اور ملک میں سرمایہ کاری بھی ہونے لگی۔ اور رینجرز نے بہت سارے لوگوں
کو بہی پکڑا جو ان کی مدد کر رہے تھے۔ ساتھ ساتھ رینجرز نے کرپٹ لوگوں کو
بہی پکڑنا شروع کیا جو کرپشن کرکے اپنا شیئر اوپر تک پہنچا رہے تھے۔ تو
سندھ حکومت کو لگا کے یے ھاتھ ھمارے گلے تک بھی پہنچ سکتے ہین۔ اس کے بعد
سندھ حکومت نے ایک شترنج کی چال چلی اور رینجرز کے اختیارات محدود کر دیے۔
اس کے بعد ملک کی سیاسی پارٹیوں نے سندھ حکومت کو اپنی تنقید کا نشانہ
بنایا۔ اور رینجرز کے اختیارات کے لیے ملک کی تمام پارٹیز، سوشل سماجی لوگ،
تاجر برادری، وکیلوں نے بہی احتجاج کیا کے ریجرز کے اختیارات محدود نہ کیے
جائنں۔ اور یہ بات وفاقی حکومت کو بہی قابل قبول نہیں تھی۔ وزیرآعظم کراچی
دورے پر آئے۔ تو وزیراعلئ نے شکایت کی کے وفاقی حکومت سندھ کی خودمختیاری
پر حملہ کر رہی ہے۔ وزیرآعظم نے وزیراعلئ کو اسلام آباد آنے کی دعوت دے دی۔
دونوں کی ملاقات خوشگوار مونڈ میں ہوئی۔ ملاقات میں وزیراعلئ سندھ نے اپنے
تحفظات آگاھ کیا اور کہا کے فاقی حکومت سندھ کی خودمختیاری پر حملا نہ کرے۔
وزیرآعظم نے جواب میں کہا کے کراچی آپریشن پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
دونوں نے آپریشن جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔ وزیرآعظم نے رینجرز کے تمام
اخراجات ادا کرنے کی یقین دھانی کروائی۔ اس سے توقع ہے کے آپریشن مستقبل
میں نہیں رکے گا۔ |